تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     18-11-2020

منصوبہ سازی کا جادو

ہم میں سے ہر ایک میں صلاحیتوں کے خزانے موجود ہیں، ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر کر نہیں پاتے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہماری بیشتر صلاحیتیں دبی رہ جاتی ہیں؟ بات کچھ یوں ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بارے میں زیادہ سوچتے نہیں، سنجیدہ نہیں ہوتے۔ کیا ہمارا بیشتر معاملات میں ناکام رہ جانا یا بھرپور کامیابی حاصل نہ کر پانا اس لیے ہے کہ ہم محنت نہیں کرتے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ہم سب زندگی بھر محنت کرتے ہیں۔ پھر بھی کچھ زیادہ یا خواہشات و توقعات کے مطابق حاصل نہیں ہو پاتا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ سمت اور ہدف کا تعین کیے بغیر کی جانے والی محنت صرف ضائع ہوتی ہے۔ اگر ہم سوچ سمجھ کر محنت کریں یعنی منصوبے کے مرحلے سے گزر کر‘ کچھ طے کرکے کام کریں تو بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ منصوبہ سازی سے بہت سے کام آسان بنائے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ جو کچھ بھی ہم کریں وہ ہدف سے مطابقت رکھتا ہو۔ ہدف بھی واضح اور حقیقی ہونا چاہیے۔ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے منصوبہ سازی کے تحت کرنا ہے۔ ایسی حالت میں ہم بہت کچھ بہت آسانی کرسکتے ہیں۔ جیک کالس (Jack Collis) نے اپنی کتاب ''ورک سمارٹر ناٹ ہارڈر‘‘ میں منصوبہ سازی کی اہمیت پر بحث کی ہے۔ یہ بحث آپ کو بہت کچھ دے سکتی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ زندگی کے دامن میں ہمارے لیے کیسی کیسی نعمتیں، کیسی کیسی کامیابیاں ہیں اور ہم کس طور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ کامیابی سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔ جیک کالس کے نزدیک یہ نکتہ ہر وقت ذہن نشین رکھنا لازم ہے کہ حالات بدلتے رہتے ہیں‘ اور یہ بھی کہ بدلتے ہوئے حالات پر ہمارا زیادہ اختیار نہیں ہوتا۔ جن معاملات کا ہماری ذات سے تعلق ہے انہیں تو ہم کسی نہ کسی حد تک کنٹرول کرسکتے ہیں مگر جن معاملات کا دوسروں سے تعلق ہو‘ ان پر ہمارا کچھ اختیار نہیں ہوا کرتا۔ ایسے میں تحمل سے کام لینے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔ ہمیں کسی بھی وقت کسی بھی تبدیلی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ حالات کے مطابق تبدیل نہ ہونے والے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ حالات کے تقاضوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے منصوبہ سازی سے معاملات آسانی کی طرف جاتے ہیں۔
''ورک سمارٹر ناٹ ہارڈر‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں کہ بہت سوں کو زندگی بھر اس لیے پریشان دیکھا گیا ہے کہ ان کے اہداف کا تعین دوسرے کرتے ہیں! آپ کیا کرسکتے ہیں اور کس طور کرسکتے ہیں‘ یہ آپ سے زیادہ اچھی طرح کوئی نہیں جانتا۔ ایسے میں لازم ہے کہ آپ زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُرسکون بنانے کے لیے معاملات کو اپنی مٹھی میں رکھیں۔ آپ جو کچھ بھی کرسکتے ہیں اس کا تعین آپ خود کریں تو اچھا۔ اہداف کا تعین دوسروں کی پسند سے زیادہ اپنے حالات اور سہولت و گنجائش کے مطابق کیا جاتا ہے۔ دوسروں کی بات سننا ضروری ہو تو ہو‘ ماننا ہرگز ضروری نہیں۔ آپ کو سب کی سننی ہے مگر کرنی اپنے من کی ہے یعنی جو کچھ کرنا ہے وہ آپ ہی طے کریں گے۔ بیشتر معاملات میں کامیابی انہیں ملتی ہے جو اپنے معاملات کو لکھ کر محفوظ رکھتے ہیں۔ ایسی حالت میں اپنے معاملات پر نظر رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ ہم زندگی بھر دوسروں کی آرا بھی سنتے ہیں مگر لازم نہیں کہ دوسروں کی ہر رائے بسر و چشم قبول کرلی جائے۔ سوچنا بھی آپ ہی کو ہے اور لائحۂ عمل بھی آپ ہی کو طے کرنا ہے۔ یہ کام آپ کیلئے کوئی اور نہیں کرسکتا۔
وقت ہی اصل دولت ہے کیونکہ یہ چلی جائے تو واپس نہیں آتی۔ ہم زندگی بھر کماتے ہیں۔ اگر کبھی ہم حالات کی ''مہربانی‘‘ سے کنگال بھی ہوجائیں تو کھوئی ہوئی دولت محنت سے دوبارہ حاصل کرلیتے ہیں۔ ہاں! کھوئے ہوئے وقت کو کسی طور حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ وقت کو سمجھنا اور اِس تفہیم کے مطابق اپنے لیے لائحۂ مرتب کرنا ہم سب کے لیے ناگزیر ہے۔ آنے والا وقت محض دھوکا ہے‘ اُس کے آسرے پر کوئی بھی کام ٹالا نہیں جاسکتا۔ جو کچھ بھی کرنا ہے آج کیجیے۔ لمحۂ موجود میں رہنا سیکھیے۔ وقت کا بہترین استعمال ممکن اور یقینی بنانے کے لیے ہمیں خاصی تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ یاد رکھیے کہ جو کام ہدف سے تعلق نہ رکھتا ہو اُس پر وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہیں۔ ہمیں کام کے لیے موزوں ماحول تیار کرنا چاہیے تاکہ کام کرنے کی لگن توانا رہے اور اپنی مرضی کے نتائج کا حصول ممکن ہو۔ کام کرنا اچھی بات ہے اور اس کے بغیر بات بنتی بھی نہیں مگر خود پر ذمہ داریوں کا زیادہ بوجھ ڈالنا کسی بھی طور درست نہیں۔ انہماک متاثر کرنے والی یعنی کام میں رخنے کی شکل اختیار کرنے والی چیزوں کو بھی کام کے ماحول سے دور رکھنا لازم ہے۔ جب آپ کام کر رہے ہوں تب کوئی بھی ایسی چیز نزدیک نہیں ہونی چاہیے جو آپ کے انہماک اور لگن کا گراف نیچے لے آئے۔ جیک کالس لکھتے ہیں کہ کسی بھی کوچ کا بنیادی مقصد ٹیم کے ہر کھلاڑی میں یہ جذبہ اور یقین پیدا کرنا ہے کہ وہ جیت سکتا ہے۔ جب تک جیتنے کا یقین نہ ہو تب تک مقابلے کی طاقت پیدا ہوتی ہے نہ لگن۔ کسی بھی ٹیم میں کئی کھلاڑی کمتر صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں مگر خود اعتمادی غضب کی ہونی چاہیے۔ بہت سے کمتر صلاحیت والے کھلاڑی غیر معمولی خود اعتمادی کی بدولت ہی مقابلے میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر پاتے ہیں۔ دوسروں کے بارے میں کوئی بھی اندازہ قائم کرنے سے قبل ہمیں خود اپنے بارے میں درست اندازے قائم کرنے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہمیں کوئی بھی سکھ نہیں دے سکتا۔ یہ احساس ہمیں خود پیدا کرنا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے دکھ اور سکھ خالص ذاتی معاملہ ہے۔ اُسے یہ فیصلہ خود کرنا ہوتا ہے کہ راحت محسوس کرنی ہے یا افسردہ رہنا ہے۔
جیک کالس کے نزدیک ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان جب کچھ کرنے کا طے کرے تو صرف محنت پر متوجہ رہے، نتائج کے بارے میں زیادہ نہ سوچے۔ کامیابی اور ناکامی کے بارے میں زیادہ سوچنے سے کارکردگی خراب ہونے لگتی ہے۔ ہم بہت سے معاملات میں بلا جواز طور پر فکر مند رہتے ہیں۔ ہم سے معاملات میں ہم خدشات کا شکار رہتے ہیں مگر جن باتوں کا خدشہ ہوتا ہے وہ تو ہوتیں ہی نہیں۔ یاد رکھیے کہ بہت سی مشکلات ہم پر اچانک نازل ہوتی ہیں اور ہم قصور وار نہیں ہوتے۔ مشکلات اس لیے نہیں ہوتیں کہ ہم گھبراکر کاوشیں ترک کردیں۔ ہر مشکل صرف اس لیے ہوتی ہے کہ ڈٹ کر اس کا سامنا کیا جائے۔ کوئی بھی کام ٹالا جاتا رہے تو پیچیدہ تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب کبھی کئی مشکل کاموں کا سامنا ہو تو ہم آسان ترین کام پہلے کرتے ہیں۔ سارے کام خود کرنا کسی بھی طور اچھی بات ہے نہ فائدے کا سودا۔ اس معاملے میں ضد اچھی نہیں۔ غیر متعلق اور غیر نافع قسم کے کاموں پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
''ورک سمارٹر ناٹ ہارڈر‘‘ کے مصنف کا ایک صائب مشورہ یہ ہے کہ ڈیڈ لائن کے مطابق کام کرنے کی عادت پروان چڑھائیے۔ ایسی صورت میں تمام کام اس طور مکمل ہوں گے کہ وقت ضائع نہیں ہوگا اور کوئی بھی بلا جواز پریشانی آپ کا تعاقب نہیں کرے گی۔ خوشگوار واقعات اچانک رونما نہیں ہوتے‘ یہ منصوبہ سازی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ جب ہم پورے ذہن کے ساتھ کچھ سوچتے ہیں تب کچھ طے ہو پاتا ہے اور یوں ہماری زندگی کامیابی کی راہ پر گامزن ہو پاتی ہے۔ حالات ہمیں کامیابی کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اگر ہم اپنے وقت کو درست ترین انداز سے بروئے کار لانے پر متوجہ نہ ہوں تو مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ وقت کا ضیاع روکنے کا موثر ترین طریقہ ہے منصوبہ سازی۔ خوب سوچ سمجھ کر طے کیے جانے والے ہدف کے مطابق کام کرنے سے ہماری صلاحیت ضائع ہوتی ہے نہ سکت۔ ہدف طے کرنا بھی لازم ہے۔ ہر کام اچھی طرح کرنے میں مصروف رہنے سے کہیں بڑھ کر اہم نکتہ یہ ہے کہ صرف کارآمد کام کیے جائیں یعنی غیر نافع سرگرمیوں میں سر کھپانے سے گریز کیا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved