تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     18-11-2020

سراج الحق صاحب کو صدمہ

جماعت اسلامی کے امیر‘ برادرِ اکبر سراج الحق ایک درویش صفت، نیک سیرت اور دین سے محبت کرنے والے رہنما ہیں۔ میرے ان کے ساتھ تعلقات کئی برسوں پر محیط ہیں۔ ان تمام برسوں کے دوران مجھے منصورہ و دیگر مقامات پر ان کے ہمراہ بہت سے پروگراموں میں شرکت کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے ان کی شخصیت کا بڑے قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ برادر سراج الحق میں سنجیدگی اورمتانت پائی جاتی ہے اور آپ بے مقصد گفتگو سے احتراز برتتے ہیں۔ آپ مسلسل جدوجہد کے عادی ہیں اور عوام الناس سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے کارکنان کے علاوہ بھی دیگردینی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتے ہیں۔ کچھ برس قبل میں نے انہیں مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ پر سالانہ تقریب صحیح بخاری میں شرکت کی دعوت دی۔ آپ وہاں پرآئے اور بہت ہی اچھے انداز میں سنت کی اہمیت اورحرمت رسولﷺ کے حوالے سے بہترین جذبات کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد بھی آپ کے ساتھ مسلسل رابطہ رہا۔ 
اس سال محرم الحرام میں تحریکِ دفاع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے بڑے بڑے اجتماعات کا انعقاد کیاگیا۔ سراج الحق صاحب نے بھی منصورہ میں ایک بڑے پروگرام کا اہتمام کیا جس میں مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔ تمام مقررین نے اپنے اپنے انداز میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت کو بیان کیا۔ برادر سراج الحق نے بھی اس موقع پر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت پر بڑے ہی مؤثر انداز میں روشنی ڈالی اور حضرت صدیق اکبر ؓ کوبڑے ہی شاندار انداز میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس کے بعد شرقپور میں بھی اسی عنوان پر ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا اور وہاں پر بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت وکردار کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اس موقع پر برادر سراج الحق اور میری تمام مکاتب فکر کے جید علماء سے بھی ملاقات کی۔ 
چند ہفتے قبل جماعت اسلامی کے اُمور خارجہ کے ناظم برادر عبدالغفار عزیز کا انتقال ہو گیا۔ برادر عبدالغفار عزیز ایک علمی شخصیت تھے اور آپ کو عربی زبان پر عبور تھا۔ جماعت اسلامی کے بیرونی رابطوں کے حوالے سے آپ اہم اُمورکی نگرانی کیا کرتے تھے۔ برادر عبدالغفار عزیز کے ساتھ میرابھی بڑا گہرا تعلق تھا۔ آپ کی خوش اخلاقی، للہیت ،ذکر الٰہی کے ساتھ تمسک اور آپ کی دل آویز شخصیت یقینا ناقابل فراموش ہے۔ اس حوالے سے ہونے والے پروگرام میں شرکت کا مقصد برادر عبدالغفار کی شخصیت کے خوبصورت گوشوں کو اہل علم ودین کے سامنے رکھنا تھا۔ برادر سراج الحق نے اس موقع پر بہت ہی خوبصورت انداز میں اظہارِ خیال کیا اور برادر عبدالغفار عزیز کی دینی اور جماعتی زندگی کو بہت ہی اچھے انداز میں اجاگر کیا۔ اس موقع پر میں نے بھی اپنی چند گزارشات دوستوں کے سامنے رکھی تھیں اور برادر عبدالغفار عزیز کی شخصیت کے اہم گوشوں کو عوام الناس کے سامنے پیش کرکے بامقصد زندگی گزارنے کی اہمیت اجاگر کی تھی۔ برادر عبدالغفار عزیز کی یاد میں ہونے والی اس تقریب کے بعد برادر جاوید قصوری مجھے منصورہ کے مرکزی دفتر میں لے گئے اور ہم تادیر برادر سراج الحق کے ہمراہ بیٹھے رہے۔ اس دن بڑے بے تکلفانہ انداز میں ملکی سیاست کے حوالے سے اپنے اپنے نقطہ نظر کو ایک دوسرے کے سامنے رکھا اور دینی جماعتوں کے مشترکات کی بنیادپر متحد ہونے کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی۔
ملک کے سیاسی معاملات ایک عرصے سے الجھے ہوئے ہیں جن کی اصلاح اور سلجھاؤ کی کوشش کے باوجود معاملات بہتر ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ قیام پاکستان کے مقاصد کو فراموش کرنا ہے۔ قیام پاکستان کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ جس میں اسلام کے آفاقی اصولوں کے مطابق حکومت کی جائے اور تمام پاکستانیوں کے معاملات کو کتاب وسنت کی روشنی میں حل کرنے کی جستجو کی جائے۔ ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے تحریک پاکستان کے قائدین نے زبردست قربانیاں دی تھیں لیکن بوجوہ تحریک پاکستان کے قائدین کے وژن کے مطابق پاکستان آگے نہ بڑھ سکا اور سرمایہ داروں اور جاگیر داروں نے پاکستان کی نظریاتی سمت کو بدلنے کی بھرپور کوشش کی۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے اپنی بساط کے مطابق پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے کردار ادا کیا لیکن پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب تاحال شرمندہ ٔ تعبیر نہیں ہو سکا۔ اس وقت بھی مختلف مقامات پر شراب کی خریدوفروخت جاری ہے، قحبہ گری کے اڈے بھی موجود ہیں، معیشت سودی لین دین پر استوار ہے جو تمام پاکستانیوں کے لیے بالعموم اور پاکستان کے مذہبی طبقات کے لیے بالخصوص ایک المیہ ہے۔ ان تمام قباحتوں سے نجات حاصل کرنے اور پاکستان کو صحیح سمت پر چلانے کے لیے دینی جماعتوں کا یکسو ہونا انتہائی ضروری ہے۔ 
اس دن جناب سراج الحق نے اس حوالے سے بہت درد بھری گفتگو کی اور پاکستان کی بہتری کے لیے تمام دینی جماعتوں کے متحد ہونے کی تمنا کا اظہار کیا۔ آپ کے لہجے میں درد کے ساتھ ساتھ عزم اور اُمید کا رنگ بھی تھا اور آپ پاکستان کے دیگر دینی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مجھ سے بھی اس بات کی توقع کر رہے تھے کہ مجھے بھی اپنی زبان اور قلم کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ سچی بات یہ ہے کہ میرے اپنے نقطہ نظر کے مطابق بھی پاکستان کے مسائل کا حل کتاب وسنت کے عملی نفاذ میں پنہاں ہے۔ اس حوالے سے ان کی گفتگو کی میں نے بھرپور تائید کی اور بہت سے خوشگوار جذبات کولیے ہوئے وہاں سے اُٹھ آیا۔ 
ہفتہ رواں کے دوران مجھے جب اس بات کا علم ہوا کہ برادر سراج الحق کی والدہ محترمہ دنیا میں نہیں رہیں تو اس صدمے کو سراج الحق صاحب کے ساتھ ایک برادرانہ نسبت کی وجہ سے میں نے بھی بڑے گہرے انداز میں محسوس کیا۔ ماں کی محبت اور شفقت یقینا زندگی کا ایک اہم باب ہے اور جتنا خلوص ،پیار اور خیر خواہی ماں میں پائی جاتی ہے‘ سچی بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی رشتے میں اس حد تک خیر خواہی نہیں پائی جاتی۔ ماں کا انتقال جہاں پر پیار کے خلا کا سبب بنتا ہے وہیں پر دعاؤں کا ایک بہت بڑا باب بھی بند ہو جاتا ہے اورانسان کو پہلے کے مقابلے زیادہ محتاط زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ سراج الحق صاحب کی والدہ کے انتقال پر مجھے بھی اپنی والدہ مرحومہ کی بہت زیادہ یاد آئی اورا ن کے پیاراور شفقت کااحساس ایک مرتبہ پھر دماغ میں اُبھر آیا۔ میرے ذہن کی سکرین پر بچپن کے واقعات چلنے لگے کہ کس طرح والدہ ہمارے لیے ناشتہ اور کھانا تیار کرتیں ، سکول کا یونیفارم استری کرکے ہمیں پہناتیں اور سکول سے واپس آنے پر ہمارے ہوم ورک چیک کرتیں ، رزلٹ والا دن ہمارے لیے بہت تشویش والا دن ہوا کرتا تھا کیونکہ والدہ کی توقعات سے کم نمبرز لینے کی صورت میں بہت زیادہ تادیب اور ڈانٹ کا سامنا کرنے کے امکانات ہوا کرتے تھے۔ والد مرحوم کے انتقال کے بعد وہ پانچ برس تک زندہ رہیں اوراس دوران ہمارے حوصلوں کو بندھاتی رہیں۔ آپ والد محترم کے انتقال کے بعد افسردگی اور غم کا شکار رہا کرتی تھیں اور زندگی کے بہت سے مواقع پر ان کی کمی کومحسوس کیا کرتی تھیں۔ پانچ برس کے بعد آپ ایک دن اچانک اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ ہسپتال میں مَیں آپ کے پاس ہی کھڑا تھا، آپ کی جدائی پر میں نے اپنے اندر ایک عجیب بے بسی کی لہر کو اترتے ہوئے محسوس کیا۔ آپ کے انتقال کو 28 برس کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن تاحال آپ کی یادیں دماغ کی سکرین پر چلتی محسوس ہوتی ہیں۔ زندگی کی ہر خوشی اور غمی کے دوران آپ کے پیار اور محبت کی کمی محسوس ہوتی ہے اور آپ کی جدائی کا احساس دوبارہ ابھر کر سامنے آجا تا ہے۔ 
برادر سراج الحق جس صدمے کاشکار ہوئے ہیں‘ میں اس کی کیفیت کو محسوس کر سکتا ہوں۔ برادر سراج الحق کوان کی والدہ کا جنازہ پڑھاتے دیکھ کر کچھ اطمینان بھی ہوا کہ برادر سراج الحق نے اپنی والدہ کو بہت سی دعاؤں کے ساتھ اس دنیا سے رخصت کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے اور سراج الحق اورا ن کے اہلِ خانہ کو اس صدمے پر صبرِ جمیل نصیب فرمائے اور ہم سب کو اپنی ماؤں کی خدمت کرنے والا اور دنیا سے چلی جانے والی ماؤں کے لیے صدقہ جاریہ بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved