الیکشن ریفارمز پر حکومت سے بات ناممکن ہے: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''الیکشن ریفارمز پر حکومت سے بات ناممکن ہے‘‘ کیونکہ ہمیں اسی طرح کے انتخابات راس ہیں جبکہ تھرڈ پارٹی نے ہمیشہ تو ہمارے خلاف نہیں رہنا اور موجودہ رویے پر نظر ثانی بھی کی جا سکتی ہے جس کے لیے زمین ہموار کرنے کی کارروائیاں شروع ہو چکی ہیں اور جس میں سب سے پہلے بیانیے پر نظر ثانی کی جا رہی ہے جو کہ پارٹی قیادت کے مفاہمانہ بیانات سے ظاہر ہے جس میں بات چیت کا امکان ظاہر کیا گیا ہے اور رسمی طور پر یہ شرط بھی عائد کر دی گئی ہے کہ اس سے پہلے حکومت کو فارغ کیا جائے، اس لیے الیکشن ریفارمز کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
شہباز اور حمزہ کو جیل میں ہر سہولت حاصل ہے: فیاض چوہان
صوبائی وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو جیل میں قانون کے مطابق ہر سہولت حاصل ہے‘‘ جبکہ خاکسار کو اس محکمے کا وزیر مقرر کرنے کا واحد مقصد ہی یہ تھا کہ ان سہولتوں کی رسائی میں کسی طرح کی کوتاہی سرزد نہ ہونے پائے اور میں اس کی ہر ہفتے وزیراعلیٰ کو رپورٹ بھی دیتا ہوں اور وہ دونوں خاکسار کی اس کارگزاری پر خاصے مطمئن ہیں اور کئی بار انہوں نے جیل میں میرا شکریہ بھی ادا کیا ہے اور اُن کا جی وہاں اس قدر لگ گیا ہے کہ وہ وہاں پر مستقل طور پر رہائش اختیار کرنے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ انہیں ایسی سہولتیں ان کے گھروں میں بھی حاصل نہیں ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں رحم اپیل اور دیگر قوانین پر ایک اجلاس میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
اسلام آباد میں بیٹھی حکومت جنوری تک کی مہمان ہے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''اسلام آباد میں بیٹھی حکومت جنوری تک کی مہمان ہے‘‘ اور یہ بات میں اس خصوصی وصف کے بل بوتے پر بیان کر رہا ہوں جو صرف مقربین کو عطا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس میں خصوصی امتیاز تو والد صاحب ہی کو حاصل ہے؛ تاہم ایسی چھوٹی موٹی پیشگوئیاں کرنے کی صلاحیت مجھے بھی حاصل ہے اور یہ ہماری سالہا سال کی ریاضت کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ اس حکومت کو ہم فوری طور پر بھی چلتا کر سکتے تھے لیکن اس کی خصوصی استدعا پر اسے یہ مہلت دی گئی ہے کیونکہ ہم رحم دل بھی کافی واقع ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز گلگت میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومتی دبائو پر لیگیوں کیخلاف مقدمات بن رہے : عظمیٰ بخاری
نواز لیگ پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ ''حکومتی دبائو پر لیگیوں کے خلاف مقدمات بن رہے ہیں‘‘ حالانکہ ان سے زیادہ معصوم کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ انہوں نے اپنی کمائی کسی فضول خرچی پر ضائع نہیں کی ہے بلکہ اس سے ملک کے اندر اور باہر اثاثے بنائے ہیں تاکہ ان کی نیت پر شبہ نہ کیا جا سکے اور یہ تو ان کے بیانات سے بھی ظاہر ہے جسے مزید ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ کون نہیں جانتا کہ یہ ساری انتقامی کارروائی ہے اور ہم نے اسے اتنی بار انتقامی کارروائی کہا ہے کہ اب لوگوں کو بھی اس پر یقین کر لینا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہی تھیں۔
قومی وسائل لوٹنے والوں کو معاف نہیں کریں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''قومی وسائل لوٹنے والوں کو معاف نہیں کریں گے‘‘ حالانکہ وسائل سے کئی اور طریقوں سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی کو خبر ہی نہ ہو ،اس لیے لوٹنے جیسے قبیح عمل کو اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے جو بدنامی کا باعث بھی ہے۔ کم از کم آدمی کو اپنی حیثیت کا تو خیال رکھنا چاہیے نہ کہ سرِ عام لوٹ مار مچاتا پھرے۔ اس لیے انہیں معاف کرنے سے بہتر ہے کہ انہیں مفید مشوروں سے مالا مال کیا جائے تا کہ وہ لوٹ مار سے بھی بچے رہیں اور وسائل سے استفادہ بھی کرتے رہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
زخم ِ سخن
یہ علی عرفان عابدی کا مجموعۂ کلام ہے جسے عنبر بک فائونڈیشن کراچی نے شائع کیا ہے۔ انتساب اپنے سات شہزادوں (پوتوں، نواسوں) کے نام ہے جو اہلِ زبان کی اولادیں ہیں۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر اور مختصر تعارف درج ہے۔ ابتدا میں افتخار عارف کی تحسینی رائے درج ہے۔ دیباچہ اور رائے ڈاکٹر جمال نقوی اور عرفان کا بقلم خود ہے۔ نمونۂ کلام کے طور پر یہ اشعار پیش ہیں:
جب دل میں کوئی راز چھپا ہوتا ہے
تو درد تڑپنے کی دوا ہوتا ہے
آتا ہے کبھی حشر بداماں وہ مقابل
اک قلب کا انبار لگا ہوتا ہے
عرفاؔن عبث یہ کہ ہے تقدیر کا لکھا
سوچو کہ عمل اچھا بُرا ہوتا ہے
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل
اس دل کے راستے سے گزر تو سہی کبھی
کوئی سفر اِدھر کا بھی کر تو سہی کبھی
بے شک تو اپنی گرمیٔ رفتار کم نہ کر
رُک تو سہی کہیں پہ‘ ٹھہر تو سہی کبھی
اس اپنے آسماں سے اُتر تو سہی ذرا
اور پائوں میری خاک پہ دھر تو سہی کبھی
خالص ہوں اور تیری ملاوٹ بھی چاہیے
خالی ہوں‘ اپنے آپ سے بھر تو سہی کبھی
دھندلاہٹیں ہیں خوابِ تماشا کی ہر طرف
تُو نقشِ نازنیں ہے‘ اُبھر تو سہی کبھی
اندازہ کوئی حُسن کی دہشت کا ہو تجھے
اک بار اپنے آپ سے ڈر تو سہی کبھی
کتنی یہ سرد مہری ہے، اس کا حساب کر
خود اس میں تھوڑی دیر ٹھٹھر تو سہی کبھی
تجھ کو بھی ہو خبر کہ اندھیرا ہے کس قدر
اے روشنی کی دھار بکھر تو سہی کبھی
ایک اور زندگی کا مزہ اس میں ہے‘ ظفرؔ
اُس پر نئی امنگ سے مر تو سہی کبھی
آج کا مقطع
ظفرؔ کی خاک میں تھی کس کی حسرتِ تعمیر
خیال و خواب میں کس نے یہ گھر بنایا تھا