ریاستی قوت کے باوجود سادہ اکثریت
حاصل نہ کرنا شرمناک ہے: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ریاستی قوت کے باوجود سادہ اکثریت حاصل نہ کرنا شرمناک ہے‘‘ اگرچہ جو کچھ اتنے دعووں کے باوجود ہم حاصل کر سکے ہیں‘ وہ بھی کچھ ایسا ہی ہے اور اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت جس قدر دھاندلی کرنا چاہتی تھی‘ ہمارے خوف کی وجہ سے اتنی نہیں کر سکی اور یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے،جب ہمارے پاس ریاستی قوت ہوتی تھی تو ہم دو تہائی اکثریت حاصل کیا کرتے تھے اور یہ بھی حکومت کی نا اہلی کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ وہ ریاستی قوت ہونے کے باوجود ایسا نہیں کر سکی، کم از کم اس پر ہی اسے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں گلگت انتخابات پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
دھاندلی ہوتی تو پی ٹی آئی 35 سیٹیں جیت لیتی:شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''دھاندلی ہوتی تو پی ٹی آئی 35 سیٹیں جیت لیتی‘‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دھاندلی نہیں ہوئی اور ہمارا فوکس چند دیگر انتظامات ہی پر رہا اور انہیں دھاندلی نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ عوام ہمیشہ حکومتی پارٹی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور جو چند سیٹیں اپوزیشن کو میسر آئی ہیں یہ عیاشیوں سے کم نہیں‘ انہیں اسی پر اکتفا کرنا چاہیے جیسے ان کے دور میں ہم نے ایک آدھ سیٹ پر ہی گزارہ کیا تھا۔ انتخابی نتائج کو نوشتۂ تقدیر سمجھ کر بھی برداشت کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اپوزیشن کے الزامات پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
الیکشن چوری ہوا، ہم بھی جذباتی ہو سکتے ہیں: بلاول
چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''الیکشن چوری ہوا، ہم بھی جذباتی ہو سکتے ہیں‘‘ اور جذباتی ہو کر ہم اینٹ سے اینٹ بھی بجایا کرتے ہیں جو کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ دو اینٹوں کو پکڑ کر آپس میں بجانا ہی ہوتا ہے حالانکہ اس سے کوئی خاص اچھی موسیقی پیدا نہیں ہوتی اور یہ جو ہم نے وہاں اپنی حکومت بنانے کا دعویٰ کیا تھا‘ تو وہ بھی غلط نہیں تھا کیونکہ وہاں اب بھی حکومت ہماری ہی ہو گی جبکہ یہ بات مجھے وہاں کے لوگوں نے بتائی ہے اور انہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ اس لیے دیے ہیں کہ وہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح گلگت میں بھی ناکام ہو اور اس گرتی ہوئی دیوار کو گرانے کیلئے صرف ایک دھکے کی ضرورت باقی رہ جائے۔ آپ اگلے روز گلگت انتخابات پر اپنے رد عمل کا اظہار کر رہے تھے۔
اپوزیشن کے کرپشن مقدمات کو اجاگر کریں گے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن رہنمائوں کے کرپشن مقدمات کو اجاگر کریں گے‘‘ پیشتر اس کے کہ ہمارے اپنے لوگوں کے کرپشن مقدمات اجاگر ہو جائیں وگرنہ یہ صرف انتقامی کارروائی ہو گی۔ اگر اپوزیشن اپنے خلاف مقدمات کو انتقامی کارروائی کہہ سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں کہہ سکتے؟ البتہ ہم شوگر مل والوں سے کہیں گے کہ پیشتر اس کے کہ مقدمہ واقعی شروع ہو جائے، سبسڈی وغیرہ کی مد میں جو پیسے انہیں دیے گئے تھے‘ وہ حکومت کو واپس کر دیں کہ روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے اور وہ جب چاہیں اپنے ہاتھ دوبارہ بھی میلے کر سکتے ہیں جبکہ دولت آنی جانی چیز ہے، یہ آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ اور چلی جانے کے بعد پھر آ جاتی ہے۔ آپ اگلے روز قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
جلسوں پر پابندی اپوزیشن کیلئے لگائی جا رہی ہے: میاں افتخار
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سیکرٹری اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ ''جلسوں پر پابندی پی ڈی ایم کے لیے لگائی جا رہی ہے‘‘ جبکہ یہ ایک فضول کام ہے کیونکہ پی ڈی ایم کے جلسوں سے حکومت کا کیا بگڑ رہا ہے، اُلٹا اس کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے پی ڈی ایم کو یہ کام اپنے آپ ہی موقوف کر دینا چاہیے کیونکہ گلگت بلتستان میں اس نے اپنا حشر دیکھ ہی لیا ہے اور زندہ جماعتیں وہی ہوتی ہیں جو تاریخ سے سبق حاصل کرتی ہیں بلکہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف بددعائوں کا ایک بھرپور سلسلہ شروع کر دے جس سے حکومت کو نانی یاد آ جائے کیونکہ بڑے بزرگوں کو فراموش کر دینا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اپوزیشن کو چاہیے کہ اچھے بچوں کی طرح
شکست تسلیم کرے: فردوس عاشق
مشیر اطلاعات پنجاب فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کو چاہیے کہ اچھے بچوں کی طرح شکست تسلیم کرے‘‘ اگرچہ آج کل اچھے بچے بھی آسانی سے اپنی شکست کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اچھے بچے دستیاب ہی کہاں ہوتے ہیں جبکہ جیسے والدین ہیں، ویسے ہی اُن کے بچے ہیں، اس لیے بچوں سے بڑھ کر اُن کے والدین پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اور جب والدین ٹھیک ہوں گے تو بچے اپنے آپ ہی سدھر جائیں گے؛ اگرچہ والدین کو حکومتی اقدامات سے سبق حاصل کرتے ہوئے خود ہی درست ہو جانا چاہیے جس کیلئے ہم بھی اپنی سی کوشش کریں گے ورنہ کم از کم ان کی طبیعت ضرور درست بلکہ مزید درست ہو جائے گی۔ آپ اگلے روز جی بی انتخابات پر اپوزیشن کے بیانات پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں امجد بابر کی یہ نظم :
زندگی سے خالی لوگ
کھڑکی سے دُور
اُس پار
بادلوں سے بھی آگے
سمندر کے درمیان میں کہیں
بالکل نہیں
بھاگتی دوڑتی چیخوں کے
شور شرابے میں
بھیگتے ہوئے شہر کی نشیلی راتوں میں
زندہ مجسموں کے آس پاس کہیں
وہ بالکل نہیں
رواں دواں سڑک پہ سرخ اشارے کی طرح
خواہشوں کے مینار کی تعمیر
جذبوں کی توسیع سے خالی
پارک کے کسی گمنام گوشے میں
چنار کے درخت کی صورت
خود ساختہ سائے کی چھائوں میں
سسکتے‘ تڑپتے
اکیلے پن کی بے ریا مسافتوں کے گیت گاتے
محرومیوں سے لتھڑے ہوئے لوگ
مجھ سے مل کر بغل گیر ہوتے ہیں
میں جو صدیوں کی
رازوں بھری تاریخ کا
بوجھ اٹھائے ہوئے ان سے ملتا ہوں
تو رو پڑتا ہوں
آج کا مطلع
خبر نہیں تو خبردار ہو بھی سکتا ہے
جو سو رہا ہے وہ بیدار ہو بھی سکتا ہے