تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     18-11-2020

انسانی تاریخ کے آخری لوگ؟

ہمارا دور انسانی تاریخ کا خطرناک ترین دور ہے۔ ہمارے دور کا انسان خود اپنے ہاتھوں سے ہمارے ارد گرد کی کائنات کو بہت ہی بے دردی سے تباہ کر رہا ہے۔ تباہی کی یہ رفتار بہت تیز ہے۔ اگر تباہی اور بربادی کی یہ رفتار جاری رہی تو بہت لمبا عرصہ نہیں بلکہ محض چند عشروں کے اندر اس سیارے کی انسانی زندگی کو سہارا دینے کی صلاحیت بہت کم ہو جائے گی اور جلد ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ یہ سیارہ یہ صلاحیت ہی کھو بیٹھے۔ ہم انسانی تاریخ کے پہلے لوگ ہیں جن کو اس سنگین صورت حال کا گہرا اور مکمل ادراک ہے اور ہم ہی انسانی تاریخ کے آخری لوگ ہیں جن کے پاس یہ موقع ہے کہ ہم اس سیارے پر نسل انسانی کو بچانے کے لیے کچھ کر سکتے ہیں۔ ہم سائنس پر یقین رکھنے والی نسل ہیں۔ عملی دنیا میں در حقیقت سائنس ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ہم زندگی کے تقریباً ہر معاملے میں سائنس سے رہنمائی لینے اور اس پر تکیہ کرنے پر مجبور ہیں‘ خواہ سائنس پر ہمارا یقین بہت گہرا نہ بھی ہو۔
ماحولیات کے حوالے سے مگر سائنس جو کچھ ہمیں بتا رہی ہے اس پر یقین کرنے میں ہمیں دشواری پیش آ رہی ہے کیونکہ یہ بات بہت ہی ڈرائونی ہے اور خوفزدہ کر دینے والی ہے۔ سائنس ہمیں یہ ناقابلِ یقین بات بھی بتا رہی ہے کہ ہمارے پاس اپنی بقا کے لیے کچھ کرنے کے لیے صرف دس سال ہیں۔ ان دس سالوں میں ہماری زندگی اور موت کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے پاس صرف دس سال ہیں جن میں ہم دنیا کا درجہ حرارت خوفناک اور تباہ کن حدوں کو چھونے سے روک سکتے ہیں۔ دس سال بعد جو خوفناک موسموں کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے شاید اس کو ہم روکنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔
آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے درجہ حرارت کے باب میں تاریخ کے بڑے بڑے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ آئے دن ہمیں خوفناک سیلابوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بد ترین خشک سالی سے واسطہ پڑتا ہے‘ جس کا شاید کبھی انسان نے تصور نہ کیا ہو۔ جنگل میں خوفناک آگ بھڑکنے سے لے کر خوفناک طوفانوں اور سیلابوں تک ہمیں کیسی کیسی بلاؤں سے پالا پڑتا ہے۔ ہماری مشکلات صرف خشکی تک ہی محدود نہیں ہیں۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں بہت جلد سمندروں اور گلیشئرز میں بھی اسی طرح کی تباہ کن صورت حال کا سامنا ہو گا۔ سائنس ہمیں بتا رہی ہے کہ جو گلیشئر پگھل رہے ہیں اور برف پگھل رہی ہے اس سے سطح سمندر 20 فٹ کی بلندی تک جا سکتی ہے جس کی وجہ سے دنیا کے کئی گنجان آباد ساحلی علاقے زیر آب آ سکتے ہیں۔ دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہم دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں‘ جہاں کبھی موسم گرما میں درجہ حرارت بہت خوش گوار ہوتا تھا‘ وہاں سخت قسم کی گرمی دیکھ رہے ہیں اور سردیوں میں بھی عجیب و غریب موسمی تغیرات سے واسطہ پڑ رہا ہے۔ ان حالات میں اس وقت دنیا میں مسئلہ صرف اور صرف ایک ظالمانہ طبقاتی نظام کو بدلنا اور اس کی جگہ ایک منصفانہ سماج کا قیام ہی نہیں بلکہ اس وقت اس دنیا میں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے‘ جس میں کسی قسم کا استحصال نہ ہو‘ جس میں انسان اور فطرت کے درمیان ایک غیر استحصالی رشتہ قائم کرنے کی گنجائش موجود ہو۔
کورونا کی وجہ سے دنیا کی معیشت کو ایک وقفہ ملا ہے۔ اس وقفے سے فائدہ اٹھا کر اس وقت دنیا میں ہمارے پاس زہریلی اور تباہ کن گیسوں سے پاک ایک نئی معیشت کی تعمیر کا موقع ہے۔ اس موقع سے استفادہ نہ کرنا انسانیت کے خلاف جرم کے ارتکاب کے مترادف ہے۔ اس وقت دنیا میں کورونا وائرس سے تباہ شدہ معیشت کی از سر نو تعمیر کے لئے ٹریلین ڈالرز خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں وسائل خرچ کئے گئے تو پرانے فرسودہ اور گلے سڑے غیر فطری نظام کو بچانے کے بجائے انسان اور فطرت کے درمیان ایک نیا رشتہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے انسانی وسائل کا ضرورت سے زیادہ استحصال کر لیا ہے۔ ہم اس وقت اس کائنات میں اس کی سکت و بساط سے زیادہ کچرا پھینک رہے ہیں۔ جو لوگ نئے پاکستان اور نئے نظام کی بات کرتے ہیں‘ انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کوئی نیا پاکستان یا نیا نظام مردہ سیارے پر نہیں کھڑا ہو سکتا۔ نئے نظام کی تعمیر سے پہلے آسمان کی طرف دیکھنا ضروری ہے جو بہت آلودہ ہے اور زہریلی و تباہ کن گیسوں سے بھر چکا ہے۔
فطرت کے ساتھ انسانی رشتے میں پہلے ہم صرف ماحولیاتی تبدیلی کی بات کرتے تھے‘ لیکن اب یہ بحران اس قدر بڑھ گیا ہے کہ معاملہ صرف ماحولیاتی تبدیلی تک محدود نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ہم ایک ایسی حد تک پہنچ چکے ہیں جس کو پار کرنے کے بعد ہم اس کائنات کے ایکو سسٹم کو نا قابل مرمت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس وقت ہمارے اس سیارے پر جانداروں کی کئی اقسام جس تیزی سے ختم ہو رہی ہیں اور یقیناً یہ صورتحال بے حد خوفناک ہے۔ اسے سائنس دان اس کائنات کی تاریخ میں چھٹی بڑی تباہی قرار دے رہے ہیں۔ وہ اس کو 65 ملین سال پہلے ڈائنوسار کے معدوم ہونے کے بعد دنیا کی سب سے بڑی تباہی قرار دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق آج سے پانچ سال بعد دنیا میں ایک اعشاریہ آٹھ ارب لوگ پانی کی سخت تنگ دستی کا شکار ہوں گے۔ ہمارے دریا سوکھ سکتے ہیں اور پانی پر دنیا کے مختلف ممالک اور اقوام کے درمیان سخت قسم کے تصادم اور جنگیں ہو سکتی ہیں۔ ہم جس رفتار سے زمین سے پانی نکال رہے ہیں اور اس کو استعمال کر رہے ہیں وہ نا قابل یقین ہے۔ اگر ہم پوری دنیا میں نہیں صرف اپنے ارد گرد ہی دیکھیں تو اس وقت بھارت چین اور پاکستان میں صرف زراعت کے لیے جو پانی نکالا جاتا ہے وہ ہر سال 400 کیوبک کلو میٹر ہے۔ اس وقت دنیا میں ہمارا یہ سیارہ 7 ارب سے زائد لوگوں کو کھانے پینے کی چیزیں مہیا کر رہا ہے۔ جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے اتنی بڑی آبادی کو سہارا دینے کے لیے اس کائنات میں صلاحیت نہیں ہے۔ کائنات کے استحصال اور ہماری بے رحمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا میں ڈیڈ زون پیدا ہو رہے ہیں۔ گلوبل وارمنگ‘ سمندری طوفان‘ سیلاب‘ زلزلے اور دوسری قدرتی آفات ہمارے اور فطرت کے درمیان استحصالی اور غیر فطری رشتے کے عکاس ہیں۔ اس رشتے کے تسلسل سے ان آفات و بلیات میں اضافے اور شدت کے واضح امکانات ہیں۔ اگر ہم کائنات سے یہ غیر فطری رشتہ نہیں بدلتے تو نا صرف ہم اپنی خود کشی کے اسباب پیدا کر رہے ہیں‘ بلکہ ہم اپنے ارد گرد ایک ایسا زہریلا ماحول پیدا کر رہے ہیں جس میں آئندہ نسلوں کے لیے زندگی کے امکانات نہیں ہیں۔ نیا پاکستان بنانے والے جس معیشت کا آغاز کر رہے ہیں اس کو نئی ماحول دوست پالیسیوں کے تابع کرنا لازم ہے۔
کورونا کی وجہ سے دنیا کی معیشت کو ایک وقفہ ملا ہے۔ اس وقفے سے فائدہ اٹھا کر اس وقت دنیا میں ہمارے پاس زہریلی اور تباہ کن گیسوں سے پاک ایک نئی معیشت کی تعمیر کا موقع ہے۔ اس موقع سے استفادہ نہ کرنا انسانیت کے خلاف جرم کے ارتکاب کے مترادف ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved