تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     19-11-2020

جن سے کوتوال بھی ڈرتے ہیں

ملتان میں پہلا فلائی اوور کچہری چوک پر بنا تھا۔ تاریخوں کے معاملے میں میرا ریکارڈ کچھ خاص بہتر نہیں ہے؛ تاہم میرا خیال ہے کہ یہ میاں شہباز شریف کے بطور وزیراعلیٰ پنجاب پہلی حکومت کے دوران بنا تھا۔ تب جس طرح اس کی تعمیر کا جواز بنایا گیا تھا وہ اپنی جگہ پر ایک واقعہ ہے۔ تب ماہرین کہتے تھے کہ یہ سڑک کھلی کر دی جائے لیکن سڑک جتنی بھی کھلی ہو جائے بہرحال سڑک ہی رہتی؛ تاہم میاں شہباز شریف صاحب کو کوئی نظرآنے والا Monument چاہئے تھا‘ سو انہوں نے سڑک کھلی کرنے کے بجائے یہ فلائی اوور بنا دیا۔ تب کی بات اور تھی لیکن اب اس کی تعمیر کی خوبیاں اور خامیاں نکھر کر سامنے آرہی ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ شہر کی بہت سی ٹریفک اب نیچے پھنسنے کے بجائے مزے سے اوپر سے گزر جاتی ہے اور خرابی! سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ نیچے یہ فلائی اوور ایک بے ہنگم پارکنگ سٹینڈ کی صورت اختیارکر گیا ہے۔ ایک ایسا پارکنگ سٹینڈ جس کی نہ کوئی حدود و قیود ہیں اور نہ کوئی پوچھ تاچھ کرنے والا۔
چند روز قبل میں کسی کام سے نیچے والی سڑک پر چلا گیا‘ حالانکہ مجھے علم تھاکہ میرے ساتھ کیا ہوگا لیکن کیا کیا جائے؟ مجبوری تھی لہٰذا آنا پڑا۔ امیرآباد والے چوک سے کچہری چوک تک بمشکل ڈیڑھ دو سوگز کا فاصلہ ہوگا جو پھس پھسا کی وجہ سے بارہ تیرہ منٹ میں طے ہوا، بلکہ چوک کچہری تک بھی کہاں؟ مجھے تواس سے بھی تیس چالیس گز پہلے فلائی اوور کے نیچے سے یوٹرن لے کر واپس مڑنا تھا۔ سارے فلائی اوور کے نیچے وکلا کی، مؤکلین کی، ڈپٹی کمشنر آفس کے سائلین اور سامنے گرلز کالج میں کسی کام کی غرض سے آنے والوں کی موٹر سائیکلیں اور کاریں پارک تھیں۔ چلیں یہ کوئی غیرمعمولی یا قابل اعتراض بات نہیں۔ خالی جگہ کو اگر پارکنگ کیلئے استعمال کر لیا جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ لیکن اصل مصیبت یہ تھی کہ فلائی اوور کے نیچے ہر دوطرف پہلے تو دو دو گاڑیاں آگے پیچھے پارک تھیں‘ پھر ان دو گاڑیوں کے پیچھے سیدھے رخ پر مزید دو دو گاڑیاں اس طرح پارک تھیں کہ بچی ہوئی دو لین والی سڑک کی ایک لین مکمل طور پر پارکنگ کی نذر ہو چکی تھی اور کہیں کہیں بچی ہوئی ایک لین بھی اس پارکنگ کی زد میں آئی ہوئی تھی۔ اگر اس قسم کی پارکنگ اور اس کے نتیجے میں ہمہ وقت ٹریفک کا مسئلہ کسی اور جگہ پیدا ہوتا تو ضلعی انتظامیہ نے پارکنگ کرنے والوں کے کڑاکے نکال دینے تھے لیکن یہاں سب کے پر جلتے ہیں کہ یہ پارکنگ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کی زیر نگرانی چل رہی ہے۔ اب بھلا کس کی مجال ہے کہ وہ اس پارکنگ پر انگلی اٹھا سکے اور کوئی اعتراض کر سکے۔ یہ صرف ملتان کا نہیں، شہر شہر کا قصہ ہے۔ اردو شاعری میں ایک مصرعہ ہے: ع
سیاں بھئے کوتوال، اب ڈر کاہے کا
ادھر یہ عالم ہے کہ اس پارکنگ کے نتیجے میں مخلوق خدا کو جو تکلیف ہورہی ہے اس پر کوتوال شہر بھی کچھ کرنے سے ڈرتے ہیں اور سب کچھ دیکھ کر منہ لپیٹ کر گزرجاتے ہیں۔ کوئی تو ہے جس سے سیاں کوتوال بھی ڈرتے ہیں اور کچھ کہتے ہوئے ان کا حوصلہ جواب دیتا ہے۔ میری تو خیر ہے سال میں دو چار بار یہ غلطی کرتا ہوں‘ ڈپٹی کمشنر، کمشنر اور سیشن جج حضرات تو روزانہ یہاں سے گزرتے ہیں۔ جب ان کو خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھنے اور روزانہ بھگتنے کا سوچتا ہوں تو دل کو بڑی تسلی ہوتی ہے کہ یہاں تو بڑے بڑے سر جھکا کر خامشی سے گزر جاتے ہیں‘ میں کس کھیت کی مولی ہوں؟
ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی غرض سے موبائل فون والوں سے ایڈوانس انکم ٹیکس کٹوتی کا سرٹیفکیٹ درکار تھا لہٰذا ادھر جانے کیلئے نیچے والی سڑک پر جانا مجبوری تھی‘ سو کڑوا گھونٹ بھرنا پڑا۔ نیچے وہی حال تھا دو، تین چھوڑ چار چار گاڑیاں ایک طرف پارک تھیں اور ایک لین بمشکل رینگ رینگ کر چل رہی تھی؛ البتہ موٹر سائیکل والوں نے اس ساری مصیبت کا بڑا آسان حل نکال لیا تھا۔ وہ گرلز کالج کی دیوار کے ساتھ بنے ہوئے فٹ پاتھ پر اپنے موٹرسائیکل بھگائے چلے جا رہے تھے اور پھنسی ہوئی ٹریفک کو تمسخرانہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ چلیں یہ بھی ٹھیک تھا لیکن جیسے ہی میں یوٹرن لینے کیلئے فلائی اوور کے نیچے جانے لگا‘ دیکھا کہ اس یوٹرن والے ایک درے کے نیچے بھی دونوں طرف پارکنگ کی گئی تھی۔ ایک طرف بیسیوں موٹر سائیکلیں اور دوسری طرف گاڑیاں، یہ راستہ دوطرفہ یوٹرن تھا یعنی دونوں اطراف کی ٹریفک یہاں سے یوٹرن لیتی تھی لیکن بیک وقت ایک گاڑی کے گزرنے کی جگہ تھی اور ایک طرف والے یوٹرن لے رہے تھے تو دوسری طرف والے اپنے پیچھے چلنے والی ایک لین کی ٹریفک کو روکے کھڑے تھے۔ اب سمجھ آئی کہ ٹریفک اس بری طرح جام کیوں تھی؟
میں نے اپنے موبائل فون کے آفس جانے سے قبل ایک بڑے سرکاری افسر کے دفتر کی طرف گاڑی موڑ لی حالانکہ بخوبی علم تھاکہ اسے اس صورتحال کا مجھ سے کہیں زیادہ بہتر بلکہ بدتر ادراک ہوگا تاہم اتمام حجت کیلئے ضروری سمجھاکہ اپنی شہری ذمہ داریاں پوری کرنے کی غرض سے کم از کم اسے اپنی طرف سے تو شکایت درج کروا دوں۔ ہمارا ایک ایڈووکیٹ دوست اس دفتر میں پہلے سے موجود تھا۔ ہمارا یہ دوست ملتان سے پنجاب بار کونسل کے رکن کیلئے الیکشن لڑ رہا ہے۔ الیکشن چند روز بعد ہیں۔ میں اپنے دوست کا نام نہیں لکھ رہاکہ کہیں وہ اپنے خیالات کے باعث میرے کالم کے طفیل ساتھیوں کے عتاب کا نشانہ نہ بن جائے اور نتیجتاً اپنا الیکشن ہارنے کا ملبہ مجھ پر نہ ڈال دے۔
میں نے بہتر سمجھاکہ اپنے دوست افسر سے پہلے ایڈووکیٹ دوست سے اس سلسلے میں بات کروں۔ جب اسے اس صورتحال کا بتایا تو وہ نہایت شرمندگی سے کہنے لگا کہ آپ کہہ تو سچ رہے ہیں لیکن کیا کیا جائے؟ یہ چیزیں اب ہمارے بھی بس سے باہر ہوچکی ہیں۔ دراصل یہ ٹھیکہ بہت بڑی مالیت کا ہوچکا ہے اور کوئی اس سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں‘ تھوڑا انتظار کریں‘ ہمیں پولیس لائن کی چھبیس کنال اراضی مل گئی ہے‘ اس پر ملٹی سٹوری عدالتیں اور بیسمنٹ میں تین منزلہ پارکنگ پلازہ بنے گا تو مسئلہ حل ہوجائے گا۔ میں نے پوچھا: اس پارکنگ پلازے میں پارکنگ کا ٹھیکہ کون لے گا؟ حکومت یا بار ایسوسی ایشن؟ وہ کہنے لگا: آپ خود سمجھدار ہیں‘ میں کیا کہوں؟ پھر پوچھا‘ کیا آپ کو پتا ہے کہ ہائیکورٹ بار ایسوسی کی صدارت کا الیکشن کتنے میں پڑتا ہے؟ میں نے کہا: کچھ خاص علم نہیں‘ غالباً لاکھوں میں پڑتا ہوگا۔ وہ کہنے لگا: یہی تو آپ کی لاعلمی ہے‘ یہ الیکشن اب ایک ڈیڑھ کروڑ کا پڑتا ہے۔ باقی باتیں ناگفتی ہیں۔ میں نے کہا: آخری سوال یہ کہ جب ملتان شہر سے تھوڑا باہر نئی کچہری کی عمارت بن گئی تھی۔ اس پر ورلڈ بینک کے دیے گئے Access to judicial programme کے فنڈز سے کروڑوں روپے خرچ ہو چکے تھے تو آپ لوگوں وہاں کیوں نہیں گئے؟ وہ کہنے لگا: مجھے کیوں مروانا چاہتے ہیں؟ اللہ جانے آپ کل کلاں کیا لکھ دیں؟ یہ کہہ کروہ شتابی سے رخصت ہوگیا۔
میرا دوست افسر کہنے لگا: میرا خیال ہے آپ اسی سلسلے میں میرے پاس آئے تھے اور آپ کو اپنے تمام سوالات کا جواب مل چکا ہے؛ تاہم آپ مجھ سے کوئی خاص امید نہ رکھیں۔ ادھر تو یہ عالم ہے کہ ڈپٹی کمشنر ملتان کا دفتر جو کبھی چھیاسٹھ کنال پر مشتمل ہوتا تھا اب بمشکل چھ کنال باقی بچا ہے۔ ضلع کا حاکم اپنا دفتر تجاوزات سے خالی نہیں کروا سکتا آپ کیلئے کیا کرے گا؟ وہ دوست مجھ سے کہنے لگا: آپ تو ملتان سے ہی ہیں اور زمانہ طالب علمی میں تھانے کچہری سے کافی قربت رہی ہے۔ آپ نے تو اس کچہری اور ڈپٹی کمشنر کا دفتر بھلے وقتوں میں دیکھا ہوگا۔ اب کیسا لگتا ہے؟ میں نے کہا: آپ نے خوب کی‘ میں آپ سے شکایت کرنے آیا تھا، اور حال یہ ہے کہ اب الٹا آپ سے تعزیت کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved