تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     20-11-2020

اوباما اور راہول

سابق امریکی صدر باراک اوباما کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ''اے پرومزڈ لینڈ‘‘ (A Promised Land) شائع ہو گئی ہے۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں انہوں نے 2010 میں بھارت کے پہلے دورے کا ذکر کیا ہے۔ اس میں وزیر اعظم من موہن سنگھ، کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور ان کے بیٹے راہول سے ان کی ملاقات کی تفصیل بھی موجود ہے۔ اس کے بارے میں ہندوستان میں موافق اور مخالف‘ دونوں طرح کے خوب تبصرے ہو رہے ہیں۔ یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حالیہ اسمبلی کی ضمنی انتخاب میں بہار، یو پی، گجرات وغیرہ صوبوں میں کانگریس پارٹی بری طرح ہار گئی ہے۔ راہول گاندھی کو پسند کرنے کے بعد بھی، اوباما نے ان کا ذکر ایک بغیر خود اعتمادی والے نوجوان کے طور پر کیا ہے۔ راہول کے بارے میں یہ ایک انتہائی فوری، نرم اور غیر جانب دارانہ تبصرہ ہے۔ بھارت کے عوام نے متعدد بار بتایا ہے کہ وہ راہول کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، لیکن کانگریس کے لوگ یا تو عوام میں خاموش رہتے ہیں یا وہ ان کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ ان کی مجبوری ہے۔ اس تبصرے پر اوباما پر تنقید کرنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ انہوں نے وہی بات لکھ دی جس کو انہوں نے صحیح سمجھا۔ اگر وہ کانگریس مخالف ہوتے تو کیا وہ ڈاکٹر من موہن سنگھ اور سونیا گاندھی کی اتنی تعریف کرتے؟ ان کے تبصروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اوباما ایک کھلے دل کے آدمی ہیں۔ میں نے ان سے 1999 میں ملاقات کی تھی جب وہ شکاگو سے تعلق رکھنے والے سینیٹر تھے۔ جب میں بھارت نژاد دوست سے ملنے گیا تو اس نے اپنے پاس بیٹھے ایک سیاہ فام شخص کا تعارف کرایا اور وہ شریف آدمی میرے ساتھ 5-10 منٹ تک بیٹھا رہا۔ بہت سالوں بعد، 2008 میں، میرے دوست نے مجھے بتایا کہ یہ باراک اوباما ہیں، جو ہلیری کے خلاف صدارتی انتخاب لڑ رہے ہیں۔ امریکہ میں باراک اوباما کی نرمی کے بہت سے قصے ہیں۔ پوچھا جا رہا ہے کہ انہوں نے نریندر مودی کے بارے میں کچھ کیوں نہیں لکھا۔ وہ اپنی کتاب کے دوسرے حصے میں لکھ سکتے ہیں۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کہانی لکھیں تو یہ دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن سکتی ہے کیونکہ وہ اگرچہ ایک ہی مدت کے لئے وائٹ ہائوس کے مہمان بنے‘ لیکن ان کا دور بہت سے حوالوں سے ایک ہنگامی دور قرار دیا جا سکتا ہے۔ اوباما نے اپنی یادداشتوں میں کئی دوسرے ممالک کے رہنمائوں پر بھی تبصرہ کیا ہے۔ ان تبصروں کی وجہ سے، ان کی کتاب بہت سارے ممالک میں بہت فروخت ہو گی۔ اگر ہم اوباما کا موازنہ امریکہ کے دوسرے صدور رچرڈ نکسن، رونلڈ ریگن، جارج بش، جمی کارٹر وغیرہ سے کریں اور ان کی خفیہ دستاویزات دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے۔ انہوں نے ہندوستانی وزرائے اعظم کے بارے میں اتنا قابل اعتراض تبصرہ کیا ہے کہ ان کا ذکر کرنا بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے۔ اگر ہندوستان کے وزرائے اعظم بھی اوباما کی طرح اپنی یادداشتیں لکھتے تو ان پر سخت بحث کی جا سکتی تھی، لیکن بیشتر وزرائے اعظم اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد دیو گوڑا یا من موہن سنگھ کی طرح زیادہ دن زندہ نہیں رہے۔ یہ دونوں زیادہ عرصہ جئے ہیں۔ من موہن سنگھ پر فلم تو بنی مگر وہ اب بھی زبان بند ہی رکھے ہوئے ہیں ہمارے کچھ سابق صدور نے اپنی یادداشتیں تحریر کیں، جو پڑھنے کے قابل ہیں لیکن وہ اتنا وزن نہیں رکھتیں جتنا وزیر اعظم کی یادداشتوں میں ہوتا ہے۔
رسیپ اور چین کی چودھراہٹ
دنیا کی سب سے بڑی مشترکہ منڈی رسیپ (آر سی ای پی) کا اعلان ویت نام میں کیا گیا ہے۔ اس میں 15 ممالک کا احاطہ کیا جائے گا اور اگلے دو سالوں میں اس پر عمل شروع ہو جائے گا۔ مشترکہ منڈی کا مفہوم یہ ہے کہ ان تمام ممالک کا سامان آزادانہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خریدا اور بیچا جا سکتا ہے۔ یہ ٹیکس یا دیگر پابندیوں کے تابع نہیں ہو گا۔ یورپی یونین میں ایسا نظام موجود ہے، لیکن ایشیا میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ مارکیٹ دنیا کی تجارت کا 30 فیصد ہو گی۔ اس تنظیم میں چین، جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا کے علاوہ آسیان تنظیم کے 10 ممالک شامل ہوں گے۔ یہ خیال 2008 میں سامنے آیا تھا۔ اسے حتمی شکل اختیار کرنے میں 12 سال لگے، لیکن 2017 میں ٹرمپ کے امریکہ نے اس تنظیم کا بائیکاٹ کیا اور ہندوستان، اس کا حلیف ہونے کے باوجود، اس سے دور رہنا چاہتا ہے۔ بھارت نے پچھلے سال ہی اس سے باہر رہنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ بھارت کو خوف تھا کہ اس کی مارکیٹ اتنی بڑی ہے کہ چین اس پر قبضہ کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اس کا امریکی بازار اس وقت صدمے میں ہے۔ وہاں سے اسے اچھا رد عمل نہیں مل رہا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں تو اسے اچھے خاصے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا اور لگتا تھا کہ دونوں ملکوں میں تجارتی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ وہ ہندوستانی مارکیٹوں کو اپنے سستے سامان سے بھر دے گی اور اس کے نتیجے میں بھارت کی تجارت رک جائے گی اور اس کی مقامی صنعت کا بیڑہ غرق ہو جائے گا‘ جیسا کہ ایسے حالات میں ہوتا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ امریکہ میں انتظامیہ کی تبدیلی کے چین کی بھارت کے ساتھ تجارت کے حوالے سے سوچ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ ہندوستان کا 'آسیان‘ کے بیشتر ممالک کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ ہے اور اسی وجہ سے بھارت کی برآمدات کم ہیں اور درآمدات بہت زیادہ ہیں۔ گزشتہ سال، آسیان ممالک کو ہندوستان کی برآمدات 37.47 بلین ڈالر تھیں جبکہ درآمدات 59.32 بلین ڈالر تھیں۔ چین کے ساتھ پہلے ہی بہت بڑا تجارتی عدم توازن موجود ہے۔ اب، اگر یہ مشترکہ منڈی نافذ کر دی گئی تو یہ ممکن ہے کہ چند سالوں میں یہ چینی مارکیٹ بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی ہچکچاہٹ فطری اور وقتی ہے‘ لیکن بھارت کے بغیر یہ مشترکہ منڈی ادھوری ہی رہے گی۔ اسی لئے اس تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ بھارت کے لئے اس کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔ جب چاہے داخل ہو سکتا ہے۔ میں اس رائے کا حامل ہوں کہ بھارت کو دیر سے سہی اس 'علاقائی وسیع پیمانے پر اقتصادی شراکت داری‘ (آر سی ای پی) تنظیم میں شامل ہونا چاہئے، لیکن اپنی شرائط پر۔ اگر وہ چاہے تو چین کی شائونزم کو چیلنج کر سکتا ہے۔ ہندوستان کو 'رسیپ‘سے پہلے جنوبی ایشیا کے ممالک میں اسی طرح کی تنظیم (مشترکہ مارکیٹ) قائم کرنی چاہئے، لیکن کیسے؟ اگر ہم سارک ممالک کی مشترکہ منڈی تشکیل دے سکتے ہیں تو نہ صرف 100 ملین افراد کو فوری طور پر روزگار مل سکتا ہے، بلکہ یہ علاقہ دنیا کے خوشحال ترین خطوں میں ترقی کر سکتا ہے۔ اقتصادی ماہرین کی جانب سے پچھلے کچھ عرصے سے یہ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ یورپی یونین کی طرز پر اقتصادی خوش حالی کا اگلا دور ایشیا میں آئے گا۔ تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس تنظیم کی داغ بیل ڈالنا جنوبی ایشیا کی اسی ترقی کے نئے دور کا آغاز ثابت ہو گا‘ اقتصادی ماہرین جس کی بار بار پیش گوئیوں میں مصروف ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ اس خطے کے عوام کے لئے ایک بڑی خبر ہے اور اس کی بنیاد پر یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ آنے والے ماہ و سال ہمارے لئے آسودگی اور خوش حالی لانے والے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved