بلاول بھٹو صاحب نہایت غصے کے عالم میں کہہ رہے تھے ''گلگت انتخابات کے حلقہ GB21 غذر سے نیازی حکومت نے بیلٹ بکس ہی اٹھا لئے‘ جس سے پی پی کا امیدوار کامیاب نہ ہو سکا، اس دھاندلی کے خلاف ہم مارچ کریں گے‘‘ شاید انہیں کسی نے یہ بتایا نہیں کہ اس حلقے سے تحریک انصاف نہیں بلکہ نواز لیگ کا امیدوار غلام محمد 4334 ووٹ لے کر کامیاب ہوا ہے۔ کیا اپنی اتحادی جماعت کے امیدوار کی کامیابی بھی انہیں قبول نہیں؟ بالکل ایسا منظر 2018ء کے عام انتخابات کے بعد بھی دیکھنے کو ملا جب ہارنے اور جیتنے والے اپوزیشن امیدوار ایک ساتھ کھڑے ہو کر دھاندلی کے الزامات عائد کر رہے تھے۔
پانچ برس قبل گلگت بلتستان کے انتخابات کے حوالے سے 'پیپلز پارٹی کی شکست اور بے نظیر کی جیت‘ کے عنوان سے لکھا جانے والا اپنا کالم اس وقت مجھے اچانک یاد آ گیا جب ٹی وی سکرینوں اور ٹویٹس میں مریم صفدر صاحبہ اور ان کی پیروی کرتے ہوئے بلاول بھٹو صاحب نے جی بی الیکشن میں اپنی شکست تسلیم کرنے کے بجائے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ پی ڈی ایم کی ان دونوں بڑی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان کے جلسوں میں موجود حاضرین کی شرکت بتا رہی تھی کہ گلگت بلتستان کے عوام کس کے ساتھ ہیں۔ حالیہ انتخابی نتائج میں مسلم لیگ (ن)کی دو اور پی پی پی کی تین نشستوں پر کامیابی ان کیلئے وہ ڈرائونا خواب بن چکا ہے جو لاہور اور کراچی میں بیٹھی شخصیات کو بے چین کئے ہوئے ہے۔ ان کے ذہنوں میں شاید اب بھی یہی تصور ہے کہ سلطانیٔ جمہور کا دور نہیں بلکہ اب بھی 'پدرم سلطان بود‘ کا زمانہ ہی چل رہا ہے، اور وہ چونکہ سلطانوں کے ولی عہد ہیں‘ اس لیے ان کے سوا کسی اور کو اس زمین پر حکومت کرنے کاحق حاصل نہیں۔ شاید شیر شاہ سوری ان کی یادوں سے محو ہو چکا ہے کہ مغل بادشاہوں سے سلطنت چھیننے والا بھی اﷲ بھیج دیا کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ میں درج ''ووٹوں کی عزت‘‘ شاید ان کے دل میں کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی کیونکہ یہ لیڈران سمجھتے ہیں کہ ووٹ تو صرف وہی ہوتا ہے جو ان کے نشانات پر ٹھپے والا ہو۔ اگر وہ پی ٹی آئی کے امیدوار سے ہار جائیں تو دھاندلی اور اگر خود چند ووٹوں سے جیت جائیں تو شفاف انتخاب؟
سب کو یاد ہو گا کہ جب 2009ء میں پی پی پی کی حکومت تھی تو گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات میں پی پی نے20 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اس کی حریف جماعت مسلم لیگ نواز کے حصے میں صرف 2 نشستیں آ سکی تھیں۔ اب مریم صفدر صاحبہ ہی یہ بتا سکتی ہیں کہ اُس کی وجوہات کیا تھیں۔ اس وقت بھی عوام نے مسلم لیگ کے جلسوں میں بھرپور شرکت کی تھی‘ پھر کیا وجہ بنی کہ صرف دو نشستیں ہی ان کے حصے میں آ سکیں؟ اس وقت اگر آپ کے ووٹ کو عزت نہیں ملی تو آپ نے احتجاج کیوں نہیں کیا تھا؟ حالانکہ تب ریاستی وسائل کا جس طرح بے دریغ استعمال کیا گیا تھا‘ اس کے گواہی اس وقت میڈیا اور اخبارات نے بھی دی تھی۔ 2015ء میں جب مرکز میں میاں نواز شریف اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان تھے تو گلگت بلتستان میں کرائے گئے انتخابات کے نتائج اور بھی حیران کن تھے کیونکہ ان انتخابات میں بلاول بھٹو کی جماعت پی پی پی صرف ایک نشست پر بمشکل کامیابی سمیٹ سکی تھی جبکہ مسلم لیگ نواز نے سب کا اس طرح صفایا کیا کہ 22 نشستیں اس کی جھولی میں آ گری تھیں۔ اب یہ کمالات کیسے ہوئے؟ اس وقت بلاول بھٹو صاحب کو دھاندلی نظر نہیں آئی؟ اس وقت احتجاج کیوں نہیں کیا گیا؟
2020 کے انتخابات میں نواز لیگ کی دو نشستیں دیکھنے کے بعد مریم صفدر کی منطق بہت نرالی ہے، فرماتی ہیں کہ ان کے جلسوں کی رونقیں دیکھنے والے جانتے ہیں کہ نون لیگ عوام میں کس قدر مقبول ہے۔ لگتا ہے کہ وہ اپنے اتالیقوں سے مشورہ کیے بغیر یہ کہہ رہی ہیں، بہتر ہوتا کہ وہ پرویز رشید صاحب سے ہی پوچھ لیتیں‘ وہ بتا دیتے کہ 'عطا اﷲ شاہ بخاری‘ کے جلسوں میں انسانوں کا سمندر امڈ آتا تھا لیکن ووٹ انہیں اس قدر کم ملتے تھے کہ اکثر ان کی ضمانت ضبط ہو جایا کرتی تھی۔ اب اگر جلسوں کی بات کر ہی دی ہے تو نواز لیگ نے جب بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کو شکست دے کر انتخابات جیتے تو بے نظیر کے جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت کی تاریخ گواہ ہے تو پھر میاں نواز شریف کیسے بی بی کو شکست دیا کرتے تھے؟ ڈیرہ اسماعیل خان میں فلم سٹار مسرت شاہین نے دو مرتبہ مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں الیکشن میں حصہ لیا‘ ان کے جلسوں میں شریک افراد کی تعداد دیکھنے کے بعد لگتا تھا کہ مقابلہ بہت ہی سخت ہو گا لیکن ہر بارمسرت شاہین بمشکل اپنی ضمانت بچا سکیں۔
پانچ برس قبل گلگت بلتستان کے انتخابات کے بعد وہاں ہر طرف یہی کہا جانے لگا تھا کہ 'پیپلز پارٹی ہار گئی اور بینظیر بھٹو جیت گئیں‘۔ پی پی پی کو عبرت ناک شکست ہو جائے اور محترمہ بے نظیر بھٹو جیت جائیں‘ کیا یہ ایک لطیفہ نہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ماروی میمن صاحبہ‘ جو اس وقت نون لیگ کی سرگرم رہنما اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن تھیں‘ نے خود انتخابات کے نتائج دیکھتے ہوئے فرطِ مسرت سے بے قابو ہو کر سب پر یہ راز کھول دیا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کیسے جیتیں اور پیپلز پارٹی کیسے ہاری؟ ماروی میمن مبینہ طور پر انتخابات سے عین قبل گلگت بلتستان کے انتہائی 'مستحق‘ خاندانوں کی کفالت کرتی رہیں۔ ملک کی سب سیا سی جماعتیں اور آزاد امیدوار جو ان انتخابات میں حصہ لے رہے تھے‘ باخبر تھے اور اس پر احتجاج بھی کیا جا رہا تھا لیکن کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ کا لائو لشکر پورے گلگت بلتستان کے کونے کونے میں بھاگ دوڑ کرتا دکھائی دے رہا تھا، بار بار شکایات کے با وجود کسی ادارے نے انہیں روکنے یا منع کرنے کی ہمت نہیں کی۔ ہنزہ نگر میں تو محترمہ نے اپنا کیمپ دو دن سے زیادہ دیر تک لگائے رکھا۔ عوامی ورکرز پارٹی کا احتجاج اس وقت سوشل میڈیا پر بے تحاشا گردش کر تا رہا جس میں سوال کیا جا رہا تھا کہ کیا کوئی ریاستی ادارہ ماروی میمن کے اس غیر قانونی اقدام کا نوٹس لے گا۔
2015ء میں جی بی انتخابات کے دوران‘ صرف ایک ماہ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کئی ارب روپے ''مستحق خاندانوں‘‘ میں تقسیم کیے گئے، اس حوالے سے سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے۔ انکم سپورٹ پروگرام کے بہت سے کرتا دھرتا خود یہ پول کھول کر بتا رہے تھے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کل کو جب آڈٹ ہو گا تو شکنجے میں وہی آئیں گے۔ اگر اس کا آڈٹ کیا جاتا تو ان انتخابات میں نون لیگ کی بے مثال 'مقبولیت‘ بے نقاب ہو جاتی۔
اب 15نومبر 2020ء کے گلگت‘ بلتستان انتخابات میں عمران خان کا مقابلہ کرنے کیلئے ملک کی دس سیاسی جماعتیں جس طرح اُن کے خلاف متحد ہوئیں‘ اس کے پیش نظر اگلے عام انتخابات میں ہر صوبے میں تحریک انصاف کے مقابلے میں علیحدہ علیحدہ اتحاد وجود میں آنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطا بق خیبر پختونخوا میں شیر پائو گروپ، مولانا فضل الرحمن، پیپلز پارٹی، پی ٹی ایم، نواز لیگ اور ولی خان خاندان تحریک انصاف کے مقابلے میں ایک مشترکہ اتحاد بنا کر انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔ باخبر حلقوں میں یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ اگر نواز لیگ نے پنجاب کی پندرہ نشستوں پر پی پی کے مقابلے میں اپنے امیدوار کھڑے نہ کرے تو آصف علی زرادری کے پی سمیت سندھ اور بلوچستان میں نواز لیگ کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی ہامی بھر چکے ہیں اور اس پیشکش پر دونوں اطراف سے مثبت اشارے سامنے آئے ہیں۔واللہ اعلم بالصواب!