میں کاؤنٹر کے دوسری جانب کھڑا تھا۔مجھ سے آگے کم ازکم آٹھ لوگ اپنی باری کے انتظار میں تھے۔قطار تھی کہ کھسک ہی نہیں رہی تھی۔پیچھے کھڑے لوگ آگے والوں کے کندھوں کے اوپر سے جھانک کر دیکھنا چاہتے تھے کہ دیر کس لیے ہورہی ہے۔پیچھے والوں سے پیچھے بھی لوگ تھے اور ان لوگوں سے مزید پیچھے بھی۔لوگ طرح طرح سے اظہار رائے کر رہے تھے۔ بُڑبُڑاہٹ اب چہ مہ گوئیوں میں، چہ می گوئیاں فقرے بازی میں اور جگتیں بآواز بلند احتجاج میں تبدیل ہوچکی تھیں۔ اگلا مرحلہ لعنت ملامت کا تھا لیکن یہ قطارابھی اس تک نہیں پہنچی تھی۔
''یہ آدمی سویا ہوا ہے یا نشہ کرکے بیٹھا ہے؟‘‘ میرے پیچھے کھڑے ادھیڑ عمر صاحب نے کہا۔ پہلی بات یقینا غلط تھی کاؤنٹر کے ادھر اہل کار سو نہیں رہا تھا،جاگ رہا تھا،بہ قائمی ہوش و حواس جاگ رہا تھا‘لیکن جملے کا دوسرا حصہ بالکل درست تھا۔وہ نشہ کیے بیٹھا تھا۔بلکہ کہنا چاہیے کہ نشے میں دھت تھا۔اس کی آنکھیں اور انگلیاں مسلسل حرکت میں تھیں۔ چہرے کے تاثرات تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد سنجیدگی، غصے اور خوشی کے درمیان بدل رہے تھے۔وہ ایک نشے میں تھا۔اور نشئی ارد گرد کی پروا کب کرتے ہیں۔ اردو میں ایک محاورہ ہے پری کو شیشے میں اتارنا۔ فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ وغیرہ کی پریاں جب تک موبائل فونوں کے شیشوں میں نہیں اتری تھیں،کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ سہولتیں ایک نشے کی طرح لوگوں کو اپنی لت ڈال دیں گی۔پھر یہ آئیں اور ایک نشے کی طرح لوگوں کے دل اور دماغ پر قابض ہوگئیں۔نشے کی آسان ترین قسم وہ ہے جسے حاصل کرنے میں کوئی تردد‘ کوئی مشکل پیش نہ آئے اور وہ نشہ کسی جگہ بھی کیا جاسکے۔سوشل میڈیا نشے کی آسان ترین قسم ہے۔
ہم اس سرکاری بینک کی لمبی اور منجمد قطار میں تھے جس میں کاؤنٹر کی دوسری طرف سرکاری ملازم اپنا کام کرنے اور لوگوں کو جلد از جلد فارغ کرنے کی تنخواہ لیتا ہے‘لیکن وہ مسلسل فیس بک یا واٹس ایپ یا سوشل میڈیا کی کسی اور جادوئی پری سے باتیں کرنے میں مصروف تھا۔اسی بینک میں چند اور ملازمین بھی اپنا اپنا کام چھوڑ کر یہی کام کر رہے تھے۔قطار میں کھڑے ہوئے فارغ لوگ بھی اپنی باری آنے تک سوشل میڈیا پر اپنا اپنا نشہ پورا کر رہے تھے۔بات صرف اسی بینک کی نہیں،اکثر سرکاری اور نجی اداروں اور دکانوں میں اب یہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔کئی اداروں نے اپنے یہاں فیس بک وغیرہ استعمال کرنے کی ممانعت کر رکھی ہے۔بڑی بین الاقوامی کمپنیاں جن میں ملازمین کی تعداد بہت زیادہ ہے ا س کی روک تھام کرچکی ہیں۔ پاکستان میں بھی مختلف سرکاری محکموں،تعلیمی اداروں اور کمپنیوں میں مختلف پابندیاں عائد ہیں۔ملازمین کو متنبہ کردیا گیا ہے۔نوٹیفکیشن بھیجے جاچکے ہیں۔ لیکن کتنے راستے بند کیے جاسکتے ہیں؟پوری تنخواہ، پوری مراعات اور سہولتیں حاصل کرکے بھی یہ ملازمین اپنے اپنے اداروں کو اپنا آدھا وقت بھی نہیں دیتے۔کبھی کبھار،دوپہرکے کھانے، وقفے اور چھٹیوں کی بات الگ ہے لیکن مسلسل یہی چلن ان کی بددیانتی اور اکثر صورتوں میں نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ان میں سے ایک ایک آدمی اپنی تنخواہ،وردی، رہائش‘آسائش‘مراعات اور دیگر سہولتوں سمیت قوم کو لاکھوں روپے ماہانہ میں پڑتا ہے۔اور یہ سب پیسے میری اور دیگر لوگوں کی جیبوں سے وصول کیے جاتے ہیں۔ایک غریب قوم کے ساتھ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ اگرچہ یہ مسئلہ عمومی ہے کسی خاص شعبے، طبقے یا ادارے کا نہیں لیکن حساس اداروں کی صورت میں یہ مسئلہ زیادہ حساس ہوجاتا ہے اور اس کے سنگین نتائج اور اطراف میں بھی نکل جاتے ہیں۔ میں ان قابل ِ فخر لوگوں کو جانتا ہوں جوسرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں موجود ہیں اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہیں کہ ادارے کا وقار بھی ملحوظ رکھا جائے، سوشل میڈیا کے استعمال میں بھی تجاوز نہ ہو اور اخفا کا بھی پورا پورا خیال رکھا جائے۔یہ اپنی خواہش پر اپنے فرض کو ترجیح دینے والے لوگ ہوتے ہیں جو ہمارے یہاں بھی ہر دور میں موجود رہتے ہیں۔یہ لوگ قابلِ فخر ہیں لیکن دوسری طرف میں مڈل رینک کے کچھ عہدے داران کو بھی جانتا ہوں۔میں حیران ہوتا ہوں جب انہیں مسلسل فیس بک پر مٹر گشت میں مصروف دیکھتا ہوں۔وہ واٹس ایپ پر ہر گروپ میں تحریری اور صوتی پیغام کے ذریعے مسلسل موجود ہوتے ہیں۔ دفتری اوقات ہوں یا بعد کے اوقات،ان کی ذاتی سرگرمیوں کے سامنے کسی کی کوئی اوقات نہیں ہے۔سمجھ نہیں آتا کہ آخر وہ اپنی اصل ڈیوٹی کے کام ان چوبیس گھنٹوں کے علاوہ کون سے پچیسویں گھنٹے میں انجام دیتے ہیں؟ اور بات ایک آدمی کی نہیں۔اسی طرح کے اور لوگ بھی ہمہ تن اسی سرگرمی میں مصروف رہتے ہیں اور انہیں کسی قانونی یا اخلاقی ذمے داری سے کوئی مطلب نہیں ہے۔اور لطف یہ کہ ایسے لوگ اپنے کام کے اوقات میں سوشل میڈیا پر اخلاقی اور قومی مسائل کے بارے میں زور شور سے لیکچر دے رہے ہوتے ہیں۔
کتنی خطرناک بات ہے کہ بعض صورتوں میں ان کے نام، عہدے، موجودہ اور سابقہ پوسٹنگ،ہر نقل و حرکت سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک پر موجود ہوتی ہے جہاں کوئی اخفا ہے ہی نہیں۔ہر آدمی خواہ وہ دشمن ہو یہ معلومات آسانی سے حاصل کرسکتا ہے۔متنازع یا اختلافی پوسٹس اور آرا کو ایک طرف رکھئے اگرچہ وہ بھی متعلقہ اداروں کی نیک نامی پر داغ ہوتی ہیں،سیدھا سا ایک سوال یہ ہے کہ کس قانونی، دینی یا اخلاقی جواز کے تحت وہ ان سرگرمیوں میں وقت گزارتے ہیں؟ اور کیسے تما م تر تنخواہ اور مراعات کروڑوں عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ہر صورت وصول کرتے رہتے ہیں؟آخر کس جواز کے تحت؟ مجھے یقین ہے کہ ان کے اپنے اداروں کے قواعد و ضوابط بھی انہیں اس کی اجازت نہیں دیتے اور وہ ان کی مسلسل واضح خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں۔
باقی رہا یہ سوال جو حقیقی بھی ہے اور ہر ذہن میں اٹھتا بھی ہے کہ اس نئی دنیا میں جہاں سوشل میڈیا ایک حقیقت اور طاقت بن چکا ہے۔ سرکاری افسران ہوں یا عام عہدے دار‘ تعلیمی اداروں کا عملہ ہویا انتظامی۔وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ان کو بھی اپنی زندگی جینے اور اپنی ترجیحات کا حق ہے۔ اگر تمام لوگ سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں تو انہیں کیوں موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔ ؟کیا انہیں یہ حق نہیں ہے ؟
بات بڑی سیدھی سی ہے۔ اگر کسی نے کوئی ادارہ بطورپیشہ اور بطور روزگار اختیار کیا ہوا ہے اور اس کی تنخواہ اور مراعات پر اپنا حق سمجھتا ہے توہ وہ ادارے کا حق بھی ادا کرے۔وہ معین کردہ وقت اور نظم و ضبط کا پابند ہے اور یہ پابندی اس نے اپنے اختیار سے اپنے اوپر لگائی ہے۔ وہ لوگوں کی خدمت پر مامور ہے خاص طور پر جب اس کی تنخواہ اور سہولتیں عوام کی جیبوں سے ادا ہوتی ہوں۔اور اگر اسے یہ سب کچھ قبول نہیں تو استعفیٰ دے، باہر آئے او ر شوق سے اپنے شوق پورے کرے۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ لوگوں کی جیبوں پر ڈاکا بھی ڈالے اور انہی لوگوں کو اخلاقیات کے بھاشن بھی دیتا رہے۔کیا کوئی نگرانی کا نظام ایسا ہے جو ان لوگوں سے اخلاقیات پر وعظ بند کروا سکے ؟