تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     20-11-2020

بے رحمی سے خود غرضی تک کا سفر

انسان بے رحم اور خود غرض ہوجائے اور پھراپنے رشتے بھی راستے میں آئیں تو بندہ کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ برطانوی بادشاہ جارج ہشتم نے اپنی اُس محبوب بیوی کا سرقلم کرایا جسے وہ بڑے چاؤ سے‘ دنیا سے لڑ کر بیاہ کر لایا تھا۔ جس سے شادی کرنے کیلئے اس نے چرچ کے اصولوں اور ضابطوں کے خلاف یہاں تک بغاوت کی کہ چرچ آف انگلینڈ کی بنیاد رکھ کر شادی رچا لی تھی کیونکہ اٹلی کا چرچ اسے طلاق دے کر دوسری شادی کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ کچھ عرصے بعد اسی بیوی کو جلاد کے حوالے کیا گیا اور ملکہ پر لازم تھا کہ وہ جلاد کا تیز دھار کلہاڑا گردن پر چلنے سے پہلے بادشاہ کی شان میں قصیدہ پڑھے اور Long Live the King کا نعرہ بلند کرے۔ وہ چاہتا تو اسے ابلتے پانی میں بھی پھینکوا دیتا یا اس کے جسم کا ایک ایک حصہ الگ کر کے مرواتا لیکن بادشاہ نے صرف کلہاڑے کے وار سے سر قلم کرنے کا فیصلہ کر کے اس پر'' احسان‘‘ کیا تھا۔
یہ خوفناک خیالات مجھے اس وقت آرہے ہیں جب پاکستان میں وزیراعظم عمران خان اور مستقبل کے وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شامل بلاول بھٹو‘ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان مقابلہ چل رہا ہے کہ کورونا کے دنوں میں کون زیادہ لوگوں کو گھروں سے نکال سکتا ہے تاکہ سب پر رعب پڑے کہ وہ کتنے پاپولر اور اہم لوگ ہیں اور ان پر جانیں نثار کرنے والے موجود ہیں۔ عام دنوں میں ایسی سیاسی سرگرمیاں معاشرے اور جمہوریت کیلئے مثبت ہوتی ہیں لیکن جو ملک پچھلے ایک سال سے کورونا کا سامنا کررہا ہو وہاں تو یہ موت بانٹنے کے برابر ہے۔پوری دنیا مسلسل خوف کا شکار ہے‘ بے یقینی نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے‘ اس وقت ہم پر یہ جنون کیوں طاری ہوگیا کہ کون کتنے بندے اکٹھے کرسکتا ہے؟ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ایک پریس کانفرنس میں دونوں ہاتھ باندھے ایک تصویر نے پاکستانیوں کو بہت متاثر کیا تھا۔ اس تصویر میں وہ لوگوں سے التماس کررہے تھے کہ خدا کیلئے باہر نہ نکلیں۔اور پھر چشم فلک نے وہ منظربھی دیکھا کہ وہی مراد علی شاہ کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے کے انتظامات کروارہے تھے۔ کراچی چھوڑیں اندرون سندھ سے بسیں بھر بھرکرلائی گئیں تاکہ جلسے میں بلاول بھٹو کا قد بڑا کیا جائے۔ اب دس نومبر کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق کراچی میں کورونا پھیل گیا ہے۔بات گوجرانوالہ تک نہیں رکی‘ وہاں سے کراچی پھر کوئٹہ تک پہنچ گئی۔ کچھ وقفہ آیا تو بلاول نے فلائٹ پکڑی اور گلگت کو پرواز کرگئے۔ وہاں انہوں نے ہجوم اکٹھے کرنا شروع کیے۔ ان کو دیکھ کر مریم نواز کو لگا کہ وہ پیچھے نہ رہ جائیں کیونکہ ٹی وی چینلز پر ہر جگہ بلاول جوشیلی تقریریں کرتے نظر آرہے تھے۔وہ بھی پہنچ گئیں اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب فرمایا۔
اب تک عمران خان صاحب یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے سوچا‘ کیسے ہوسکتا ہے کہ مریم اور بلاول ہزاروں‘ لاکھوں بندے باہر نکالتے رہیں اور وہ پیچھے رہ جائیں۔ وہ ان سے زیادہ مشہور اور معروف ہیں۔ ایک طرف وہ ہر ہفتے کابینہ میں اسد عمر سے بریفنگ لے رہے تھے کہ کورونا کیسے تیزی سے پھیل رہا تھا اور دوسری طرف فیصلہ ہوا کہ فوری طور پروزیر اعظم کے لیے جلسوں کا انتظام کیا جائے۔ خان صاحب سیدھے سوات گئے‘جہاں مراد سعید نے ہزاروں لوگ اکٹھے کرنے کا انتظام کیا ہوا تھا‘ وہاں خان صاحب کورونا پر خوب برسے تاکہ وہ ڈر کر بھاگ جائے۔اگلا پڑائو حافظ آبادمیں تھا۔ اب جب بلاول اور مریم گلگت پہنچے ہوئے ہوں تو خان صاحب بھلا کیسے پیچھے رہتے‘ وہ بھی پہنچ گئے اور واپس آکر گنڈاپور اور زلفی بخاری کو بھیجا کہ باقی ہجوم تم لوگ اکٹھا کرو۔اب کابینہ کے اجلاس میں اسد عمر نے انکشاف کیا ہے کہ جن جن شہروں میں مریم‘ بلاول اور عمران خان نے جلسے کیے ہیں وہاں کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ فیصلہ ہوا کہ اب وزیراعظم جلسے نہیں کریں گے۔ اس دوران مریم نواز سوات پہنچ گئیں اور ہزاروں لوگ اکٹھے کر لیے۔ وہاں سے مانسہرہ پہنچ گئیں۔
جب عمران خان نے دیکھا کہ بات بڑھ گئی ہے تو فیصلہ ہوا کہ وزیر اعظم جلسوں کے بجائے تقریبات میں شرکت فرمائیں گے ‘ یوں اگلے دن وہ فیصل آباد پہنچ گئے جہاں پھر بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے کیے گئے جن سے خطاب فرمایا گیا۔ فیصل آباد میں لنگر خانوں کے افتتاح کئے گئے‘ پتہ چلا کہ ایک انڈر پاس بھی تیار ہے تو لگے ہاتھوں اس کا فیتہ کاٹنے بھی پہنچ گئے‘ وہی عمران خان جو شریفوں کو دن رات لتاڑتے تھے کہ وہ تختی جمہوریت چلا رہے ہیں کہ عوام کا پیسہ لگا کر اس پر اپنے نام کی تختی لگواتے ہیں ۔ویسے عوام کو بھی داد ملنی چاہیے‘ جو ہر لیڈر کے جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں پہنچ جاتے ہیں‘ نہ انہیں اپنی فکر ہے‘ نہ اپنے گھر والوں کی جو اِن کی وجہ سے وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ان سب کو اگر پروا ہے تو صرف اس بات کی کہیں عمران خان کا جلسہ کمزور نہ پڑے‘ کہیں مریم نواز کو پشیمانی نہ ہو کہ جلسے میں لوگ کم آئے یا بلاول کو پریشانی نہ اٹھانا پڑے کہ جلسہ ناکام ہوگیا۔ عوام کو داد دیں کہ خود کو اور اپنے خاندان کو خطرے میں ڈال کر بھی یہ لوگ ان کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں تاکہ عمران خان اقتدار میں رہیں یا بلاول بھٹو اور مریم نواز اقتدار میں آسکیں۔
ویسے ان جلسوں میں آپ نے عمران خان صاحب کے بچوں کو دیکھا ہے یا مریم نواز صاحبہ کے بچوں کو؟ ان کے اپنے بچے محفوظ ہیں۔ وہ کورونا میں ایکسپوز نہیں ہورہے۔ ویسے مریم نواز کو حمزہ کی فکر ہے جسے نیب جیل میں کورونا ہوگیا لیکن اسے عام لوگوں کے حمزہ‘ حسن‘ حسین کی فکر نہیں ۔ ویسے عوام کے لیے عرض ہے اگر خدانخواستہ ان کے پسندیدہ لیڈروں یا ان کے خاندان میں سے کسی کو کورونا ہوبھی گیا تو ان کے لیے دنیا کے بہترین ڈاکٹر‘ میڈیکل کیئر اور وینٹی لیٹرز میسر ہوں گے۔آپ کو نہ ڈاکٹر ملنا ہے‘ نہ ہسپتال‘ نہ کسی نے قریب آنا ہے۔ اذیت ناک موت الگ۔ اپنے بچے لندن میں رکھ کر دوسروں کے بچوں کی زندگی کو دائو پر لگا دیا گیا ہے اور لگانے والے وہی ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ عوام کے مسیحا ہیں۔
دوسری طرف کابینہ میں بتایا گیا ہے کہ ہمارے پاس ویکسین حاصل کرنے کے وسائل نہیں ہیں کہ لوگوں کو مرنے سے بچائیں۔ اس سال اگست تک بہت سی کمپنیوں سے رابطہ کرسکتے تھے‘ لیکن عمران خان حکومت نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ ایک اہم وزیر نے مجھے خود بتایا کہ اگلے اٹھارہ ماہ تک پاکستان میں ویکسین نہیں آسکتی۔ امریکہ نے ساری ویکسین پہلے اپنے چونتیس کروڑ لوگوں کیلئے بک کرالی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک بھی ایڈوانس بکنگ کراچکے ہیں۔ ساری ویکسین وہی لیں گے۔ اس کے بعد ہمارے جیسے ملکوں کی باری آئے گی وہ بھی بل گیٹس جیسے ارب پتی ہمیں عطیہ کریں گے ‘جیسے پولیو ویکسین کی ہے۔یہ بات طے ہے جو بندہ بھی اپنے جیسے انسانوں پر حکومت کرنے کا جنون پالتا ہے تسلی رکھیں وہ اندر سے نہ صرف بے رحم ‘ بے حس بلکہ خودغرض بھی ہے ‘لیکن اتنا سیانا ضرور ہے کہ اپنے بچوں کو موت کے منہ میں نہیں دھکیلے گا۔ اپنے بچوں کو اپنے ہی جلسوں میں نہیں آنے دے گا۔یہ بے رحمی اور بے حسی صرف دوسرے کے بچوں کیلئے ہے‘ چاہے ہزاروں مر جائیں۔ ان کا سیاسی قد چھوٹا نہ ہو۔
کنگ جارج کے دوسری بیوی کو قتل کرانے کے پیچھے بے رحمی اور خودغرضی چھپی تھی۔ اس نے تیسری شادی کرنی تھی جو دوسری بیوی کی موجودگی میں نہیں ہوسکتی تھی۔دوسری کا مرنا ضروری تھا۔جنتا پرانا انسان ‘ اتنے قدیم حکمران اور اتنے ہی وہ پرانے زمانوں سے بے رحم اور خود غرض۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved