تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     24-11-2020

ملتان مریخ پر تو واقع نہیں

تبدیلی سرکار نے محض ایک سال ایک ماہ اورچار دن کے بعد ایک وفاقی وزیر کے زورکے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے مورخہ 20 نومبر 2020 کوملتان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے)کے فارغ شدہ چیئرمین رانا عبدالجبارکو دوبارہ ایم ڈی اے کا چیئرمین مقرر کردیا ہے۔ موصوف کو گزشتہ سال شہر بھر میں گونجنے والی دو نمبر معاملات کی پشت پناہی‘کرپشن اور اسی قسم کے دیگر معاملات کے سلسلے میں پھیلنے والی خبروں اور پھر ایک عدد انکوائری کے بعد فارغ کیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ تب ایڈیشنل ڈی جی ایم ڈی اے تنویر اقبال کی بھی چھٹی کروائی گئی تھی۔ ان دنوں ایم ڈی اے کے دفاتر میں ہاؤسنگ کالونیوں سے متعلق سارے کام دفتر کا سرکاری وقت ختم ہونے کے بعد شروع ہوتے تھے۔ ان شام ڈھلے والے دفتری معاملات نے کافی شہرت حاصل کی تھی۔ مزے کی بات یہ ہے تب ان کوفارغ کرنے سے قبل جو خفیہ انکوائری کروائی گئی تھی وہ اتنی خفیہ تھی کہ آدھے شہر کے موبائل فونز میں اس کی رپورٹ تھی۔ اس عاجز کا فون بھی اسی فہرست میں شامل تھا۔ اس چیئرمین کی پہلی تعیناتی میں بھی ہمارے اسی وفاقی وزیر دوست کا ہاتھ تھا اور اس بار بھی اسی تگڑے وفاقی وزیر کا نہ صرف ہاتھ ہے بلکہ باقاعدہ دھمکی اورزور زبردستی بھی شامل ہے۔ 
راوی ثقہ اورقابلِ اعتبار ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ عام طور پر ٹھنڈی طبیعت اورکسی بھی سپورٹر یا حامی کیلئے سٹینڈ نہ لینے کے حوالے سے شہرت رکھنے والے ہمارے اس دوست نے اس بار لاہور میں وزیراعلیٰ کے دفتر پر خلاف طبیعت بڑا زوردار ہلہ بولا اور وزیراعلیٰ کوکہا کہ اگر ان کے یہ کام نہ ہوئے تووہ وزارت سے استعفیٰ دے دیں گے۔ اتنی بڑی دھمکی سن کر پہلے تو وزیراعلیٰ ہکے بکے رہ گئے اور پھر گھبرا گئے کہ انہیں اندازہ ہوگیا کہ اس بار معاملہ واقعی بہت سنجیدہ ہے۔ راوی بیان کرتا ہے کہ وزیر موصوف اس قدر گرم اور غصے میں تھے کہ ان کے منہ سے کف نکل رہی تھی اور کورونا سے ڈرے ہوئے لوگ مزید ڈر گئے اور کسی ممکنہ طور پر ہوا میں تیرتے ہوئے وائرس سے خوفزدہ ہوکر وزیر صاحب سے چھ فٹ کے بجائے آٹھ دس فٹ پر ہوگئے۔ ویسے بھی موجودہ حالات کے پیش نظر احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ 
اسی ہلے میں وزیر موصوف نے جہاں ایم ڈی اے کے چیئرمین میاں جمیل کوفارغ کروا کر اپنے دیرینہ سپورٹر اور الیکشن وغیرہ میں خرچ کرنے والے رانا جبار کو ایم ڈی اے کا چیئرمین لگوایا وہیں جعلی چائے کی پتی کی فروخت کے حوالے سے اردگرد کے چار اضلاع میں شہرت رکھنے والے شخص کو ملتان غلہ منڈی کی مارکیٹ کمیٹی کا چیئرمین بھی مقررکروا لیا۔ بلی کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھانے کی اس سے عمدہ مثال حالیہ دنوں میں کم از کم اس عاجز کے علم میں تو نہیں آئی۔ اس کامیاب حملے میں جب انہیں لگا کہ انہوں نے وزیراعلیٰ کو مکمل طورپر مرعوب کرلیا ہے تو انہوں نے لگے ہاتھوں خود ہی فارغ کروائے گئے چیئرمین ایم ڈی اے میاں جمیل کیلئے کوئی اور مناسب عہدے کی فرمائش کر ڈالی۔ میاں جمیل کے حلقۂ اثر والے چار پانچ ہزار ووٹ بھی ان کیلئے بہت اہم ہیں‘ لہٰذا وزیر موصوف نے وزیراعلیٰ سے ان کیلئے کسی عزت دار عہدے کی فرمائش کی اور شنید ہے ان کیلئے وائس چیئرمین وزیراعلیٰ شکایت سیل پنجاب کیلئے بات کی؛ تاہم جہاں ایک طرف افتخارالحسن کی مخبری ہے کہ میاں جمیل اپنی اس طریقے سے فراغت کے بعد یہ دھنیا قسم کا عہدہ لینے پر قطعاً تیار نہیں وہیں دوسری طرف شاہ جی کا خیال ہے کہ بالآخر ''گندم نہ گر بہم رسد‘بھوسہ غنیمت است‘‘ کے مصداق میاں جمیل اسی ہومیوپیتھک عہدے پر قناعت کرلیں گے۔
ملتان کے وزراکے لاہور پر حملوں کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ ادھر کے ایک صوبائی وزیر بھی گاہے گاہے اس قسم کے حملے کرتے رہتے ہیں۔ وزیر موصوف گورنر پنجاب کی گڈبک میں شامل ہیں بلکہ صرف گڈ بک میں نہیں‘بیسٹ بک میں شامل ہیں۔ کسی دوست نے بتایا کہ ان کی وزارت بھی گورنر صاحب کی مرہونِ منت ہے جنہوں نے ان کیلئے باقاعدہ زور آزمائی کرکے انہیں وزیر بنوایا وگرنہ بظاہر ان کے ہمدرد اور سرپرست وفاقی وزیر نے تو ان کا راستہ روکنے کی بڑی کوششیں کی تھیں مگر بالآخرگورنر پنجاب کوکامیابی حاصل ہوئی۔
ملتان کا ایک تعلیمی ادارہ گزشتہ کئی سال سے یونیورسٹی کا چارٹر حاصل کرنے کی مہم میں لگا ہوا تھا مگر ہر بار ناکامی مقدر ٹھہرتی تھی لیکن بالآخر اس صوبائی وزیر کی بے لوث اور انتھک محنت کے طفیل پنجاب بھر کی جامعات کے مدارالمہام کے تعاون سے اس تعلیمی ادارے کو یونیورسٹی کا درجہ مل گیا۔ اب ایک اور پھڈا پڑ گیا۔ اس ادارے کی سنڈیکیٹ کے لیے ایک مرد اور ایک خاتون کو نامزد کرنا تھا صوبائی وزیر نے خاتون کیلئے ملتان کے ایک نواحی ضلع سے مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی ایک خاتون رکن صوبائی اسمبلی کا نام دیا اور مرد رکن کے لیے اپنے نام ساتھ ہمارے دوست ملک سلیم لابر کا نام دے دیا۔ اب ہوا یہ کہ سپیکر آفس سے جب نوٹیفکیشن نکلا تومرد رکن سنڈیکیٹ کے طور پر وزیر موصوف یا لابر صاحب کے بجائے ملتان کے ایک نجیب ایم پی اے کو اس یونیورسٹی کا رکن سنڈیکیٹ بنا دیا گیا۔ اس پر وزیر صاحب کا پارہ چڑھ گیا اور بقول ایک آزاد ایم پی اے (یہ بات میں نے خود ان کے منہ سے ایک نہیں‘ دو بار سنی) وہ اس بات پر بہت ناراض ہوئے اور چوہدری پرویزالٰہی کے دفتر میں گرجے برسے اوریہاں تک کہا کہ چوہدری صاحب نے ساری عمر سپیکر نہیں رہنا‘ کبھی ہمارا بھی وقت آئے گا پھرہم بھی دیکھیں گے وغیرہ وغیرہ۔
اب ہمارا دوست وسیم خان بڑا پریشان ہے اور بلاوجہ خود کو مجرم محسوس کرتے ہوئے اس سنڈیکیٹ کی رکنیت سے استعفیٰ بھیج چکا ہے جو ابھی قبول نہیں ہوا۔ اسی دوران ایک اورمعاملہ آن پڑا کہ حکومت پنجاب کو فردوس عاشق اعوان کی مشیر اطلاعات بنانے کا فرمان مل گیا۔ آئینی طورپر مشیروں کی تعداد بارے پابندی کے باعث ایک سیٹ خالی کروانا مقصود تھی لہٰذا نزلہ برعضو ضعیف والی بات ہوئی اورملتان سے تعلق رکھنے والے حاجی جاوید احمد انصاری کوفارغ کرکے ان کی جگہ فردوس عاشق اعوان کووزیراعلیٰ کا مشیراطلاعات بنا دیا گیا۔ اب انصاری صاحب کی اشک شوئی کیلئے ان کے لیے اعزازی طورپر معاونِ خصوصی کا نوٹیفکیشن جاری کروا لیاگیا لیکن کہاں وزارت کے مساوی مشیر کا عہدہ جس نے ساتھ وزیر کے ساری سہولیات اور شان وشوکت جڑی ہوئی ہے اور کہاں خالی خولی معاون خصوصی کا عہدہ۔ وزیر موصوف نے ان کیلئے نیلی بتی والی کار کی فرمائش کردی جو ابھی تک پوری نہیں ہوئی۔قارئین! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر ان ساری باتوں پرکالم لکھنے کا کیا جواز ہے؟ تو عرض ہے کہ ملتان کا نشتر ٹو سالہا سال سے لٹکا ہوا ہے۔ اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ سیوریج کا مسئلہ اتنا گمبھیراور خراب ہے کہ کچھ مت پوچھیں۔ پینے کے صاف پانی کا معاملہ بد سے بدتر کی طرف جا چکا ہے۔ ترقیاتی کام صفر بٹا صفر ہیں۔ شہر میں ٹریفک کا نظام برباد ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ کسی چیز کی کوئی کل سیدھی نہیں اور کسی منتخب نمائندے کو اس کی رتی برابر نہ پروا ہے اور نہ ہی یہ باتیں ان کی ترجیحات میں کہیں دور دور تک نظر آتی ہیں۔ درج بالا قسم معاملات ان کی ترجیحات ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں جس سے مخلوق خدا کو کوئی غرض ہو یا انہیں کوئی آسانی ہو۔ مجھے صرف گمان نہیں‘ یقین ہے کہ باقی سب جگہوں پر بھی اسی قسم کی صورتحال ہی ہوگی۔ ملتان کوئی مریخ پر توواقع نہیں کہ وہاں کچھ ہٹ کر ہو رہا ہوگا۔ وہ بھی اسی ملک کا حصہ ہے اور یہاں بھی وہی کچھ ہورہا ہے جو باقی جگہوں پر ہورہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved