ہاتھیوں کی لڑائی میں شامت گنّوں کی آتی ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت اس وقت غریب و پسماندہ ممالک کی ہے۔ یہ بے چارے تین میں ہیں نہ تیرہ میں مگر پھر بھی انہیں اہم گرداننے کا تاثر دیا جارہا ہے۔ بات ایسی مشکل نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ بڑوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول اور اُسے برقرار رکھنے کی لڑائی چل رہی ہے۔ یہ لڑائی جن کے درمیان ہے اُنہیں جو نقصان پہنچ سکتا ہے اُس سے کہیں زیادہ نقصان اُنہیں پہنچ رہا ہے جن کا اس لڑائی سے برائے نام بھی لینا دینا نہیں۔ مگر یہ عمل روکا نہیں جاسکتا کیونکہ ع
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
بیسویں صدی کے اواخر میں یہ بات کہی جانے لگی تھی کہ دنیا کو چلانے کیلئے نئے نظام کی ضرورت ہے۔ یہ نیا نظام اس لیے ضروری ہوگیا تھا کہ امریکا اور یورپ کی بالا دستی کے ڈھائی تین سو سال گزرنے پر دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔ ایشیا اُبھر رہا تھا۔ سیاست و معیشت میں اس کی پوزیشن مستحکم ہو رہی تھی۔ ایسے میں عالمی نظام اس طرز کا ہونا چاہیے تھا جس میں ایشیائی طاقتوں کا بھی نمایاں کردار ہو۔ یورپ نے اپنے پَر سمیٹنے کا عمل شروع کردیا تھا۔ بیسویں صدی کے آخری لمحات تک یہ واضح ہوچکا تھا کہ یورپ اب عالمی سیاست و معیشت میں نمایاں رہنے کا خواہش مند نہیں۔ نو آبادیاتی نظام کے احیا کی گنجائش نہیں رہی تھی اور بہت کوشش کے باوجود یورپ ناکام ہونے پر یہ اندازہ لگاچکا تھا کہ عسکری معاملات کے سمندر میں زیادہ دور جاکر تیرنے کی ضرورت نہیں۔ مسلم دنیا کا امریکا اور یورپ دونوں سے غیر معمولی ربط رہا ہے۔ یہ ربط کسی بھی درجے میں مثبت نہیں رہا کیونکہ مغرب کے دونوں علمبرداروں نے سات عشروں سے مسلم دنیا کو دبوچ رکھا ہے تاکہ وہ ابھر کر عالمی سیاست و معیشت میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے قابل نہ ہوسکے۔ امریکا میں پہلا سا دم خم نہیں رہا‘ معاملات دھونس دھمکی تک آگئے ہیں مگر اب بھی مسلم دنیا کو دبوچ کر رکھنے سے تعلق رکھنے والی امریکی سوچ کمزور نہیں پڑی۔ امریکا اچھی طرح جانتا ہے کہ واحد سپر پاور کی حیثیت وہ زیادہ دن برقرار نہیں رکھ سکے گا مگر پھر بھی اس نے مسلم دنیا کو تقسیم کرکے خرابیاں بڑھانے کی روش تاحال ترک نہیں کی۔ عالمی نظام میں اپنی پوزیشن کو کمزور دیکھ کر وہ مسلم دنیا کو مزید تقسیم کرنے پر تُلا ہوا ہے تاکہ تمام مسلم ممالک مل کر کسی نئے نظام کی طرف نہ چلے جائیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرانے کی بھرپور کوششیں بھی مسلم دنیا کو تقسیم در تقسیم کے دام میں پھنسانے کی کوششوں ہی کا تسلسل ہیں۔
چین کا تیزی سے ابھرنا امریکا سے ہضم ہو پارہا ہے نہ یورپ سے۔ یورپ نے بہرحال اپنے لیے ایک راستہ تو چُن لیا ہے۔ وہ عسکری مناقشوں میں الجھ کر اپنے لیے زیادہ الجھنیں پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ یہی سبب ہے کہ اُس نے چین سے براہِ راست محاذ آرائی کو اب تک ترجیح نہیں دی۔ چین چند ہم خیال طاقتوں کو ساتھ لے کر نیا بلاک بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ یورپی قائدین تیزی سے ابھرتی ہوئی علاقائی و عالمی حقیقتوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ برطانیہ اب تک امریکا کے ساتھ کھڑا ہے اور فرانس بھی مسلم دنیا کو معقول حد تک قبول نہیں کرسکا ہے مگر اس کے باوجود یورپ کے بیشتر ممالک کے قائدین چاہتے ہیں کہ مسلم دنیا کے حوالے سے متوازن رویہ اختیار کیا جائے تاکہ معاملات محاذ آرائی کے مرحلے میں داخل نہ ہوں۔ امریکا اور چین کے درمیان نِوالوں کی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ چین چاہتا ہے کہ وہ بھی اب زیادہ کھائے۔ امریکا چاہتا ہے کہ سب کچھ اکیلا ہی کھاتا رہے۔ یورپ اس کے ساتھ مل کر کھا رہا تھا مگر یورپ پر امریکی قیادت زیادہ بھروسا نہیں کرسکتی کیونکہ یورپی قائدین اب حکمت و حقیقت پسندی کا سہارا لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ امریکی قیادت اب تک نئی حقیقتوں کو ہضم تو کیا کرے گی‘ قبول اور تسلیم بھی نہیں کرسکی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اول تو عالمی نظام وہی رہے جو آٹھ عشروں سے ہے اور اگر نیا عالمی نظام تیار کرنا بھی پڑے تو اُس میں امریکا کے لیے بڑا حصہ ہو۔ چین یہ برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ وہ اپنی طاقت میں غیر معمولی اضافہ کرچکا ہے۔ اب اس کی خواہش ہے کہ اس کی طاقت تسلیم بھی کی جائے۔ امریکی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ چین کو کسی بھی معاملے میں نظر انداز کرنا زیادہ دیر تک ممکن نہیں۔ بہت جلد کوئی ایسا نظام وضع کرنا پڑے گا جس میں چین کیلئے بہت کچھ اور روس‘ ترکی اور دیگر ابھرتی ہوئی قوتوں کے لیے کچھ نہ کچھ ہو۔ روس ایک زمانے تک بڑی قوت رہا ہے۔ چھوٹا یا بہت کمزور تو وہ اب بھی نہیں مگر اب اس کی قیادت بھی چاہتی ہے کہ عالمی معاملات میں اس کی بات سُنی اور مانی جائے۔
ہم وقت کے ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ ایک نظام کمزور پڑچکا ہے۔ متنازع ہونے کے باعث بھی اس کے برقرار رہنے کی زیادہ گنجائش نہیں۔ ایسے میں نیا عالمی نظام لانا لازم ہوچکا ہے۔ نیا عالمی نظام‘ ظاہر ہے‘ بڑی طاقتوں کے درمیان زور آزمائی کا معاملہ ہے۔ پاکستان جیسے درجنوں چھوٹے اور کمزور ممالک کسی جواز کے بغیر بہت کچھ جھیلیں گے۔ جب بھی کوئی سپر پاور رخصت ہوئی ہے اچھا خاصا ملبہ چھوڑ گئی ہے۔ امریکا بھی اس معاملے میں انوکھا نہیں۔ یورپ نے بھی بہت خرابیاں پیدا کی تھیں۔ اب وہ مزید خرابیاں پیدا کرنے کے موڈ میں ہے نہ پوزیشن میں۔ امریکی قیادت چین کی شکل میں ابھرنے والی نئی حقیقت کو پوری حقیقت پسندی کے ساتھ قبول کرنے کیے اب بھی تیار نہیں۔ اس کے نتیجے میں خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ دنیا واضح طور پر منقسم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ چند ممالک چین کے ساتھ ہولیے ہیں اور امریکا اور یورپ کا زیادہ دیر تک ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ بھارت کیلئے فیصلہ کرنا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتہا پسند حکومت نے معاملات کو درست کرنے کے بجائے مزید بگاڑ دیا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے معاملے میں خالص بے عقلی‘ ڈھٹائی اور سَفّاکی کا مظاہرہ کرکے مودی سرکار نے مسلم دنیا میں اپنی ساکھ مزید خراب کرلی ہے۔ مسلم دنیا میں بھارت کے خلاف جذبات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ بھارت اب تک امریکا اور یورپ کے گُن گارہا ہے۔ چین سے معاملات درست رکھنے کے بجائے مخاصمت مول لینے کی روش پر گامزن ہوکر اُس نے پورے خطے کو غیر متوازن کیفیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ پاکستان کی طرف چین کے واضح جھکاؤ نے بھارتی قیادت کو مخمصے میں ڈال رکھا ہے۔ اگر چین نے بنگلہ دیش اور سری لنکا کو بھی واضح طور پر اپنی طرف کرلیا تو کیا ہوگا؟ یہ سوال بھارت کے سیاسی مدبرین کو پریشان کر رہا ہے۔
دو بڑی طاقتوں کے درمیان لڑائی زور آزمائی زور پکڑتی جارہی ہے۔ ایسے میں پاکستان جیسے ممالک کیلئے یکسر غیر جانب دار رہنا کسی طور ممکن نہیں۔ چین ہم سے جُڑا ہوا ہے۔ ایسے میں عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں علاقائی معاملات پر بھی اثر انداز ہوں گی۔ بھارت کو بھی ایک طرف ہو رہنا ہے۔ پاکستان سے تو اُس کی بنتی نہیں۔ نیپال بھی اُس کے بالا دستی کے عزائم سے خائف اور نالاں رہتا ہے۔ بنگلہ دیش ایک زمانے تک بھارت کا ''بغل بچّہ‘‘ رہا ہے۔ بھارتی قیادت کی اصلیت کے بے نقاب ہوتے رہنے سے اب بنگلہ دیشی قیادت کی عقل بھی ٹھکانے پر آتی دکھائی دے رہی ہے۔
دو بڑی طاقتوں کے درمیان سینڈوچ ہو رہنے کے بجائے ہماری قیادت کو دانش اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ متوازن خارجہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے جس میں علاقائی حقیقتوں کو کسی طور نظر انداز نہ کیا جائے۔ امریکا اور یورپ نے سات عشروں کے دوران ہم سے صرف کھلواڑ کی ہے۔ اب ہمیں اس کھلواڑ کی راہ مسدود کردینی چاہیے۔ پالیسی کے معاملے میں کوئی ایک بڑی غلطی ہمارے لیے کئی عشروں کا رونا بن سکتی ہے۔