تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     19-11-2020

سرخیاں، متن اور علی ارمان

حکومت کو برداشت کرنا ملک سے کھیلنا ہے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت کو برداشت کرنا ملک سے کھیلنا ہے‘‘ اور یہ جو ہم اڑھائی سال سے حکومت کو برداشت کر رہے تھے تو کھیل ہی رہے تھے اور ہم اس تسلسل کو باقی رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس کرنے کا اور کوئی کام ہی نہیں ہے، حکومت ہم سے نہیں گر رہی، بیانیہ ہمارا مسترد ہو چکا ہے اور قیادت ہماری مفرورہو کر لندن جا بیٹھی ہے، لوگ پے در پے جماعت کو چھوڑ رہے ہیں تو مایوسی کے اس عالم میں اس کھیل کے علاوہ اور کوئی مصروفیت بھی نہیں کہ اس سے دل بھی لگا رہتا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
بند دروازوں میں ملاقاتوں سے بھی
اپوزیشن کو کچھ نہیں ملا: زرتاج گل
وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل وزیر نے کہا ہے کہ ''بند دروازوں میں ملاقاتوں سے بھی اپوزیشن کو کچھ نہیں ملا‘‘ کیونکہ جس کو جو کچھ ملنا تھا‘ مل چکا ہے اور اب کسی کو کچھ دینے کے لیے وہاں کچھ بھی موجود نہیں ہے اور اپوزیشن یہ بات اچھی طرح سے جانتی بھی تھی جبکہ کھلے دروازوں سے بھی اپوزیشن کو مار ہی پڑی ہے جبکہ ان کا اپنا دروازہ کسی نے بند کر کے چابی کنویں میں پھینک دی ہے، اور کنویں میں بھی اب وہ کھوتا ہی نظر آ رہا ہے جو مسلم لیگ نے وہاں پھینکا تھا اور ہم سب حیران اور پریشان رہ گئے تھے اور اب تک اسی حالت میں چلے آ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھیں۔
گلگت بلتستان کے عوام اپوزیشن کے
بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''گلگت بلتستان کے عوام اپوزیشن کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘ جبکہ وہ اس بیانیے کی تجہیز و تدفین کے بعد کھڑے ہو کر دعا مانگ رہے ہیں حالانکہ یہ بیانیہ دعا اور بددعا سے ماورا ہو چکا تھا اور آج وہ اس کی رسم قُل ادا کر رہے ہوں گے اور جس کی قیادت وہ جانباز کر رہا ہوگا‘ ایک پولنگ سٹیشن سے جس کا واحد ووٹ برآمد ہوا تھا جبکہ اس کے چالیسویں تک تو عوام اسی جوش و خروش سے ان آخری رسوم میں شرکت کرتے رہیں گے جس کے بعد وہاں اس کی یادگار بھی تعمیر کی جائے گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
شکست تسلیم کرنے کے لیے ظرف
کی ضرورت ہوتی ہے: فردوس عاشق
معاونِ خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''شکست تسلیم کرنے کے لیے ظرف کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ اگر ہم الیکشن ہار جاتے تو ہم نے بھی شکست تسلیم نہیں کرنی تھی کیونکہ ہمارے ہاں اس کا رواج ہی نہیں ہے بلکہ اس روایت کی پاسداری مغربی ممالک میں بھی کی جا رہی ہے جس کی روشن مثال سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو عبرتناک شکست کے بعد بھی اسے تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں جبکہ اصل میں تو اپوزیشن اس کی ریہرسل ہی کر رہی ہے کیونکہ آئندہ بھی اس نے الیکشن ہارنے ہیں اور شکست تسلیم نہیں کرنی ورنہ یہ ظرف وغیرہ بے وقعت چیزیں ہیں کیونکہ ظرف کا مطلب برتن ہوتا ہے اور ہر آدمی اپنے برتن ساتھ نہیں لیے پھرتا، لینا ایک نہ دینا دو۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک ٹویٹ پیغام نشر کر رہی تھیں۔
خواجہ سعد رفیق بیانیے کے ساتھ ہیں: رانا ثنااللہ
نواز لیگ پنجاب کے صدر اور سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ ''خواجہ سعد رفیق بیانیے کے ساتھ ہیں‘‘ اور یہ وضاحت ہم سب کو ایک دوسرے کے بارے میں کرنی پڑتی ہے کیونکہ نواز شریف اور مریم نواز کے علاوہ کوئی بھی اس بیانیے کے ساتھ نہیں ہے، البتہ یہ آپس میں طے کر لیا گیا ہے کہ کوئی اس وضاحت کی تردید نہیں کرے گا، نیز اس سلسلے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایک ایک سے اس مضمون کا بیانِ حلفی دلوا کر لندن بھیجا جائے جبکہ عام تاثر یہ ہے کہ خود نواز شریف بھی اس ضمن میں اپنی وضاحت پیش کرنے والے ہیں جبکہ بیانات میں انہوں نے پہلے ہی نرمی اختیار کر لی ہے جبکہ مریم نواز بھی ڈھیلے ڈھیلے بیان دے رہی ہیں۔ آپ اگلے روز ماڈل ٹائون سیکرٹریٹ سے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
معیشت پر چاروں طرف سے 
مثبت خبریں آ رہی ہیں: حفیظ شیخ
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے خزانہ و محصولات عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ ''معیشت پر چاروں طرف سے مثبت خبریں آ رہی ہیں‘‘ البتہ درمیان میں کافی گڑ بڑ نظر آتی ہے، کیونکہ مہنگائی روز افزوں اور اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، اگرچہ اس میں کافی مبالغہ بھی پایا جاتا ہے کیونکہ آسمان اور زمین کے درمیان جو فاصلہ ہے، اس کے پیشِ نظر زمین پر کھڑے ہو کر کوئی آسمان سے کیسے باتیں کر سکتا ہے اور اسی طرح آسمان سے بھی کوئی نیچے سے باتیں نہیں کر سکتا، چنانچہ محسوس یہی کیا جا رہا ہے کہ اس طرح کے غلط محاوروں کو پہلی فرصت میں درست کیا جائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں علی ارمان کی غزل:
نہ سوالات میں رہ تُو نہ جوابات میں رہ
ہست و موجود محبت کی مساوات میں رہ
بیدلی شہر کی گلیوں میں کھلی گھومتی ہے
زندہ رہنا ہے تو حیرت کی حوالات میں رہ
آئینہ آئینہ کرتا تھا بہت، دیکھ لیا
اب اُسی ترک وتحیر کے مضافات میں رہ
کب پلٹنا پڑے صحرا کی طرف، کیا معلوم
ابھی کچھ سال تُو قصے کی شروعات میں رہ
ڈوب جائے گا اگر دیکھ لیں اُس کی آنکھیں
اے سمندر تجھے بولا تھا کہ اوقات میں رہ
نہیں اُبھرے ہیں خدوخال ترے پوری طرح
ابھی کچھ دیر مری جان مرے ہاتھ میں رہ
لگ رہا ہے میں یہاں بھی نہیں ٹکنے والا
شوقِ آوارہ ابھی دل کے مضافات میں رہ
ذہن کو دل سے جُدا کر کے یہی ہوتا ہے
زندگی ساری تو اب اُن کے فسادات میں رہ
جیت پائے نہ کوئی خوف، کوئی ڈر تجھ سے
اتنا مصروف محبت کی مُہمّات میں رہ
اس نے ملنا، نہیں ملنا، یہ ہے اُس کی مرضی
چھوڑ دے سوچنا، بس شوقِ ملاقات میں رہ
چھوڑ کر مجھ کو تجھے دھوپ نگل جائے گی
تو مرا چاند ہے ارمانؔ مری رات میں 
آج کا مقطع
اور کیا چاہیے کہ اب بھی‘ ظفرؔ
بھوک لگتی ہے، نیند آتی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved