اگر میں یہ کہوں کہ ہمارے ساتھ پھر وہی واردات ہو گئی‘ جو سوویت افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد ہوئی تھی‘ یعنی جیسے ہی افغانستان کی جنگ ختم ہوئی‘ امریکہ بھی ہمیں چھوڑ کے چلتا بنا اور افغانستان کی جنگ ہمارے گلے پڑ گئی۔ ہمارے حکمرانوں نے خوب بغلیں بجائیں کہ انہیں سٹریٹجک گہرائی مل گئی ہے اور اب افغانستان میں وہ مرضی کی حکومتیں بنایا کریں گے۔ سوویت افواج کی واپسی کے بعد طاقت کا جو خلا پیدا ہوا‘ اسے بھرنے کے لئے‘ ہم نے اپنے ملک میں رکھے ہوئے افغان مجاہدین کوکابل فتح کرنے بھیج دیا اور پھر جو تماشا ہوا‘ اسے ہمارے سمیت‘ ساری دنیا نے دیکھا۔ یہ مجاہدین اسلام ‘ جو ہماری سرزمین اور ہمارے وسائل استعمال کرتے ہوئے‘ امریکی ڈالروں کے عوض‘ اسلام کی جنگ لڑ رہے تھے‘ ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہو گئے اور کابل کا خوبصورت شہر‘ جو ہمارے بقول اسلام دشمن فوجوں کے قبضے میں تھا ‘تو پوری طرح صحیح سلامت رہا مگر اسلام کے سپاہیوں نے ایک دوسرے پر راکٹ‘ میزائل اور گولے برسا کر‘ کابل کو کھنڈرات میں بدل دیا اور پھر ایک دوسرے کے خلاف ایسی خونریز جنگ لڑی‘ جسے افغان عوام آج بھی یاد کر کے لرز اٹھتے ہیں۔ جس طرح رشید دوستم نے مزارشریف میں لوگوں کو مارا‘ قندھار میں طالبان نے ستم ڈھائے اور کابل کے فٹبال گرائونڈ میں بے گناہ عورتوں اور مردوں کو مجمعے لگا کر گولیوں کا نشانہ بنایا‘ اسے بھولنا آسان نہیں۔ یہ طالبان کی حکومت تھی۔ ہم اس کے مددگار تھے۔ مزارشریف پر قبضے کے وقت طالبان کی پٹائی شروع ہوئی‘ تو ہماری ایئرفورس کی مدد سے طالبان آگے بڑھ سکے اور مزارشریف پر ان کا قبضہ ہوا۔ ہم نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا۔ ہمارے اصرار پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا۔ ہم امریکہ پر بھی دبائو ڈالتے رہے کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لے۔ مگر امریکی نہیں مانے۔ یہ کہانی بڑی طویل اور دردناک ہے۔ اسے لکھنے کے لئے کئی مواقع پیدا ہوں گے۔ آج میں اس نئے درد کا اظہار کرنا چاہتا ہوں‘ جو آج کی خبروں کو پڑھتے ہوئے‘ میرے دل میں پیدا ہوا۔ امریکہ‘ طالبان اور کرزئی حکومت‘ مذاکرات پر متفق ہو گئے ہیں۔میں یہ خبر پڑھ کر چکرا گیا۔ اس میں پاکستان کا ذکر ہی نہیں ہے۔ وہ پاکستان‘ جسے افغان مسئلے کے حل کے لئے کلیدی حیثیت دی جاتی تھی۔ طالبان رابطوں کے لئے سب ہمارے محتاج ہوتے تھے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان رابطوں کا ذریعہ تک موجود نہیں تھا۔ کابل کی حکومت اور اس کے سرپرست امریکہ‘ دونوں کی امیدیں ہم سے وابستہ تھیں کہ پاکستان چاہے گا تو افغان مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے بغیر یہ تینوں فریق یعنی امریکہ‘ کرزئی حکومت اور طالبان‘ مذاکرات بھی نہیں کر سکتے۔ مگر یہ کیا ہو گیا؟ ان تینوں نے مذاکرات کی بنیادیں بھی طے کر لیں۔ قطر میں طالبان کا سفارتی دفتر بھی قائم ہو چکا اور مزید ملکوں میں ایسے رابطہ آفس قائم ہونے والے ہیں۔ تینوں فریقوں کی طرف سے بنیادی نکات پر اتفاق بھی ہو گیا ہے۔ طالبان کو اعتماد میں لے کر امریکہ نے کابل کی دفاعی ذمہ داریاں‘ افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دی ہیں۔ امریکی حکام نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ابتدائی طور پر قیدیوں کے تبادلے کے موضوع پر تبادلہ خیال ہو گا۔ مذاکرات میں امریکی حکام طالبان سے مطالبہ کریں گے کہ وہ تشدد کا راستہ چھوڑ دیں‘ القاعدہ سے تعلقات توڑیں اور افغان آئین کا احترام کریں‘ جس میں عورتوں اور بچوں کے حقوق شامل ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات اگلے ہفتے سے دوحہ میں شروع ہو جائیں گے۔ اس کے چند ہی روز بعد افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان کے مابین بات چیت شروع ہو جائے گی۔ یاد رہے یہ وہی کرزئی حکومت ہے‘ جسے طالبان ‘ امریکی کٹھ پتلی قرار دیتے تھے۔دوحہ میں طالبان کے نمائندے محمد نعیم نے بتایا کہ دوحہ میں دفتر کھولنے کا مقصد افعانوں سے میل جول ہے۔ ہم اقوام متحدہ ‘ علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کے علاوہ غیرسرکاری تنظیموں سے بھی رابطے کریں گے۔سارا ایجنڈا طے ہو چکا۔ مستقبل کی منصوبہ بندیاں کرنے کے لئے تینوں فریق بنیادی باتوں پر اتفاق کرنے کے بعد‘ مذاکرات کا آغاز کرنے والے ہیں۔ ہم کہاں ہیں؟ کیا ہمارے ساتھ پھر وہی کچھ تو نہیں ہو گیا‘ جو برسوں سوویت یونین کے خلاف امریکیوں کی جنگ لڑنے کے بعد ہوا تھا؟ ہم سوویت فوجوں کے خلاف لڑتے رہ گئے اور امریکہ اور سوویت یونین نے ہم سے بالابالا سمجھوتہ کر لیا۔ دونوں افغانستان سے نکل گئے اور ہم خانہ جنگی میں پھنس گئے۔ اس خانہ جنگی کے دوران‘ القاعدہ نے وہاں قدم جمائے۔ امریکہ میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہوئیں ۔ افغانستان پر فوج کشی کا فیصلہ ہوا اور رچرڈ آرمٹیج جو کہ امریکہ کی وزارت خارجہ کا ڈپٹی سیکرٹری تھا‘ کے ایک فون پر‘ ہم نے امریکہ کا اتحادی بننے کا فیصلہ کر لیا۔ وہی طالبان‘ جن پر بھروسہ کر کے ہم افغان خانہ جنگی میں پھنسے تھے‘ انہی پر امریکیوں کی بمباری کے لئے ہم نے سہولتیں مہیا کیں اور طالبان کو ہمیشہ کے لئے اپنا دشمن بنا لیا۔ لیکن یہ حرکت کرنے کے بعد بھی ہمارے حکمرانوں کا کمال ہے کہ وہ پھر سے طالبان کے حامی بن گئے۔ ملاعمر اور ان کے ساتھیوں کو پاکستان میں پناہ دی اور اس گمان میں مبتلا ہو گئے کہ طالبان اپنی شکست کے زخموں کو بھول کر ہماری کارستانیوں کو فراموش کر دیں گے اور جب ہم نے امریکی افواج پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی مدد کی‘ تو سوچا کہ امریکیوں کو ہمارے ان کارناموں کا پتہ نہیں چلے گا۔ اب ہم انوکھی امیدیں لگائے بیٹھے تھے اور وہ یہ کہ امریکہ کا اعتماد ہم پر قائم رہے گا۔ طالبان تو ہمارے اپنے ہی ہیں اور کرزئی حکومت کی کوئی حیثیت نہیں اور پھر خداجانے کس زعم میں‘ ہمارے حکمران یہ باور کرتے رہے کہ ایک نہ ایک دن‘ ان تینوں کو ہماری ضرورت پڑے گی اور ہم اپنی شرائط پر ‘ ان کے درمیان رابطوں کا ذریعہ بنیں گے اور افغانستان میں جس کو بھی بالادستی حاصل ہو گی‘ وہ ہمارا محتاج رہے گا۔ اس طرح کے احمقانہ خواب‘ حقائق کی زندگی میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ تاریخ اپنے ٹھوس انداز میں آگے بڑھتی رہی۔ برسرپیکار فریقوں نے اپنے اپنے خون میں نہا کر‘ اپنی اپنی حقیقتوں کا ادراک کر لیا۔ تینوں نے پاکستان کو ناقابل اعتماد سمجھتے ہوئے‘ براہ راست روابط قائم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں اور ہمارے حکمران اسی غرور میں بدمست رہے کہ ہمارے بغیریہ تینوں کبھی مل ہی نہیں پائیں گے۔ خود اعتمادی کا یہ حال تھا کہ بون کانفرنس میں شرکت کے دعوت نامے ٹھکرا کر‘ ہم نے اس میں جانے سے ہی انکار کر دیا۔ بون کانفرنس ہو کے رہی اور رابطوں کی جو بنیادیں رکھنے کا منصوبہ تھا‘ وہ رکھ دی گئیں۔ اب تینوں فریقوں کے باہمی رابطوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہمیں پورے کھیل سے باہر کر دیا گیا ہے اور آج تینوں کے درمیان مذاکرات کی جو دھماکہ خیز خبر آئی ہے‘ اسے پڑھ کر گزشتہ 8سالوں کے دوران ہمارے فیصلے کرنے والوں کے ہوش ٹھکانے آ گئے ہوں گے۔ مگر سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا؟ امریکی اب ہمارے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں؟ اس کی ایک جھلک ’’فارن پالیسی میگزین‘‘ کے تازہ شمارے میں رچرڈ آرمٹیج کے انٹرویو میں ‘ دیکھی جا سکتی ہے۔اس نے ایک سوال کے جواب میںکہا ’’میرے خیال کے مطابق پاکستانی حکومت یہ سوچ رہی ہو گی کہ طالبان ‘ افغان حکومت کے ساتھ کسی قسم کی ڈیل کر لیں گے ۔ پہلے والی تکونی صورتحال پھر سے پیدا ہو جائے گی یعنی شمال میں تاجک‘ جنوب مشرق میں پختون اور درمیان میں ہزارہ‘ جو دونوں طرف سے چوٹیں کھا رہے ہوں گے۔‘‘ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں ایسا خیال باقی رہ گیا ہو گا۔ مگر امریکی اندازہ یہی ہے۔ آرمٹیج سے پوچھا گیا کہ ‘‘نئی صورتحال میں پاکستان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’وہ اسی تکون میں رہیں گے(جس کا ذکر ہو چکا)۔جنوب مشرق میں طالبان کی حمایت کریں گے۔ انڈیا اور روس پر نظر رکھیں گے اور تاجکوں سے سودے بازی کریں گے۔‘‘ سوال کیا گیا کہ ’’اگر آج آپ امریکی صدر سے ملیں‘ تو انہیں کیا کہیں گے؟‘‘ جواب تھا ’’جناب صدر! میں آپ کو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج سے 25سال بعد‘ دنیا کے نقشے پر ایک قوم ہو گی‘ جس کے ملک کا نام ہو گا افغانستان۔ اس کی وہی سرحدیں ہوں گی اور وہی نسلی اور لسانی گروہ‘ جو ایک قوم میں بدل چکے ہوں گے۔ یہی بات میں پاکستان کے بارے میں نہیں کہہ سکتا۔‘‘امریکیوں کو کہنے کی ضرورت بھی نہیں۔ اپنے مستقبل کا فیصلہ ہمیں ہی کرنا پڑے گا۔ شرط صرف ایک ہے کہ افغان طالبان اور سیاستدانوں کی طرح ہمارے مولوی حضرات اور سیاستدان بھی پہلے وطن کو دیکھیں اور بعد میں دوسری چیزوں کو۔ افغان چاہے ملا ہو یا مسٹر‘ پہلے اپنے وطن کو دیکھتا ہے اور ہمارے ملک میں یہ دونوں سب کچھ دیکھتے ہیں‘ وطن کو نہیں دیکھتے۔ملا عمر اور حامد کرزئی‘ ڈیورنڈ لائن کے بارے میں ایک ہی سوچ رکھتے ہیں۔ مگر ہمارے ملا سے پوچھئے‘ تو اس کا جواب ہو گا’’ملت اسلامیہ کے درمیان سرحدوں کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved