تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     19-11-2020

مچھر اور اونٹ

''اندھے رہنماؤ، تم پر افسوس جوکہتے ہو کہ اگر کوئی مقدس کی قسم کھائے تو کوئی بات نہیں لیکن اگر مقدس کے سونے کی قسم کھائے تو اس کا پابند ہوگا۔ اے احمقو اور اندھو! سونا بڑا ہے یا مقدس جس نے سونے کو مقدس کیا؟ اور پھر یہ کہتے ہوکہ اگر کوئی قربان گاہ کی قسم کھاتا ہے تو کچھ بات نہیں‘ لیکن جو نذر اس پر چڑھی ہو، اگر اس کی قسم کھائے تو اس کا پابند ہوگا۔ نذر بڑی ہے یا قربان گاہ، جو نذر کو مقدس کرتی ہے؟ تم پر افسوس کہ تم پودینے، اجوائن اور زیرے کا دسواں حصہ تو دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف، رحم اور انصاف کو چھوڑ دیاہے۔ تم مچھرکو تو چھانتے ہو اور اونٹ کو نگل جاتے ہو‘‘!
حکمت سے مملو یہ خطبہ سیدنا مسیحؑ کی زبانِ حق ترجمان سے جاری ہوا۔ بنی اسرائیل میں مبعوث ہونے والے آخری رسول، جنہوں نے عالمِ انسانیت کو خدا کے آخری نبی اور رسول سیدنا محمدﷺ کی آمد کی بشارت سنائی۔ لوگ دنیا جہاں کے کتب خانے کھنگالتے ہیں، افسوس کہ الہامی لٹریچر نہیں پڑھتے۔
سیدنا عیسیٰؑ بنی اسرائیل کونئی شریعت دینے نہیں آئے تھے۔ شریعت تورات کی صورت میں ان کے پاس پہلے سے موجود تھی۔ وہ تو بنی اسرائیل کی بھٹکی ہوئی بھیڑوں کی طرف آئے تھے۔ وہ مذہب کے اُس جوہر کو نمایاں کرنے آئے تھے جسے مذہبی رہنماؤں نے لوگوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔ یہ پیشوا بظاہر جبہ پوش اور دیندار تھے مگر دین کی روح سے کوسوں دور تھے، جیسے سفیدی پھری قبریں۔ یہ تمثیل بھی سیدنا مسیحؑ کی ہے جو اسی خطبے میں بیان ہوئی ہے۔
انسان کے عقل و بصیرت کے لیے ایک آزمائش یہ بھی ہے کہ وہ مسائل کی درجہ بندی کرتے وقت، صحتِ ترتیب کا کتنا لحاظ رکھتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ چھوٹے مسئلے کو بڑا اور بڑے کو چھوٹا بنا دیتا ہے؟ نبی کا دنیاوی تناظر تزکیہ اور زمانی تناظر زندگی بعد از موت ہے لیکن عام معاملات میں بھی پیغمبرانہ بصیرت سے رجوع کیا جائے تو راہِ حیات روشن ہو جاتی ہے۔ پاکستان مسائل کا گڑھ ہے۔ ہم اس پر ہر روز خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ ہمارا عمومی رویہ مگر یہ ہے کہ ہم مسائل کی ترتیب درست نہیں کر سکے۔ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ کہاں سے آغاز کرنا ہے۔ یوں ہم ساری زندگی مچھر چھانتے اور اونٹ نگلتے ہیں۔ اس کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ ابہام در ابہام اور ظلمات فوق ظلمات۔ 
سماج اور ریاست، دونوں ارتقا کے بہت سے مراحل طے کر چکے۔ عقل و تجربے کی روشنی میں، علم کا ایک سمندر وجود میں آچکا۔ نظریات تشکیل پا چکے۔ تجربات کی خوبیاں اور خامیاں سامنے آ چکیں۔ ان کی روشنی میں دنیا اپنا چہرہ خوب سے خوب تر بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ یہاں ابھی تک طے نہیں ہو سکا کہ مے نوشی پر پابندی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے یا آئین شکنی؟ محافلِ شبینہ کی بندش ہمارا اصل المیہ ہے یا جمہوریت سے محرومی؟
ریاست کے لیے، مثال کے طور پر، اگر ایک آئین اور عمرانی معاہدے کو لازمی قرار دیا گیا تو اس کی کوئی وجہ ہوگی۔ اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی سزا اگر موت رکھی گئی جو قتل کی سزا ہے تو اس کی کوئی منطق ہوگی۔ فتنے کو الہامی کتب نے قتل سے سنگین تر جرم کہا ہے۔ فتنہ کیا ہے؟ معاشرے کو لاقانونیت کے حوالے کردینا۔ اس شاخ ہی کو کاٹ دینا جس پر حقوق وفرائض کی تمام ترعمارت کھڑی ہے۔ لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو پر طاری قانون کی حکمرانی کی چادر اتاردینا۔ آئین شکنی کوئی شبہ نہیں کہ سب سے بڑا فتنہ ہے۔
جس طرح گھر چھت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، اسی طرح، کوئی ملک آئین کی پاسداری کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا۔ گھر کی چھت گر جائے تو اس کو بچانے کے لیے مجھے سب سے پہلے چھت کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ میں اس مشورے کو نہیں مان سکتاکہ پہلے یہاں ایک پودا لگاؤ اور اس کے درخت بننے کا انتظار کرو تاکہ خودکو دھوپ سے بچاسکو۔ چھت کی تعمیر اس وقت ہر بات پر مقدم ہونی چاہیے۔ 
چھت اور پودا، دونوں اہم ہیں لیکن میری ترتیب کیا ہونی چاہیے؟ پہلے چھت کی تعمیر یا پہلے شجر کاری؟ یہی میری بصیرت کا امتحان ہے۔ انسانی تجربے اور عقل دونوں کی رہنمائی ہوگی کہ سرِدست، چھت کی تعمیر سے اہم تر کام کوئی دوسرانہیں ہوسکتا۔ چھت ہوگی تو گھر ہوگا۔ بصورتِ دیگر درخت توچٹیل میدانوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن وہ گھر نہیں ہوتے۔
آج سیاسیات اور تاریخ سے شغف رکھنے والے لوگ بھی نہ صرف آئین شکنی اور قانون شکنی کا فرق نہیں جانتے بلکہ ستم بالائے ستم کہ آئین شکنی کو کوئی جرم ہی نہیں سمجھتے۔ وہ آئین شکنوں کو ہیرو شمار کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کا قطعی ادراک نہیں کہ عوام کے سر سے آئین کی چادر اتارنا کس درجے کا جرم ہے۔ اس کا مطلب کسی کو بغیر چھت کے، ایک چٹیل میدان میں لا کھڑا کرنا ہے کہ کسی بھیڑیے کا ایک ہی حملہ اسے زندگی سے محروم کر دے۔
دو سوالات اہم ہیں۔ ہم نے سماج کی تشکیل کن خطوط پر کرنی ہے؟ ہم نے ریاست کو کس طرح قائم رکھنا ہے؟ سماج سازی، ایک طویل تر اور صبرآزما عمل ہے۔ اس بارے میں تو ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں۔ مذہبی جنونیت کا مسئلہ سماج کی ساخت سے متعلق ہے۔ اس کو مخاطب بنائے بغیر اس سے نجات ممکن نہیں۔ یہ کسی سادہ کاغذ پر درج کسی معاہدے سے حل ہو نے والا نہیں۔ شاید ارباب حل و عقد اس کے مستقل حل کو ضروری بھی نہیں سمجھتے۔ اس وقت مگر ریاستی نظم کو زیادہ خطرات درپیش ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ ریاست کے نظم کو کن خطوط پر استوار کیا جائے کہ ہمیں آئے دن کے فساد سے بچ سکیں۔ یہ کام مچھر چھاننے سے نہیں ہوگا۔ آئین شکنی سے قانون شکنی کی تمام صورتیں جنم لیتی ہیں۔ سب سے پہلے آئین کی پاسداری پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا۔ باقی مسائل اس کے تابع ہیں۔
آئین کے محافظ عوام ہیں اور ان کی نمائندگی سیاسی جماعتیں اور سیاست دان کرتے ہیں۔ ان کو گالیاں دینا مچھر چھاننا ہے۔ کوئی صالح آدمی، اُس سیاستدان کا متبادل نہیں ہو سکتا جو سیاسی عصبیت رکھتا ہے۔ سیاسی استحکام کا تعلق صالحیت سے نہیں، عصبیت سے ہے۔ پھر اس صالحیت کا تعین کون کرے گا؟ عوامی حمایت کو ماپا جا سکتا ہے صالحیت کو نہیں۔ ایک نیک آدمی بھی اگر کوئی ایسا کام کرے گا جس کا کوئی اخلاقی اور قانونی حق اُس کو حاصل نہیں تو بلاشبہ وہ جرم ہو گا۔ جرم سے کبھی اصلاح نہیں ہو سکتی۔
سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی اصلاح کا راستہ بھی یہیں سے نکلے گا۔ سیاسی جماعتوں کے فنڈنگ کیس کا فیصلہ قانون کے مطابق تب ہی ہو سکتا ہے جب ملک میں آئین کی حکمرانی ہوگی اور کوئی کسی دوسرے دائرے میں اپنا اثرورسوخ استعمال نہیں کرے گا۔ نواز شریف صاحب کو تحفظات کے باوجود، جو سب سچ ثابت ہوئے، بطور وزیر اعظم عدالت اور جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا‘ ورنہ پرویز مشرف صاحب کو تو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جا سکا۔
عقل مند دنیا کے تجربات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ عمرانی معاہدے اور آئین پر اگر دنیا کا اصرار ہے تو یہ بلاوجہ نہیں۔ ہمیں سیاست میں نئے اصول دریافت نہیں کرنے چاہئیں۔ بنیادی اہمیت سیاسی استحکام کی ہے۔ وہ جمہوریت اور آئین کی پاسداری سے آئے گا اور دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اقتدار عوام کا حق ہے۔ فوج خارجی اور پولیس جیسے سلامتی کے ادارے داخلی خطرات سے نبرد آزما ہوں گے۔ حکومت فیصلے کرے گی۔ تنازعات میں عدالت بروئے کار آئے گی۔ یہی آئین کی پاسداری ہے۔
بنیادی حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے، کسی دوسرے حل پر اصرار مچھر چھاننا اور اونٹ نگلنا ہے۔ حیرت ہے کہ لوگ ان باتوں پر بھی بحث کرتے ہیں جن کے بارے میں الہامی لٹریچر اور انسانی تجربہ یک زبان ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved