علامہ خادم حسین رضوی یوں اچانک اِس دُنیا سے رخصت ہو جائیں گے، یہ کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا۔ ایک حادثے میں لگنے والی چوٹ نے اُنہیں چلنے پھرنے سے معذور کر رکھا تھا، لیکن وہیل چیئر پر بیٹھ کر بھی وہ بڑے بڑے تیز قدموں کو مات دیتے تھے۔ ان کی توانائی اور جوش و جذبے میں کچھ کمی نہ آئی تھی۔ وہ پوری شدت سے اظہارِ خیال کرتے، اپنے حریفوں کو للکارتے اور پچھاڑتے تھے۔ ان کے سامنے بڑے بڑے خطیبوں کی گھگی بندھ جاتی تھی، بڑے بڑے علما ان کے سامنے آنے سے کنی کتراتے تھے، پنجابی پر تو بے پناہ قدرت حاصل تھی ہی کہ یہ اُن کی مادری زبان تھی، اٹک کے ایک گائوں میں پیدا جو ہوئے تھے۔ اُردو، فارسی اور عربی پر بھی ایسی دسترس تھی کہ کسی مولوی تو کیا بڑے بڑے پروفیسروں کے حصے میں بھی کم ہی آئی ہو گی۔ اقبال کا کلام تو گویا ازبر تھا‘ برمحل اشعار سناتے چلے جاتے اور سننے والے مبہوت ہو ہو جاتے۔ قرآن کی آیات اور احادیث کا بر موقع حوالہ بھی اُن پر ختم تھا۔ ایسے الفاظ بھی استعمال کر جاتے جو گلی محلوں میں تو بولے جاتے ہیں، لیکن منبر و محراب پر ان کا استعمال مناسب سمجھا جاتا ہے، نہ سنجیدہ محفلوں میں، لیکن وہ ہر لفظ سے اپنا مطلب نکال لیتے تھے۔ بڑے بڑے کرسی نشینوں کو بھی اس طرح مخاطب کرتے کہ سننے والے دادِ شجاعت دینے پر مجبور ہو جاتے۔ ان کی زبان سے مولوی محفوظ تھے، نہ سیاست دان، حکمران نہ جج صاحبان، جرنیلوں کا تذکرہ اس طرح ہوتا کہ اپنی جرنیلی شان کا سکہ بٹھا لیتے۔ چند ہی روز پہلے وہ فیض آباد سے دوسرے کامیاب دھرنے کے بعد واپس آئے تھے۔ فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکوں کی پشت پناہی کرنے کا اعلان کر کے ملت اسلامیہ کے دِل پر جو چرکہ لگایا تھا، وہ اس پر احتجاجی پرچم بن کر کھڑے ہو گئے تھے۔ اپنے ہزاروں جان نثاروں کے ساتھ ٹھیک اسی مقام پر مورچہ زن تھے، جہاں تین سال پہلے پہنچ کر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ناکوں چنے چبوائے تھے، اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو آئی ایس آئی کے سربراہ کو آواز دینا پڑی تھی کہ وہ انہیں اِس مشکل سے نکالیں، راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان منقطع رشتے کو بحال کرائیں۔
اس رضوی دھرنے کے پاکستانی سیاست پر غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے تھے کہ اس سے پہلے کسی کو اس حساس مقام پر قابض ہو کر مطالبات منوانے کی نہیں سوجھی تھی۔ حضرت علامہ کی اس غیر معمولی سوجھ بوجھ نے ان کی دھاک بٹھا دی تھی۔ وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ ان کی جیب میں تھا، اور جو کچھ زبان پر تھا، وہ آنے والے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے بہت سے رہنما دہائی دیتے رہ گئے لیکن نقارخانے میں یہ طوطی کی آواز تھی جسے کوئی سننے پر تیار نہیں تھا۔ منکرین ختم نبوت کو فائدہ پہنچانے کی تہمت سے بچتے بچاتے زاہد حامد وزارت سے تو نکلے ہی تھے، کوچۂ سیاست سے بھی نکل گئے۔ اور تو اور احسن اقبال جیسے راسخ العقیدہ پر بھی حملہ کر دیا گیا، اللہ نے اُنہیں بچا لیا کہ زندگی اور موت اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی الفاظ کا جادو جگا سکتے تھے، اور اس کا توڑ بھی کر سکتے تھے۔ انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی جماعت کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کرایا، اور تحریک لبیک کے نام سے میدان میں آ گئے۔ غیر رجسٹرڈ تنظیم کا نام لبیک یا رسول اللہ تھا، جب اس کے پرچم تلے پُرجوش پروانے نعرہ زن ہوتے تو سماں باندھ دیتے۔ دِلوں کو گرماتے، اور روح کو تڑپا دیتے۔ لبیک پاکستان نے لاکھوں ووٹ حاصل کر لیے، نشستیں تو ایک یا دو ہی ملیں، لیکن مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک میں شگاف ڈال دیا۔ بڑی بڑی سکہ بند مذہبی جماعتیں جو اپنے نظم اور سلیقے کے حوالے سے معروف اور ممتاز تھیں، ووٹوں کی گنتی میں پیچھے رہ گئیں۔
علامہ رضوی کا پہلا دھرنا کامیاب رہا، اور دوسرا دھرنا بھی کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو تحریری معاہدہ کرکے جان بچانا پڑی۔ قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کو دیس نکالا دینے کا معاملہ پیش کرنے کا وعدہ کر کے اسلام آباد کا محاصرہ ختم کرایا۔ یہ دھرنا البتہ یوں مہنگا پڑا کہ علامہ رضوی کی طبیعت سنبھل نہیں سکی۔ ان کے حلقہ بگوش اُنہیں بحفاظت واپس تو لے آئے لیکن انہوں نے بروقت ڈاکٹروں تک رسائی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کہا جاتا ہے کہ بخار میں تو مبتلا تھے ہی، دِل بھی اس معرکے میں کام آ گیا۔ ان کے کئی معتقدین پولیس کی گولہ باری کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں کہ اس کی پیدا کردہ کثافت نے حضرت رضوی کا نظام تنفس متاثر کیا۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ ان پر کورونا کا حملہ ہوا تھا، پشاور ہائی کورٹ کے اولوالعزم چیف جسٹس وقار سیٹھ کی طرح، وہ بھی اسی کی نذر ہو گئے۔ ان کے حلقہ بگوشوں نے جب بے بسی محسوس کی، اور بدھ کی شب پونے نو بجے انہیں شیخ زید ہسپتال لے کر پہنچے تو ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ یہ خبر عام ہوئی تو علامہ رضوی سے اختلاف کرنے والے بھی افسردہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ گورنر سلمان تاثیر کو ان کے محافظ ممتاز قادری نے اپنی دانست میں توہینِ رسالت کا مرتکب سمجھ کر گولی کا نشانہ بنایا تو قانون نے اِنہیں گرفت میں لے لیا تھا۔ پھانسی کی سزا کی توثیق جب سپریم کورٹ نے کر دی تو تختہ دار پر لٹکا دیاگیا۔ خادم حسین رضوی اس وقوعے سے ہیرو بن کر ابھرے اور ممتاز قادری کا بھرپور دفاع کیا۔ وہ انہیں تختہ دار سے بچانا چاہتے تھے، جبکہ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اپنے دلائل رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک کوئی رو رعایت کاروبارِ مملکت کی ابتری کا سبب بن سکتی تھی۔ ممتاز قادری کو پھانسی تو دے دی گئی لیکن وزیراعظم نوازشریف کے حامی مذہبی حلقے کا ایک بڑا حصہ ان سے ناراض ہو گیا۔ ممتاز قادری کے خون ہی سے علامہ خادم حسین رضوی کی شہرت کا چراغ جلا اور وہ قومی منظر پر چھاتے چلے گئے۔
علامہ خادم حسین رضوی کو جس جوش و خروش سے الوداع کیا گیا اور ان کی نمازِ جنازہ میں جس بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، اسے بھلایا نہیں جا سکے گا۔ یہ لاہور کی تاریخ کے بہت بڑے جنازوں میں سے تھا۔ وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہو چکے ہیں، لیکن ان کے اثرات تادیر قائم رہیں گے۔ ان کی وفات کے فوراً بعد ان کے مداحوں کے ایک حلقے نے یہ خبر اڑا دی تھی کہ انہوں نے آنکھیں کھول لی ہیں، وہ محض بے ہوش ہوئے تھے، ان کے بارے میں ڈاکٹروں کی رائے غلط نکلی، ان کی سانس بحال ہو گئی ہے۔ کچھ دیر کے لیے یہ سنسنی خیز رپورٹ لوگوں کو حیران کرتی رہی، ان کی موت کی طرح ان کی نئی زندگی کی خبر بھی حیران کن تھی لیکن افسوس یہ سچی ثابت نہ ہوئی۔ ان کے ورثا کی طرف سے باقاعدہ اعلان جاری ہوا کہ وہ اِس دُنیائے فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ موت سے کس کو رستگاری ہے، آج وہ کل ہماری باری ہے۔ گریٹر اقبال پارک میں دور دور سے آنے والے ان کے مداحوں اور پروانوں نے اُنہیں بھیگی آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں سے رخصت کیا۔ وہ منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں، لیکن ان کا اسلوبِ سیاست زیر بحث رہے گا۔ پی ڈی ایم کا گیارہ جماعتی اتحاد اب اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ یہ تجویز بھی زیر بحث ہے کہ وہاں دھرنا دے کر اپنے مطالبات منوائے جائیں، خود کو منوانے کی ''رضوی ٹیکنالوجی‘‘ ان کے من کو بھی بھا رہی ہے، گویا ع
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم، اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)