تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     24-11-2020

لٹمس پیپر

احمد داؤد مرحوم ادیب تو تھا ہی‘ انسان بھی باکمال تھا اور دوست بھی بہت اچھا! اچھا انسان اور اچھا دوست ہونا‘ بعض بلند پایہ ادیبوں اور شاعروں کی قسمت میں نہیں بھی ہوتا ! طلوعِ آفتاب سے پہلے گھنٹی بجتی ‘ باہر نکلتا تو لان کی شبنم آلود گھاس پر احمد داؤد ننگے پاؤں چل رہا ہوتا۔کہتا :یار کپڑے بدل‘ ناشتہ کرنے کشمیری بازار جانا ہے۔ کبھی کبھی ہم بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے۔ کشمیری بازار کی معروف دکان پر پائے اور کلچے کھاتے۔ کئی بار شیخ رشید کو بھی وہاں ناشتہ کرتے دیکھا۔ جو واقعہ بتانا مقصود ہے وہ دوسرا ہے۔ ایک بار احمد داؤد کے گھر مہمان آئے‘ غالبا سسرالی اعزّہ تھے۔ گھر میں کوئی خاص چیز اُس وقت موجود نہ تھی جو مہمانوں کو پیش کی جاتی۔ وقت بھی کھانے کا تھا۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ جیب بھی اُس وقت اُس کی خالی تھی۔ اُس نے اپنی لائبریری سے اچھی اچھی قیمتی کتابیں اٹھائیں ‘ موٹر سائیکل پر پیچھے رکھیں‘ یہ وہ زمانہ تھا جب وفاقی دارالحکومت کے تقریبا ہر سیکٹر میں ایک اولڈ بُک شاپ ضرور تھی۔ جس طرح نئی کتابوں اور سٹیشنری کی بڑی بڑی دکانیں‘ جڑواں شہروں میں کم و بیش ایک ہی خاندان کی ملکیت ہیں ‘ اسی طرح اولڈ بُک شاپ کی مختلف برانچیں بھی تقریباً ایک ہی خانوادے کی تھیں۔ ان کے بڑے‘ صدیقی صاحب ‘ اس کالم نگار کے جاننے والے تھے۔ احمد داؤد نے کتابیں قریب کی اولڈ بک شاپ پر فروخت کیں۔ ڈھیر سارے تِکے‘ کباب اور روٹیاں خریدیں اور مہمانوں کوکھانا کھلا کر باعزت طریقے سے رخصت کیا۔
یہ طرزِ عمل ہمارے معاشرے کے لیے اجنبی نہیں ! بالکل نہیں ! دو چیزیں ایسی ہیں جو اس سوسائٹی کا جزو لا ینفک ہیں۔ اور یہی دو چیزیں خاندانی پس منظر متعین کرنے میں بھی خاصا کردار ادا کرتی ہیں۔ ملاقاتی کو کچھ کھلائے پلائے بغیر گھر سے بھیجنا ‘ غریب سے غریب آدمی کے لیے ناقابل برداشت ہے۔چائے کی پیالی تو بہت ہی ضروری ہے۔ ایک لطیفہ بھی ہے کہ فلاں کے گھر گئے توانہوں نے چائے تک نہیں پلائی۔ صرف کھانا کھلایا!ایک مہمان ہو یا دس‘ کچھ نہ کچھ ضرور پیش کیا جاتا ہے۔ گاؤں ہے یا شہر‘ اس معاملے میں کوئی کسی سے پیچھے نہیں۔ اور یہ تو ہم نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مسافر گاؤں کی مسجد میں شب بسری کے لیے ٹھہرتا تھا۔ وہ پوری بستی کا مہمان ہو تا تھا۔ مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں اعلان ہوتا کہ مسافر کے لیے کھانا بھجوائیں۔اسے باعزت کھانا کھلایا جاتا‘ صبح کی نماز کے بعد کسی نہ کسی گھر سے چائے سے بھری ہوئی چینک بھی آتی اور اس بات کا تو تصور بھی ناممکن ہے کہ دس بیس پچاس مہمان ہوں تو صرف دو یا تین کے لیے کھانا لایا جائے ‘ وہ دو یا تین باقی سب کے سامنے کھائیں اور ان دو یا تین میں صاحب خانہ خود بھی شامل ہو! یا للعجب! صرف سوچ کر ہی ندامت سے سر چکرانے لگتا ہے !اس کالم نگار کے گھر کے قریب جو ڈھابا ہے وہاں دودھ پتی کا کپ تیس روپے میں اور عام چائے کا کپ بیس روپے میں آتا ہے۔ فرض کیجیے ستر ملاقاتی آجائیں اور دودھ پتی بھی منگوائی جائے تو اکیس سو روپے بنیں گے۔ اُس وقت رقم پاس نہیں تو محلے کی بات ہے‘ دوسرے دن بھی ادائیگی ہو سکتی ہے۔اللہ نہ کرے کہ کوئی اتنا گیا گزرا ہو کہ یہ بھی نہ کر سکے۔پاکستانی معاشرے میں کشمیری ہیں یا شمالی علاقوں کے لوگ یا ہزارہ وال! سندھی ہیں یا بلوچ‘ سرائیکی ہیں یا پنجابی یا اردو سپیکنگ ‘ کوئٹہ کے ہزارہ ہیں یا تاجک ‘ ان پڑھ ہیں یا تعلیم یافتہ‘مذہبی ہیں یا غیر مذہبی‘ کوئی بھی ایسا نہیں جو مہمان کو اکل و شرب کے بغیر جانے دے۔ اور پھر پختون ! اللہ اللہ ! یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی پٹھان ہونے کا دعویٰ کرے اور مہمان نواز نہ ہو ! کسی پٹھان کے گھر سے چائے یا کھانے کے بغیر ملاقاتی رخصت ہو جائے ‘ ہو ہی نہیں سکتا ! اس کالم نگار کو پروردگار نے جن بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے ان میں ایک بڑی نعمت دوستوں کی شکل میں عطا فرمائی ہے۔
ہزاروں ہیں! کبھی تعداد کم ہونے نہیں دی
کہ ہم نے دوستوں کو آزمایا ہی نہیں ہے!
ان میں پختون دوست بھی بہت سے ہیں۔ کیا سدا بہار اور روح پروردوستیاں ہیں ان سے۔ کسی ادبی یا خاندانی تقریب میں پشاور ‘ کوہاٹ یاکسی اور پختون شہر میں جانا ہو تو طعام و قیام کی درجنوں پیشکشیں ہوتی ہیں اور رسمی نہیں‘ بصد اصرار ! پٹھانوں کی مہمان نوازی ان کے تمام قبیلوں میں یکساں افراط سے ہے۔ اگر کوئی دعویٰ پٹھان ہونے کا کرے اور مہمان نواز نہ ہو تو اس کا دعویٰ محل نظر ہونا چاہیے !
دوسری چیز جو ہماری معاشرتی عمارت کا اہم ستون ہے‘ موت پر اظہارِ افسوس ہے۔کون ہے جسے میاں محمد بخش کا یہ مصرع یاد نہیں ‘دشمن مرے تے خوشی نہ کریے ‘ سجناں وی مر جانا۔ سوسائٹی کے سارے طبقات اس ضمن میں حساس ہیں بہت حساس ! گاؤں میں تو خیر معاملہ یہ ہے کہ گائے بھینس مر جائے تب بھی اظہارِ افسوس کے لیے آتے ہیں‘ یہاں تک کہ چوہدری مزارع کے گھر آتا ہے‘ فرش پر بیٹھتا ہے اور کھانے کا وقت ہو تو کھانا بھی کھاتا ہے۔شہری رہن سہن میں بھی تعزیت کے لیے آنا حد درجہ لازم ہے۔ اس میں مقامی غیر مقامی کی تخصیص نہیں۔ دور دراز کا سفر کر کے احباب و اقارب پہنچتے ہیں۔ ٹیلی فون پر تعزیت کم از کم کے درجے میں آتی ہے۔ اس معاشرے کی خوبی یہ ہے کہ موت کے موقع پر ناراضیاں‘ جھگڑے‘ کدورتیں‘ یہاں تک کہ پرانی دشمنیاں‘ قائم رہتے ہوئے بھی‘ اظہارِ افسوس میں حائل نہیں ہوتیں۔ بنیادی طور پر یہ دعا ہے جو جا کر یا فون کے ذریعے‘ کرنا ہوتی ہے کہ قادرِ مطلق مرحوم یا مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ یہ شرافت کا اور خاندانی پس منظر کا ایک لحاظ سے بیرو میٹر بھی ہے ۔ کسی کی وفات پر جو تعزیت بھی نہیں کرتا اور اپنی ہوا میں مست رہتا ہے‘ اسے ہمارے معاشرے میں جن الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے وہ یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں۔ سب کو معلوم ہے۔ پھر جھگڑا اگر خاندانی جائیداد کا ہے نہ ذاتی ‘ بلکہ سیاسی‘ مذہبی ‘ یا نظریاتی ہے تو پھر ‘ تعزیت کے دو بول نہ کہنا حد درجہ بے حسی کا مظہر ہے اور قلبی شقاوت کا۔ جو ایسے موقع پر شریک غم ہوتا ہے‘ یاد رہتا ہے ‘ جو نہیں ہوتا‘ اسے بھی نہیں بھلایا جا سکتا! گرہ سی دل میں پڑ جاتی ہے جو وقت کے ساتھ پکی ہوتی جاتی ہے۔ مرزا ابراہیم ذوقؔ نے غالبؔ کا جینا محال کر رکھا تھا‘ پھر بھی غالبؔ نے ان کی وفات پر افسوس کیا اور لکھا کہ '' سچ تو یہ ہے کہ یہ شخص اپنی وضع کا ایک اور اس عصر میں غنیمت تھا‘‘غالبؔ کی خاندانی نجابت کا تقاضا بھی یہی تھا! پھر‘ کسی کی مرگ پر اس کی شخصیت کے منفی پہلو اجاگر کرنا بھی بے وقت کی راگنی ہے۔ اس کے لیے کچھ انتظار کر لیا جائے تو بہتر ہے ! یہ ایسے ہی ہے جیسے شادی کے موقع پر دلہن کو بد صورت کہا جائے!
وقت بہت بے رحم ہے! کھوپڑیوں میں سانپ انڈے دیتے پھرتے ہیں۔ جہاں آنکھیں ہیں وہاں کل رینگنے والے کیڑوں کی گزر گاہ ہو گی!
یہاں آنکھ خاک میں تھی‘ چراغ تھا آنکھ میں
یہاں دیکھنا مرے شعلہ رُخ کا مزار تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved