تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     19-11-2020

انتخابی اصلاحات، کیوں اور کیسے؟

پاکستان میں بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہر الیکشن پر دھاندلی کا شور اٹھتا ہے۔ 1970ء کے بعد شاید ہی کوئی ایسا الیکشن ہو جس میں ہارنے والی پارٹی نے جیتنے والوں پر دھاندلی کا الزام نہ لگایا ہو۔ یہ دھاندلی مقامی سطح پر ہو،منظم ہو یا الیکشن سے پہلے دھاندلی کی کوئی صورت استعمال کی گئی ہو، شور ضرور اٹھتا ہے۔ گلگت بلتستان کی حالیہ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے دھاندلی کے الزامات لگائے جانے لگے تھے۔ الیکشن کے بعد بلاول بھٹو کی طرف سے یہی الزامات دہرائے جا رہے ہیں۔ الزامات تو خیر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی یہی لگا رہے ہیں، جہاں دنیا کی ایک بڑی جمہوریت ہونے کی وجہ سے ووٹنگ اور اس کی گنتی بہت حد تک الیکٹرانک اور ڈیجیٹل ہو چکی ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان صاحب کو اچانک یاد آیا کہ کہ اس ملک کی ''ام المسائل‘‘ انتخابی اصلاحات کا نہ ہونا ہی ہے۔ بالکل درست‘ کیونکہ تحریک انصاف تو 2013ء سے ہی اس مدعا کو اٹھائے ہوئے ہے کہ اس سے 2013ء کا الیکشن چھینا گیا تھا۔ 
انتخابی اصلاحات نہ ہونے کے باعث عوام کے حقیقی نمائندوں کو اقتدار منتقل نہیں ہوتا اور نااہل لوگ مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ پاکستانیوں کو تحریک انصاف سے یہ امید تھی کہ عمران خان کی قیادت میں جو سب سے پہلا کام کیا جائے گا وہ جنگی بنیادوں پر اس ملک کے انتخابی نظام کی خامیوں کو دور کرنے کا ہو گا۔ کیونکہ 2018ء کا الیکشن ہارنے کے بعد ماضی کے ہر الیکشن کی ہی طرح اس بار بھی اپوزیشن کی جماعتیں انتخابات کی چوری کا الزام لگا رہی تھیں۔ دوسری طرف وزیراعظم اسمبلی کے فلور پر کہہ رہے تھے کہ احتجاج اپوزیشن کا حق ہے، آپ احتجاج کریں کنٹینر ہم دیں گے۔ خیر یہ تو ماضی ہو گیا اور ماضی میں جائیں تو کون سا ایسا انتخاب ہے جس میں ہارنے والے نے یہ الزام نہ لگایا ہو کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے، صرف ہمارے یہاں ہی نہیں یہ ریت تو اب امریکہ جیسی جمہوریت میں بھی پڑ گئی ہے جہاں صدر ٹرمپ انتخاب ہارنے کے بعد ڈیموکریٹس پر الیکشن چوری کا الزام لگا رہے ہیں۔ 
دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے انتخابی اصلاحات کا معاملہ اس وقت کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟ آج سے ایک سال قبل الیکٹرانک ووٹنگ کے نظام پر اتفاق رائے کیوں نہیں کر لیا گیا اور نمونے کے طور پر گلگت بلتستان الیکشن میں آزمائش کیوں نہیں کر لی گئی؟ سینیٹ کے الیکشن سے قبل سینیٹرز کے طریقہ انتخاب میں تبدیلی کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟ سینیٹرز کے پچھلے انتخاب اور پھر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے پہلے شفافیت کی بات کیوں نہیں کی گئی؟ کیا اس وقت کے جاگنے والے چند ضمیروں سے مارچ 2021ء میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن میں کوئی خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے؟
وزیر اعظم عمران خان نے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کے سلسلے کو ختم کرنے اورملک میں الیکٹورل ریفارمز لانے کیلئے تین تجاویز پر بات کی۔ 1:ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم متعارف کروایا جائے‘ 2: بائیو میٹرک تصدیق ہونی چاہیے‘3 : سینیٹ الیکشن میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ زکا طریقہ اپنایا جائے۔ وزیراعظم نے ایک بار پھر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو حق رائے دہی دینے کیلئے ای ووٹنگ کی سہولت فراہم کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم اوربائیو میٹرک تصدیق کے معاملہ پر پہلے بھی عوامی اور سرکاری حلقوں میں بارہا سیر حاصل بات چیت ہو چکی ہے۔ بائیو میٹرک تصدیق کا نظام پچھلے الیکشن میں بھی استعمال کیاگیا تھا جس میں مشکلات سامنے آئی تھیں۔2018ء میں متعارف کروایا گیا رزلٹ ٹرانسمیشن اور مینجمنٹ سسٹم کئی مقامات پر لوڈ برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے بیٹھ گیا تھا اور سارے انتخابی عمل پر سوالات اٹھ گئے تھے جبکہ ای ووٹنگ میں استعمال ہونے والی الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) کو معمول کے کاغذی بیلٹ پیپرزسے تین گنا اضافی اخراجات کی بنیاد پر رد کیا گیا تھا۔ عام طور پر دنیا میں دو طرح کی ای ووٹنگ رائج ہے ۔
1: الیکٹرانک ووٹنگ مشین جو پولنگ سٹیشن میں نصب ہوتی ہے اور الیکشن اتھارٹی یا گورنمنٹ کے نمائندے اس کی نگرانی کرتے ہیں۔
2:انٹر نیٹ کے ذریعے دور دراز کے علاقے سے ووٹ الیکشن اتھارٹی کو الیکشن کی تاریخ تک بھیجنا۔
الیکٹرانک ووٹنگ ٹیکنالوجی میں پنچڈ کارڈز (Punched Cards)، آپٹیکل سکین ووٹنگ سسٹم اور ڈائریکٹ ریکارڈنگ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بیلٹ کی ترسیل کے لیے ٹیلی فون، کمپیوٹر نیٹ ورک اور انٹر نیٹ کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سے ووٹ کاسٹ کرنے کا عمل تیز تر ہو جاتا ہے اور ووٹنگ کے عمل کی نگرانی اور ووٹ گننے والے سٹاف کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ ووٹر اپنا وقت بچا سکتا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم خصوصی افراد کو بھی آسانی سے ووٹ ڈالنے کی سہولت دیتا ہے۔ دوردراز علاقوں میں رہنے والے بوڑھے افراد اور بیرون ملک قیام پذیر افراد بھی انتخابی عمل کا حصہ بن سکتے ہیں جس سے انتخابات میں ٹرن آؤٹ بڑھ جاتا ہے۔ دھاندلی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں اورانتخابی عمل کے نتائج تیزی سے اکٹھے کیے جا سکتے ہیں۔ دوسری جانب جوں جوں نظام پیچیدہ ہوتا جاتا ہے اور سافٹ وئیر کا استعمال بڑھتا ہے تو سسٹم ہیک ہونے اور فراڈ کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال امریکہ کے 2016ء کے الیکشن ہیں جب سسٹم ہیک ہونے اور اس میں ردوبدل کی سازش کے عالمی سطح پر الزامات لگے تھے۔ حالیہ امریکی الیکشن میں میل بیلٹنگ اور ووٹوں کی گنتی پر دھاندلی کے الزامات بھی ہمارے سامنے ہیں۔ کمرشل الیکٹرانک مشینیں، پاس ورڈز، کی بورڈز اور عوام کی حقیقی عمل تک رسائی نہ ہونا ہی سب سے بڑے نقصانات ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر نیدر لینڈ، آئر لینڈ، برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک میں ای ووٹنگ کو ترک کر دیا گیا ہے۔ تاہم انڈین الیکشن کمیشن اس کی حمایت کرتاہے جہاں DREسسٹم استعمال ہوتا ہے۔ان مشینوں کو بھارتی سکیورٹی اداروں نے اپنے الیکشن کمیشن کی ضروریات کے مطابق بنایا ہے۔
پاکستان کو دنیا کے تجربے سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک پیچیدہ نظام کو اختیار کرنے سے ہمارے ملکی حالات میں پیچیدگیاں مزید بڑھ جائیں گی۔ سینیٹ الیکشن میں شو آف ہینڈز ووٹ کو شاید اپوزیشن کی حمایت حاصل ہو جائے کیونکہ گزشتہ سینیٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو اپنے بہت سے ارکان سے پارٹی وفاداری سے متعلق سوالات پوچھنے پڑ گئے تھے جبکہ پی ٹی آئی نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اپنے20 ایم پی ایز کو پارٹی سے ہی نکال دیا تھا۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات میں حزب اختلاف اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر جمہوریت کیلئے ایک قدم آگے بڑھاتی ہے، اس مجوزہ آئینی ترمیم کے لئے حکومت کے ساتھ تعاون کرتی ہے یا پھر اپنی روایتی سیاست کو ہی سینے سے لگائے رکھتی ہے؟
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس وقت اپوزیشن سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے اور اس کے مطالبات میں سے ایک نئے الیکشن کا مطالبہ بھی ہے، اس تناظر میں دیکھا جائے تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم ایک نئے الیکشن کی طرف بڑھ رہے ہیں اور یہ سب کچھ، اس کی ہی ایک کڑی ہے۔ ایسے الیکشن جس میں نہ تو ہارنے والا ملال کرے اور نہ جیتنے والا شرمندہ ہوتا پھرے۔
اپوزیشن کی تحریک کا فیصلہ تو بہرحال سڑکوں پر نہیں بلکہ مذاکرات کی میز پر ہوگا۔ اگر انتخابی اصلاحات کی باتیں شروع ہو گئی ہیں تو یہ کسی طور بھی ایک سال سے کم عرصے میں ممکن نہیں ہے، جس سے حکومت ڈیڑھ سال کا مزید وقت حاصل کر سکتی ہے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ کیا حکومت کی نیت صاف ہے اور کیا حکومت اور اپوزیشن ان تجاویز سے فائدہ اٹھا کر مستقبل میں کسی بھی ممکنہ دھاندلی کی پیش بندی کر سکتی ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved