تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     24-11-2020

کوئی ایک سیاپا ہے

جھوٹ کا ایسا دورہ دورہ کہ جو پہلے کبھی دیکھا نہ سنا‘ اعتماد کا ایسا فقدان کہ سائے سے بھی خوف محسوس ہو‘ طاقت کے بے جااستعمال کی اتنی کثرت کہ گھر کے درودیوار بھی دشمن محسوس ہونے لگیں۔ سب سے زیادہ افسوسناک صورتحال یہ کہ یہ سب کچھ کرنے کے لیے اتنی بودی دلیلیں کہ کوشش کے باوجود یقین نہ آئے۔جو کرنا ہوتا ہے‘ وہ کردیا جاتا ہے چاہے اُس کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہ ہو۔ بس جو مزاجِ یار میں آئے وہی قانون ۔ قوانین کی اتنی بھرمار کہ ہمیں اخلاقیات کے اعتبار سے دنیا کی بہترین اقوام اور ایمانداری کے اعتبار سے یکتائی حاصل ہونا چاہیے تھی لیکن دیکھئے تو ہوکیا رہا ہے۔ ہماری اخلاقیات ہمیشہ خطرے میں رہتی ہیں جس کی بقا کے لیے وعظوں اور نصیحتوں کا عمل بغیر کسی رکاوٹ کے ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ ایک بند گلی ہے جس میں ہم اندھا دھند بھاگتے چلے جارہے ہیں ۔ افسوس کہ اِس کے دوسرے سرے پر بھی اُمید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا اصول سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ چلن تو خیر قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہوگیا تھا لیکن اب تو اتنی تیزی دکھائی دے رہی ہے کہ خدا کی پناہ! جو بات اپنے مفاد میں ہوتی ہے‘ اُسے صحیح ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے جاتے ہیں‘ جھوٹ کا دامن ایسے تھاما جاتا ہے کہ سننے والاتنگ آکرتسلیم کرلیتا ہے۔ ملکی سیاست کا کبھی نہ تبدیل ہونے والا اصول یہ بن چکا ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ صرف سیاست دانوں تک کیا موقوف‘ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جو آیا اُس نے ملک کو اپنی سلطنت سمجھ کر حکومت کی۔ضرورتاً جذباتی نعرے لگائے اور جب مفادات کا حصول آزاد خیالی سے ممکن ہوا تو کتوں کو بغل میں لے کر تصاویر کھنچوانا شروع کردیں۔ افسوس کہ جانے والے تو اپنی اپنی ڈفلی بجا کر چل دیے لیکن ہمیں ایسی راہوں پر دھکیل گئے کہ کچھ پلے ہی نہیں پڑ رہا۔ آج بھی جو کچھ ہورہا ہے‘ اُس میں عام آدمی کی بھلائی کا پہلو کہاں دکھائی دے رہا ہے؟
کوئی کچھ بھی کہتا رہے‘ حقیقت یہی ہے کہ ہمیشہ کی طرح ایک محدود طبقہ عیش وعشرت کی زندگی بسر کررہا ہے اور اکثریت کے لیے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنا بھی دشوار ہے۔ ملک کے تیزرفتاری سے پیشقدمی کرنے کے دعوے تسلسل سے سامنے آرہے ہیں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو کیونکہ اب یہ دعوے روشنی کی کچھ کرنیں دکھا رہے ہیں‘ ورنہ تو صورت حال خراب تر ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے وقت جو گردشی قرضے 11سو ارب روپے تھے‘ اب بڑھتے بڑھتے 24 سو ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ شنید ہے کہ پاور سیکٹر کے صارفین پر 89 ارب روپے کا اضافہ بوجھ ڈالنے کی تیاری مکمل ہوچکی ہے۔اگرصارفین یہ بوجھ اُٹھابھی لیں تو باقی 23 سو ارب روپے کا قرضہ کس کھاتے میں ڈالا جائے گا‘ کوئی نہیں جانتا۔ مہنگائی کی شرح 14 فیصد سے بھی تجاوز کررہی ہو تو دعووں پر یقین کرنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گروہ اُٹھ کر حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنا شروع کردیں تو حالات کا بگاڑ مزید واضح ہوجاتا ہے۔ سیاپا یہ ہے کہ اب ہاتھوں سے دی ہوئی گانٹھیں حکومت کو منہ سے کھولنا پڑ رہی ہیں۔ جو کچھ ہم خود کرتے ہیں‘ اُس سے دوسروں کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟یہ وہ مصیبت ہے جو حکومت کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ اِن حالات میں جب بے ڈھنگی باتوں سے سیاسی مخالفین کو بے نقط سنائی جاتی ہیں تو اُکتاہٹ سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اگر اِس پر بھی سروے ہوجائے کہ کتنے فیصد اہل وطن سیاسی رہنماؤں کے بے سروپا بیانات پڑھتے اور ان پر یقین کرتے ہیں‘ تو حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں ہوجائے گی۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ جو بھی اُٹھتا ہے وہ 22 کروڑ عوام سے نیچے سانس ہی نہیں لیتا۔ ''22 کروڑ عوام مسلم لیگ نون کے رہنماؤں سے جواب طلب کر رہے ہیں‘‘۔ ''22 کروڑ عوام حکومت سے انصاف مانگتے ہیں‘‘۔ ''22 کروڑ عوام نے اپوزیشن کا بیانیہ رد کر دیا ہے‘‘ ''22 کروڑ عوام حکومت کی جان کو رو رہے ہیں‘‘۔ 
معلوم نہیں وہ کون سا فارمولا ہے کہ جس کے تحت کسی بھی معاملے پر چند منٹوں میں 22کروڑ عوام کے جذبات سے آگاہی حاصل کرلی جاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ افسردگی اور دل توڑ دینے والے باتیں نہیں کرنی چاہئیں لیکن حقیقت سے نظریں بھی کب تک چرائی جاسکتی ہیں۔ ایک خاتون ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے خط کا آج کل چرچا ہے۔ اندازہ لگائیے کہ جو دوسروں کو انصاف فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں‘ اُن کے اپنے دکھوں نے اُن کی زندگی اجیرن بنائی ہوئی ہے۔ محترمہ نے سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کو لکھے گئے ایک خط میں واضح کیا ہے ''اگر اسلام میں خود کشی حرام نہ ہوتی تو وہ سپریم کورٹ کے سامنے اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لے لیتیں،ہرروز ذلت برداشت کرنے سے بہتر ہوتا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے میں پچیس سال ضائع کرنے کی بجائے اپنے گاؤں میں اُپلے تھاپتیں اور گائیں بھینسیں چراتیں‘‘۔
اب بتائیے کہ اگر ایک اعلیٰ عدالتی شخصیت کے جذبات کا یہ عالم ہے تو ہم جیسے تو کسی قطار شمار میں ہی نہیں آتے۔ کیا ہم روزانہ نہیں دیکھتے کہ کچہریوں میں کیا ہوتا ہے؟ آج تک صرف چند جملوں کی ہی تکرار سنائی دیتی ہے مثلاً ''انصاف میں تاخیر‘ انصاف سے انکار کے مترادف ہے‘‘، یا پھر یہ کہ ''بار اور بینچ کو مل کر مظلوموں کو انصاف دلانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر نظام میں خامیاں ہیں تو کیا اِنہیں عام آدمی دور کرے گا؟جو صاحبانِ اقتدار یہ سب کچھ دہراتے رہتے ہیں‘ وہ اِن خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ خرابیاں اب شاید ناقابل اصلاح سطح تک پہنچ چکی ہیں اِس لیے کوئی اِنہیں ٹھیک کرنے کا رسک بھی نہیں لے گا۔ مختصراً یہ کہ یہ سب کچھ کچھ جیسے چلتا آیا ہے‘ ویسے ہی چلتا رہے گا۔ ہم سب جتنی جلدی ان حقیقتوں کو تسلیم کرلیں،اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہو گا۔ 
تیر تو کوئی جانے والوں نے بھی نہیں چلایا تھا لیکن اُمید موجودہ نابغوں سے بھی نہیں۔ سب کچھ ایک مذاق بن کررہ گیا ہے۔ کون کون سا سیاپا کیا جائے کہ جی کو کچھ سکون حاصل ہو۔ گزشتہ رات ہی ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا ایک کلپ نظروں سے گزرا۔ اُس میں وہ ببانگ دہل ہمارے جو ''اوصاف‘‘ بیان کررہے تھے، اتنی ہمت بھی نہیں کہ اُنہیں یہاں نقل کر دوں۔ مختصراً یہ جان لیجئے کہ اُنہوں نے منافقت اور جھوٹ کے حوالے سے ہمیں پوری دنیا میں اپنی طرز کی منفرد قوم قرار دیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل مولانا طارق جمیل صاحب نے کچھ ایسے ہی ریمارکس دیے تھے تو بہت سے دوست غصے میں آگئے تھے ۔ میں تب بھی سوچتا رہا تھا کہ اُنہوں نے ایسی کون سی بات غلط کہہ دی تھی ۔ وہ تو اُنہوں نے معذرت کرکے معاملہ ختم کردیا ورنہ تو یہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بننے والا تھا۔ اُس ملک میں‘ جہاں آبادی کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے‘ جہاں بچہ بچہ بھاری قرضوں میں جکڑا ہوا ہے‘ جہاں کی اخلاقیات بے شمار قوانین کے باوجود ہمیشہ خطرے میں ہی رہتی ہیں‘ بس ایک دکانداری لگی ہوئی ہے جس کا سودا جس قیمت پر‘ جہاں بھی بک جائے، اتنا ہی کافی ہے۔ باقی دعوے کرنے سے کون کسی کو روک سکتا ہے ۔ ہمارے ایک سابق حکمران عطا الحق قاسمی کا یہ شعر بہت پڑھا کرتے تھے کہ 
ظلم بچے جَن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہیے
اگر صرف یہی ایک کام وہ کر جاتے‘ یا یہی کام ہو جائے تو بے شمار سیاپے ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں لیکن شاید ہمارے نصیب ایسے نہیں سو یہ سارے سیاپے شاید اِسی طرح چلتے رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved