تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     23-11-2020

ایوانِ بالا میں کس کی نمائندگی ؟

وزیر اعظم عمران خان صاحب نے تجویز پیش کی ہے کہ سینیٹ کے اراکین کے انتخاب کے لئے اسمبلیوں کے اراکین ہاتھ اٹھا کر سب کے سامنے ووٹ دیں تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے حکومت آئین میں ترمیم لانا چاہتی ہے۔ یہ مشورہ کتنا صائب ہے‘ اس بارے میں فی الحال تو کچھ نہیں کہا جا سکتا؛ تاہم یہ بالکل واضح ہے کہ ایسی کوئی ترمیم فی الوقت تو دور کی بات نظر آتی ہے کیونکہ دیگر سیاسی جماعتیں‘ جو اس وقت حکومت سے بات کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں‘ کیسے اس آئینی ترمیم پر حکومت کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہو جائیں گی؟ ووٹ کیسے ڈالا جائے‘ میرے نزدیک یہ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ اصل مسئلہ تو سینیٹ کو حقیقی معنوں میں عوام کا نمائندہ بنانا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ سینیٹ کے اراکین کون لوگ منتخب ہوتے ہیں‘ کیسے وہ اس معزز ایوان میں نشستیں سنبھالتے ہیں اور اس کے پیچھے خاندانی سیاسی اثر و رسوخ اور سرمایہ کاری کی طاقت ووٹ حاصل کر کے کامیابی کے جھنڈے گاڑتی ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے ہر صوبے کو یکساں اہمیت اور نمائندگی حاصل ہے۔ اصول یہ ہے کہ سینیٹ وفاقی اکائیوں کی نمائندگی کرتی ہے‘ اس لئے اگر آبادی کم یا زیادہ ہو‘ پھر بھی سب کی نشستیں برابر ہوں گی۔ اس طرح سینیٹ میں پنجاب‘ جس کی آبادی ملکی سطح پر چھپن فیصد ہے‘ کی نمائندگی بلوچستان کے برابر ہے۔ امریکی آئین نے پہلی مرتبہ وفاقیت کی بنیاد رکھی تو ریاستوں کے درمیان مساوات کو اس لئے بھی تسلیم کیا گیا کہ اس کے بغیر نئے آئین پر اتفاق ہونا نا ممکن ہو جاتا۔ وہاں ایوانِ نمائندگان میں اور ہمارے ہاں قومی اسمبلی میں نمائندگی بالحاظ آبادی ہوتی ہے۔ تقریباً ہر وفاقی نظام میں صوبوں یا ریاستوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے برابری ایک ہمہ گیر اصول کی حیثیت اور اہمیت حاصل کر چکی ہے۔ بھارت واحد ملک ہے جہاں راجیہ سبھا میں آبادی کے لحاظ سے نشستیں تقسیم ہیں‘ مگر ہر ریاست کو مناسب نمائندگی ملی ہوئی ہے۔ دو سو پچاس کے ایوان میں بارہ نشستیں ایسی بھی ہیں جو صدرِ ریاست نامزد کرتا ہے۔ اس وقت بھی دانش ور‘ ادیب‘ فنکار‘ سائنس دان اور معلموں کی سیٹیں بھارت کے ایوانِ بالا میں موجود ہیں اور یہ جگہ ماضی میں بھی موجود رہی ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے سیاست بازوں نے سب کچھ اپنے گھروں میں رکھ لیا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا ایوانِ بالا کس کی نمائندگی کرتا ہے اور کون فیصلہ کرتا ہے کہ کس پارٹی کا امیدوار کون ہو گا یا ہو گی؟ یہ کوئی مشکل سوال نہیں ہے‘ جواب سب کو معلوم ہے‘ اور اس خاکسار کو بھی بس سوال کرنے کی بری عادت پڑی ہوئی ہے‘ تو سوچا کہ کر ہی دیتے ہیں۔ چلو کھل کر بات کر لیتے ہیں‘ دیکھا جائے گا۔ اتنے زخم کھانے کے بعد یہ قوم اب بھی منہ نہ کھولے گی ‘ تو باقی جو کچھ بچا ہے‘ وہ بھی حریص لے اڑیں گے۔ سینیٹر کون بنے گا‘ اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہوتا۔ تناسبِ نمائندگی کے اصول کے تحت صوبائی اسمبلی کے اراکین سینیٹ کے امیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں یہ بھی دیکھا گیا کہ اسمبلیوں کے معزز اراکین نے ووٹ اپنی پارٹی قیادت کی خواہش کے برعکس بھی دیا۔ یہ بھی ایک قابلِ غور سوال ہے کہ اراکین اسمبلی کیا اپنی سیاسی قیادت کے فیصلوں کے پابند ہیں یا جس کو چاہیں ووٹ ڈال سکتے ہیں؟ میرے خیال میں وہ کھلی آزادی کے ساتھ یہ حق استعمال نہیں کر سکتے۔ اگر یہ آزادی دے دی جائے تو سینیٹ میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ کوئی اور مخلوق دولت یا کسی اور سہارے سے اپنی جگہ بنا لے گی۔ میرا موقف یہ ہے کہ سینیٹ اس وقت عوام کی نہیں سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی نمائندہ ہے۔ وہی امیدوار نامزد کرتے ہیں اور اسمبلیوں کے اراکین کو حکم دیتے ہیں کہ ووٹ کس کو ڈالنا ہے۔ ہمارے لئے سب اراکینِ سینیٹ معزز اور قابلِ احترام ہیں‘ مگر اس میں سے اکثر کے چنائو میں موروثی گدی نشینی اور اقربا پروری کا بہت لحاظ رکھا جاتا ہے۔ 
آبادی کے لحاظ سے چھوٹے صوبوں میں سینیٹ کا رکن منتخب ہونے کے لئے صرف چند اراکین کی حمایت کی ضرورت پڑتی ہے۔ کچھ جماعتوں نے تو ایسے امیدوار بھی کامیاب کرائے جن کا سیاست سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ کچھ خوش قسمت تو انتخاب سے چند ماہ پہلے پارٹی کے رکن بنے اور فیض یاب ہو کر چھ سال کے لئے سینیٹ کے رکن منتخب ہو گئے۔ یہ مسائل ساختی نوعیت کے ہیں۔ اگر سینیٹ کے انتخابات کے لئے حلقہ اسمبلیاں ہیں تو پھر یہی ہو گا‘ جو ہوتا رہا ہے۔ سینیٹ کو حقیقی معنوں میں عوام کا نمائندہ بنانے کی ضرورت ہے۔ جب اٹھارہویں ترمیم پر اتفاق رائے پیدا ہو رہا تھا تو اس وقت ہر جماعت اپنا حصہ لینے کے چکر میں تھی۔ ملک کی سیاست کے آئینی ڈھانچے میں جو تبدیلیاں ضروری تھیں‘ ان کی طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ میری نظر میں اس وقت دو آئینی ترامیم کی ضرورت تھی۔ یہ ضرورت آج بھی برقرار ہے۔ پہلی‘ نئے صوبوں کی تشکیل کے لئے قانون سازی۔ میرے نزدیک پنجاب کو تین‘ سندھ کو دو‘ بلوچستان کو دو اور خیبر پختونخوا کو بھی دو صوبوں میں تقسیم کئے بغیر حکومت کے کام خوش اسلوبی سے نہیں سنبھالے جا سکتے۔ اس کے ساتھ گلگت بلتستان کو بھی صوبے کا درجہ دینا ضروری ہے۔ دوسری نوعیت کی ترمیم سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے ہونی چاہئے۔ جس طرح عوام اراکینِ اسمبلی کا چنائو کرتے ہیں‘ اسی طرح سینیٹرز کا چنائو ہو گا تو یہ معزز ایوان عوامی نمائندگی کا حق ادا کر سکے گا۔ امریکہ میں شروع میں تو سینیٹرز کے چنائو کا حلقہ ریاستوں کی اسمبلیاں تھیں۔ تب وہاں بھی سیاسی اثر و رسوخ اور پیسہ چلتا تھا‘ چند دہائیوں بعد آوازیں اٹھیں کہ سینیٹ کے اراکین کو عوام منتخب کریں‘ لیکن امریکی آئین میں ترمیم کا طریقہ کار اتنا پیچیدہ اور طویل ہے کہ سترہویں ترمیم 1912 میں ممکن ہو سکی۔ اس کے بعد سے ہر ریاست کو دو حلقوں میں تقسیم کر کے اراکینِ سینیٹ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ہر امیدوار پہلے اپنی پارٹی کی نامزدگی کی دوڑ میں شامل ہوتا ہے‘ جس کے لئے ان حلقوں میں پارٹی اراکین ووٹ ڈالتے ہیں۔ تاریخ اور قوموں کا تجربہ سب کے لئے روشنی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ فقط دل‘ دماغ اور آنکھوں کے دریچے کھولنے اور کھلے رکھنے کی ضرورت ہے۔
عمرانی معاہدوں کی باتیں کرتے ہوئے ہم تھکتے نہیں لیکن جو کرنے کی چیزیں ہیں‘ اور جن کے بغیر ہم نہ ریاست چلا سکتے ہیں اور نہ سیاست ہی میں توازن پیدا کر سکتے ہیں‘ وہ ہم کرنے کے بارے میں سوچنے تک کے لئے تیار نہیں۔ بات تو چھیڑ دی ہے‘ مگر یہ سب کچھ کیسے ہو گا اس بارے میں شاید کوئی کچھ نہیں جانتا کیونکہ جب حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں ایک میز پر بیٹھ کر کسی افہام و تفہیم کے بارے میں سوچنے کے لئے تیار نہیں‘ تو آگے بڑھنے اور خواہشوں کو متشکل کرنے کی راہ کہاں سے نکلے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved