تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     20-06-2013

زیارت پر حملہ

15 جون کو دہشت گردوں کے حملہ میں زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی جل کر راکھ ہوگئی۔ یہ حملہ پاکستان کی ایک قومی یادگار پر تھا ۔اس پر نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کے لوگوں کو صدمہ ہوا۔ بلوچستان سپاہ آزادی BLAنے جو پاکستان سے صوبے کی علیحدگی اور آزادی کے لیے لڑ رہی ہے اس ’’کارنامے‘‘ کا سہرا اپنے سر باندھا ہے۔ صوبے کے قوم پرست وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور گورنر محمد خان اچکزئی (پشتون)اس حملے کی مذمت کر رہے ہیں۔ اسی روز کوئٹہ میں میڈیکل کالج کی ایک بس کو بھی دہشتگری کا نشانہ بنایا گیا جس میں تیرہ طالبات جاں بحق اور بیس شدید زخمی ہوئیں ۔یہ حملے ظاہر کرتے ہیں کہ حملہ آوروں کے سر پرستوں کو پاکستان کی وحدت‘ آئین اور بلوچ روایات کا کو ئی پاس نہیں ۔ بلوچستان‘ آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے چھوٹا اور رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے ۔اس میں صحرا بھی ہیں اور پہاڑ بھی۔بارش بہت کم ہوتی ہے مگر کاریز ’قدرتی چشمے‘ بکثرت ہیں جو آبپاشی کرتے ہیں۔ اس میں سنگ مر مر بھی ہے اور تازہ سیب بھی‘ اس میں قدرتی گیس نکلتی ہے اور دوسری بیش قیمت معدنیات کے نکلنے کا امکان ہے ۔زیارت اس کے ایک ضلع اور ضلع کے صدر مقام کا نام ہے ۔ یہ شہر سطح سمندر سے آٹھ ہزار پچاس فٹ کی بلندی پر واقع ہے اس لیے گرمیوں میں آب و ہوا نہایت خوشگوار ہوتی ہے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کو تپ دق تھی جسے سفید فام حاکموں‘ کانگرسی اور مخالف سیاستدانوں سے مخفی رکھا گیا تھا۔ 1948 ء میں وہ بیمار پڑے تو انہیں آرام کے لیے کراچی سے زیارت بھجوا دیا گیا جہاں انہوں نے اپنی بیش بہا زندگی کے آخری دن گزارے اور ریذیڈنسی میں قیام کیا ۔یہ عمارت 1892ء میں بنی۔ اس میں علاقے کی لکڑی استعمال کی گئی تھی اور یہ ایک خوبصورت ڈیزائن کے تحت بنائی گئی۔ دنیا میں صنوبر (جو نیپر) کے درختوں کا دوسرا بڑا ذخیرہ اسی علاقے میں موجود ہے مگر بتدریج انسانوں کی معاشی ضرورتوں کی بھینٹ چڑھ رہا ہے ۔شروع میں وہ شمال مغرب میں بر سر پیکار یورپی سپاہیوں کی sanatorium (آرام گاہ) رہی۔ بعد میں اسے گورنر جنرل کے ایجنٹ کے گرمائی دفتر کا درجہ دے دیا گیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد وہ خالی تھی اس لیے بیماری کے دنوں میں قائد اعظم کی رہائش گاہ ہونے کے لیے موزوں تھی۔ اب یہ قائد اعظم میوزیم تھی اور اس کے جلنے سے قائدؒ کے زیر استعمال چیزیں بھی ہمیشہ کے لیے معدوم ہو گئیں ۔ زیارت کے لوگ‘ اس عمارت کی تباہی پر سوگوار ہیں ۔وہ بنیادی طور پر امن پسند اور سادہ لوح ہیں ۔شہر کے مضافات میں حضرت بابا (طاہر) خرواریؒ کا مزار اس شہر کی وجہ تسمیہ ہو سکتا ہے۔ عید کی نماز پڑھنے کے بعد لوگ اس درگاہ پر حاضر ہوتے ہیں اور نشانہ بازی اور پہلوانی کے مظاہرے دیکھتے ہیں ۔شہر کے اندر نو گزے پیر (بابا کریم داد) کا مزار بھی ان کی عقیدتوں کا مرکز ہے اور وہ دونوں بزرگوں کی کرامات کے تذکرے کرتے ہیں ۔ نو گزے پیر کے مزار لاہور اور دوسرے شہروں میں بھی پائے جاتے ہیں اور غالباً داستان امیر حمزہ کے اس دور کی یا دلاتے ہیں جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت زوال پزیر تھی اور لوگ شہدائے آزادی کو دراز قامت ظاہر کرنا پسند کرتے تھے ۔ ……………………… واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے نے Understanding Pakistan کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا ہے جس میں نو ہفتوں کا کورس مکمل کرنے والے امریکیوں اور پاکستانی امریکیوں کو سندیں عطا کی جائیں گی۔ زیارت اس کورس کا ایک سبق ہو سکتا ہے ۔ لیکچرار اپنے طلبا کو سمجھائے کہ زیارت کا محل وقوع کیا ہے ؟شہر کی اہمیت کیا ہے؟ بلوچستان میں گڑ بڑ کیوں ہے ؟ قوم پرست اور علیحدگی پسند میں کیا فرق ہے؟ سرداری نظام اور اس کی تاریخ کیا ہے؟ بلوچوں کی شورش میں افغانستان‘ ہندوستان یا امریکہ کا کوئی ہاتھ ہو سکتا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔یہ کورس جارج میسن یونیورسٹی میں زیر تعلیم پاکستانی والدین کی اولاد کی انجمن PSA کی صدر فرح ادیب کے ایما اور تعا ون سے شروع کیا گیا مگر اب تک اس کا دا ئرہ محدود ہے ۔کورس جو سفارت خانے کے Generation Next Initiative کا جز ہے عظیم تر واشنگٹن تک محدود ہے ۔ یہ ان تمام ملکوں تک پھیلنا چاہیے جہاں پاکستانی نقل وطن کے ذریعے یا بسلسلہ کاروبار مقیم ہیں۔ ایسے ملکوں کی بدیہی مثالیں امریکہ کے علاوہ کینیڈا‘ مشرق وسطی‘ یورپ اور سکنڈے نیویا میں ملیں گی ۔ناظم الا مور ڈاکٹر اسد محمد خان نے منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ سفارت خانہ‘ امریکی اور پاکستانی امریکیوں تک رسائی کو پوری اہمیت دیتا ہے اور پاکستان کی تفہیم میں نوجوانوں کی آگہی کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر خان کے علم و فضل میں کوئی کلام نہیں مگر کورس کے لیکچرار‘ سفارت خانے کے عملے تک محدود نہ ہوں تو یہ منصوبہ غیر جماعتی ہو جائے گا اور اس کی تاثیر بڑھے گی ۔پاکستان کی تاریخ‘ جغرافیہ اور مسائل پر گفتگو کے لیے غیر سرکاری ماہرین کو مدعو کیا جا سکتا ہے یا وسائل اجازت دیں تو پاکستان سے غیر جانبدار لیکچرار لائے جا سکتے ہیں۔ یہ معروضہ پیش کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ پاکستانی پارلیمانی جماعتوں میں دہشتگری کے خلاف نکتہ نگاہ کا اتحاد نظر نہیں آتا۔ بالخصوص حکمراں پارٹی مسلم لیگ (ن) کو یہ تاثر دور کرنا چاہیے کہ وہ دہشت پسندوں کے حق میں کوئی نرم گوشہ رکھتی ہے اور ان سے مذاکرات چاہتی ہے ۔ بلوچستان میں ا سے اکثریت حاصل تھی مگر اس نے صوبے کا انتظام بلوچ اور پشتون قوم پر ستوں کے حوالے کر دیا جس کا خیر مقدم کیا گیا۔ شورش کی دوسری بڑی آماجگاہ خیبر پختونخوا ہے جہاں عمران خان کی تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھری ہے اور وہ دہشت پسندوں سے امن کی بات چیت کی حمایت اور ان کے خلاف ڈرون حملوں کی مخالفت کر رہی ہے۔ جہاں تک واشنگٹن کے سفارت خانے کا تعلق ہے اس کا اتہ پتہ دو لحاظ سے غیر موزوں ہے۔ اول یہ سفارت خانہ آبادیوں سے دور ہے اور وہاں پارکنگ کی سہولتیں کم ہیں۔ دوم وہ ایک سرکاری ادارہ ہے اور اس کی غیر جانبداری کی قسم نہیں کھائی جا سکتی۔ Initiative خواہ سفارت خانے کے ہاتھ میں رہے مگر کورس اگر ڈی سی سے باہر آ جائے تو یہ بہتر ہو گا اور اس میں زیادہ افراد حصہ لے سکیں گے ۔ سر دست‘ کورس میں یونیوسٹیوں کے طلبا‘ سرکاری ملازم‘ تاجر اور نئے کاروبار شروع کرنے کے متمنی امریکی گویا سرکاری اور نجی شعبے کے لوگ شریک ہیں ۔وہ اس کورس کو معلوماتی اور بروقت پاتے ہیں ۔ڈاکٹر خان نے ایسے اقدامات کو‘ دوسروں تک رسائی کی سفارتی کوشش کا مضبوط جزو قرار دیا اور انہیں امریکہ اور پاکستان کے درمیان عوامی رابطے کی تعمیر میں لازمی کہا ۔یہ ایک اہم اقدام ہے اور خواب خرگوش سے سفارت خانے کی بیداری کا پتہ دیتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved