تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     19-11-2020

محمد بخش آپ کو سلام!

10نومبر کو ایک خاتون سندھ کے شہر کشمور کے ایک تھانے میں پہنچتی ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی خاتون پولیس کو بتاتی ہے کہ اُسے نوکری کا جھانسہ دے کر کراچی سے کشمور بلایا گیا تو وہ اپنی چار سالہ بچی کو بھی اپنے ہمراہ لے آئی۔ خاتون کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کشمور میں اُس کے ساتھ تو جو بیتے گی‘ سو بیتے گی، اُس کی چار سال کی معصوم بچی بھی ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتے گی۔ ایسی سزا کہ جس کے بارے میں سوچ کر ہی روح تھرانے لگے۔ خاتون نے پولیس کو بتایا کہ کشمور میں کئی ملزم اُسے تو گینگ ریپ کا نشانہ بناتے ہی رہے لیکن اِس کے ساتھ اُن درندوں نے معصوم بچی کو بھی نہیں بخشا۔ کئی روز تک درندگی کا یہ کھیل کھیلنے کے بعد خاتون کو اِس شرط پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ جاؤ ہمارے لیے کوئی دوسری لڑکی لے آؤ ‘پھر تمہاری بچی کو چھوڑ دیں گے۔ خاتون سیدھی تھانے پہنچتی ہے اور اپنی بپتا پولیس اہلکاروں کو سناتی ہے۔ پولیس کے عمومی تاثر کی بابت تو ہم سب جانتے ہیں لیکن اِس خاتون کی بپتا سن کر پولیس اہلکاروں کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے مطلوبہ جگہ پر چھاپہ مارا لیکن ملزمان وہاں سے فرار ہوچکے تھے۔ فرار ہوتے وقت وہ خاتون کی چار سالہ بچی کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ سچ یہ ہے کہ اگر پولیس کوئی کام کرنے کی ٹھان لے تو پھر وہ کام ہو کر ہی رہتا ہے‘ سو اعلیٰ افسران کی مشاورت سے ملزمان کی گرفتاری کے لیے نئی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اِس دوران کشمور تھانے میں ہی تعینات اے ایس آئی محمد بخش کے ذہن میں کچھ اور ہی کشمکش برپا تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر کسی طرح سے ملزموں کو جھانسہ دینے کے لیے وہ خاتون کسی لڑکی کا انتظام کرلے تو اِن درندوں کو قانون کی گرفت میں لایا جاسکتا ہے۔ کئی ایک مواقع پر اُس کے ذہن میں اپنا آئیڈیا اپنے افسران کے سامنے رکھنے کا خیال بھی آیا لیکن وہ اِس سے باز رہا۔ اِس دوران چار سالہ بچی جیسے اُس کے دل ودماغ سے چپک کر رہ جاتی ہے‘ جو معلوم نہیں ملزموں کے کیسے سلوک کو سہہ رہی ہوگی۔ 
اے ایس آئی محمد بخش گھر میں بھی اس بات کو لے کر پریشان تھا، باپ کو پریشان دیکھ کر اُس کی بیٹی استفسار کرتی ہے۔ باپ ساری کہانی اُس کے سامنے بیان کردیتا ہے تو اُس کی بیٹی یہ کہہ کر باپ کوحیران کردیتی ہے کہ وہ ملزموں کے پاس جانے کے لیے تیار ہے۔ باپ کی طرف سے اونچ نیچ سمجھانے پر بیٹی حوصلہ دیتی ہے کہ آپ فکر مت کریں‘ مجھے کچھ نہیں ہوگا، بس آپ اللہ کا نام لیں۔ محمد بخش یہ تمام باتیں اپنے اعلیٰ افسران کے گوش گزار کرتا ہے تو اُن کی طرف سے بھی محمد بخش کو خطرات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ سب کی طرف سے سمجھائے جانے کے باوجود اِن باپ بیٹی نے تو جیسے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ چار سالہ بچی کو ملزموں کے پنجے سے چھڑا کرہی رہیں گے۔ پھر منصوبے کے تحت خاتون ملزمان کی طرف سے دیے گئے فون نمبر پر اُن سے رابطہ کرکے انہیں بتاتی ہے کہ اُس نے ایک لڑکی ڈھونڈ لی ہے۔ وہ خاتون محمد بخش کی بیٹی کے ساتھ ملزمان کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچتی ہے‘ اس دوران مختلف پولیس اہلکار سول لباس میں اُن پر پوری طرح نظر رکھے ہوتے ہیں۔ جیسے ہی خاتون اور یہ لڑکی ملزموں کے ڈیرے پر پہنچتی ہیں‘ پولیس چاروں طرف سے اُن پر دھاوا بول دیتی ہے۔ دوملزم پولیس کی گرفت میں آجاتے ہیں جس کے بعد بچی کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ ایک پولیس اہلکار ڈیرے کے ایک بند کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتا ہے تو اُسے ایک گندے سے کپڑے میں لپٹی ہوئی بچی نظر آتی ہے۔ جیسے ہی وہ بچی کے اوپرسے کپڑا ہٹاتا ہے تو اگلا منظر دیکھ کر اُس کی روح کانپ اُٹھتی ہے۔ ذہن میں رکھئے گا کہ بچی کی عمر صرف چار سال ہے۔ اس کے جسم پر متعدد زخموں کے نشانات دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے دانت ٹوٹے اور بال کٹے ہوئے تھے، متعدد مرتبہ ریپ کے باعث پیٹ کی ایک آنت باہر نکلی ہوئی تھی، بچی کی حالت دیکھ کر وہاں موجودہ دیگر پولیس اہلکاروں بھی ششدر رہ گئے،فوری طور پر بچی کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
اب اِس بچی کا علاج جاری ہے ۔ اِس حوالے سے یہ وفاقی حکومت کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو بچی کو علاج کے لیے بیرونِ ملک بھی بھجوایا جائے گا۔ ایک سراہے جانے کی بات اور بھی ہے کہ سندھ حکومت نے محمد بخش اور اُس کی بہادر بیٹی کو اُن کے شایانِ شان عزت بخشی ہے۔ سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے بھی بجا طور پر قرار دیا کہ یہ واقعہ اِس امر کا غماز ہے کہ انسانیت کبھی نہیں مرسکتی۔سچی بات ہے کہ جس انداز میں دونوں باپ بیٹی کو بگھی میں بٹھا کر‘ عزت کے ساتھ سینٹرل پولیس آفس لایا گیا اور وہاں اعلیٰ حکام اور افسران نے اُن کی عزت افزائی کی‘ یہ سب کچھ ایک خواب کی طرح محسوس ہورہا تھا۔ ہمارے ہاں کہاں Deserving لوگوں کو عزت بخشنے کا رواج ہے۔ تقریب کے دوران بہادر اے ایس آئی اور اُن کی صاحبزادی کو تمغہ شجاعت اور تمغہ امتیاز دیے جانے کی سفارش بھی کی گئی ۔ محمد بخش کے اعلیٰ ترین افسرنے اِس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ محمد بخش اُن کی فورس کا ایک افسر ہے۔ کہاں صوبے کا آئی جی اور کہاں ایک اے ایس آئی۔ جب آئی جی صاحب اپنے اے ایس آئی کی تعریف کررہے تھے تو ہمارے ذہن میں ایک بات آرہی تھی کہ اگر کچھ ہفتے قبل تھوڑی سی بہادری کا مظاہرہ کیا جاتا تو شاید ان کے لیے بھی انعامات کی بارش ہوجاتی۔ نجانے کیوں اُنہوں نے مادرِ ملت کے مزار پر ہونے والے ہلے گلے پر چپ سادھے رکھنے کو ترجیح دی۔ پولیس کی عدم توجہی ہی کے سبب پوری قوم سیخ پا ہوگئی تھی۔ عوام میں اِس معاملے پرغم وغصہ اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ دیگر اداروں کو حرکت میں آنا پڑا اور خواہ مخواہ معاملہ کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔ 
اُمید واثق ہے کہ آئندہ یہ خیال رکھیں گے کہ جس معاملے میں ''وسیع پیمانے‘‘پر اشتعال پھیلنے کا اندیشہ ہوتو اُس معاملے پر جلد کارروائی کرنے میں کبھی سستی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اب دیکھئے کہ کشمور سانحے پر ابھی خبر عوام تک پہنچی بھی نہیں تھی مگر محمد بخش اے ایس آئی نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں بہت کچھ داؤ پر لگا دیا۔ ایک طرف کہاں وہ درندے جنہوں نے ایک چار سالہ بچی کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا اور کہاں پولیس کا یہ بہادر اہلکار اور اُس کی صاحبزادی۔ محمد بخش اِس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہی گردانا جائے گا کہ مُردوں پر رونے پیٹنے والے اِس معاشرے میں اُس نے کچھ الگ ہوتے دیکھا ۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں ملک بنانے والا ایک خراب ایمبولینس میں دم توڑ جائے، جہاں ملک کا پہلا وزیراعظم جلسہ عام سے خطاب کے دوران قتل کردیا جائے، اور اس واقعے کی انکوائری رپورٹ جل جائے، جہاں بابائے قوم کی مادرملت کہلانے والی بہن کو غدار ٹھہرایا جائے، جہاں قومی پرچم تخلیق کرنے والے کے پوتے کو 20ماہ تک ناکردہ جرم میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑے، جہاں مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے والا کا اپنا نواسہ شاہی قلعے کے ٹارچر سیلز میں تشدد سہتے سہتے دم توڑ جائے اور اُس کی لاش تک کوغائب کردیا جائے، جہاں ملک کے منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر چڑھا دیا جائے، جہاں ملک کے بانیانِ کی اولاد دہشت گرد قرار پائے،وہاں ایک معمولی سے پولیس افسر کو اتنی عزت سے نوازا گیا ہے تو یقینا یہ منفرد واقعہ ہی کہلائے گا۔ بالکل اُسی مانند جس مانند محمد بخش نے بھی ایک منفرد کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اُس سے بھی بڑھ کراُس کی صاحبزادی نے جس بہادری کا مظاہرہ کیا اور سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی خود کو آگ میں جھونک دیا‘ یہ نہایت غیر معمولی ہے۔ بے شک محمد بخش اور اُس کی صاحبزادی کا کارنامہ تمام حیوانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ جب جب تمہارا ناپاک وجود انسانیت کو دکھ دے گا‘ تب تب انسانیت کے محافظ تمہارا راستہ روکنے کے لیے مستعد نظرآئیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved