تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     25-11-2020

الیکٹرانک ووٹنگ

دنیا کے ایک سو سڑسٹھ ممالک میں جمہوریت کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ کہیں یہ بہت زیادہ طاقتور اور عوام کے حقیقی مفاد میں ہے اور کہیں بظاہر نام کی جمہوریت ہے اور اصل میں طاقت چند ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ جمہوریت کا مقصد عوام کو یہ اختیار دینا ہے کہ وہ جس کو چاہیں منتخب کریں اور جس کو چاہیں کارکردگی یا پسند ناپسند کی بنا پر رد کر دیں۔ جمہوریت میں نمائندوں کا چنائو عام انتخابات کے ذریعے عمل میں آتا ہے اور الیکشن کے ذریعے ہی حکومتیں اقتدار میں آتی ہیں؛ تاہم قیام پاکستان سے اب تک کوئی الیکشن ایسا نہیں گزرا جس میں ہارنے والی جماعت اور سیاستدانوں نے دھاندلی کا الزام نہ لگایا ہو۔ کئی مرتبہ تو انتخابات اس قدر متنازعہ ہوئے کہ ملک میں امن و امان کا مسئلہ کھڑا ہو گیا اور عوام کی بڑی تعداد کا انتخابی عمل سے اعتماد ہی اٹھ گیا۔ انتخابات میں ووٹنگ ٹرن آئوٹ کم ہونا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ انتخابی جماعتیں ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کے لئے قائل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں شفاف انتخابات کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ لانے اور انتخابی عمل کو شفاف تر بنانے کیلئے کئی دیگر اصلاحات کے بارے میں اظہارِ خیال کیا۔ 2013 میں تحریک انصاف نے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا اور اس مقصد کیلئے جماعت کو ایک سو چھبیس دن کیلئے اسلام آباد میں دھرنا بھی دینا پڑا تھا۔ الیکٹرانک ووٹنگ سے ان نوے لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم اوورسیز پاکستانیوں کو بھی فائدہ ہوگا‘ جن سے ہر مشکل میں ڈالر بھجوانے کی امیدیں تو لگائی جاتی ہیں لیکن جب حق رائے دہی کا معاملہ آتا ہے تو انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ کا عمل کتنا آسان ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن دنیا کے کئی ممالک میں یہ کلی یا جزوی طور پر کامیابی سے نافذ ہے۔ اگر اس کے نقائص دور کر لئے جائیں تو اس سے بہتر سسٹم کوئی اور نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں اصل ووٹر کو ٹریک کرنے کا پورا نظام موجود ہوتا ہے اور کوئی بھی دوسرا شخص کسی کی جگہ ووٹ نہیں ڈال سکتا۔
سات عشرے قبل ایٹم بم سے تباہ ہونے والا ملک‘ جاپان اس لحاظ سے بھی بازی لے چکا ہے کہ وہاں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کے تحت شفاف انتخابات منعقد کئے جاتے ہیں اور الیکشن کے بعد بغیر کسی انتخابی تنازع کے جیتنے والی جماعت کو اقتدار منتقل کر دیا جاتا ہے۔ جاپان اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جو اس ٹیکنالوجی کو ہر شعبے میں استعمال کررہا ہے اور وہاں انتخابات کیلئے بھی جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ جاپان میں گزشتہ دہائی میں جتنے بھی انتخابات منعقد ہوئے ان میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم پر ہی اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ جاپان کے ساتھ ساتھ ہمارا پڑوسی ملک بھارت بھی کسی نہ کسی طور الیکٹرانک ووٹنگ کے راستے پر چل نکلا ہے۔ اگر پاکستان میں بھی الیکٹرانک ٹیکنالوجی استعمال کی جائے تو اس کے اچھے نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ عوام کا نتائج پر اعتماد بڑھ جائے گا اور انتخابات کے انعقاد پر اٹھنے والے اخراجات کم کئے جا سکیں گے۔ جاپان کی حکومت نے اپنے انتخابی اخراجات بچانے کیلئے بھی ای ووٹنگ کا استعمال کیا۔ ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کے تحت ووٹ ڈالے گئے اور جاپان کی کسی بھی جماعت نے انتخابات کی شفافیت پر سوال نہیں اٹھایا۔ اس الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کی بدولت پورے جاپان میں انتخابات کے روز چھٹی کا رواج نہیں ہے بلکہ سب لوگ معمول کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے ووٹ بھی کاسٹ کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں انتخابات کے دوران نہ تو ایسے جھگڑے دیکھنے میں آتے ہیں جو ہمارے ہاں معمول ہیں‘ اور نہ ہی انتخابات کی شفافیت پر کوئی سوال اٹھایا جاتا ہے۔ حال ہی میں ترکی نے پاکستان میں شفاف انتخابات کیلئے جدید ترین الیکٹرانک ووٹنگ ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اس نظام کی خریداری کیلئے ترکی کا ایگزم بینک سرمایہ بھی فراہم کرے گا۔ ترک ماہرین کے مطابق جدید الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے دھاندلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس نظام کو پاکستان کے حالات اور بائیومیٹرک تصدیق کے نظام یعنی نادرا ڈیٹا بیس سے بھی منسلک کیا جا سکتا ہے۔ یہ نظام ترکی کی مسلح افواج اور دیگر سرکاری اداروں میں آٹومیشن کرنے والے سرکاری ادارے نے تیار کیا ہے‘ جو ترکی میں کامیابی کے ساتھ استعمال ہورہا ہے۔ الیکٹرانک مشین کے ذریعے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ووٹ ڈالا جاسکتا ہے۔ یہ مشین صرف تین منٹ میں نتائج مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ نتائج مرتب کرنے اور ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے فول پروف ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ ترک ادارے کے پاکستان میں نمائندے کی مطابق مشین کی ابتدائی لاگت ایک لاکھ روپے ہے۔ اگر یہ مشینیں مقامی طور پر تیار کی جائیں تو اس کی لاگت کم بھی ہو سکتی ہے۔
اس ملک میں تو کیا دنیا کے ہر ملک میں ہر سیاستدان یہ چاہتا ہے کہ وہ سیاسی مقابلہ لازمی طور پر جیتے۔ انتخابات میں تو یہ ویسے بھی انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ حلقے والے‘ دوست احباب اور پارٹی کی طرف سے دبائو الگ ہوتا ہے۔ اس کیلئے ہر سیاستدان جاندار انتخابی مہم بھی چلاتا ہے لیکن چونکہ مقابلے میں صرف ایک آدمی کو جیتنا ہوتا ہے اور دوسرے کو ہارنا ہی ہوتا ہے‘ اس لئے بعض سیاستدانوں کیلئے شکست تسلیم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر یہ روایت بھی چل پڑی ہے کہ ہار جائو تو دھاندلی کا الزام لگا کر الیکشن کو متنازعہ بنا دو۔ فی الوقت دنیا میں ہر عمل الیکٹرانک ہو رہا ہے‘ چاہے وہ بینکوں سے پیسوں کی لین دین ہو‘ تعلیم ہو‘ خریدوفروخت ہو‘ اساتذہ کی پوسٹنگ ٹرانسفر ہو‘ سب کچھ آن لائن اور ڈیجیٹل ہو رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں اگرچہ جدت کو اپنانے کی رفتار کم ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں پھر بھی یہ عمل قدرے تیز ہے۔ پاکستان ای گورننس کے حوالے سے بھارت سے آگے ہے۔ گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس کی ادائیگی ہو یا دیگر سرکاری ادائیگیاں‘ اب بہت کچھ الیکٹرانک پلیٹ فارمز پر منتقل ہو چکا ہے۔ اس سے وقت کی بچت ہوئی اور پیسوں کا ضیاع کم ہوا ہے؛ چنانچہ اگر دیگر شعبوں میں کامیابی سے سب کچھ ڈیجیٹل ہو سکتا ہے تو الیکٹرانک ووٹنگ بھی ناممکن نہیں! وزیر اعظم نے اگلے الیکشن میں اس طرح کی ووٹنگ کی تیاری کا کہا ہے تو یہ کوئی ناممکن کام نہیں۔ اگر پرچیاں نہیں ہوں گی تو ٹھپے نہیں لگیں گے‘ نہ بکسے چوری ہوں گے بلکہ سارے نتائج خود کار طریقے سے ایک کمپیوٹر میں مرتب ہوتے چلے جائیں گے جس سے انتخابی عمل بھی شفاف ہو گا اور اس کے نتیجے میں جو حکومت اقتدار میں آئے گی وہ کہیں زیادہ اعتماد کے ساتھ عوام کی خدمت کر سکے گی۔ وزیراعظم عمران خان کرکٹ میں بھی نیوٹرل امپائر لانے پر زور دیتے تھے‘ آج وہ اقتدار میں ہیں تو الیکشن کو بھی غیرجانبدارانہ کرانا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت ماضی کی نسبت ویسے بھی قدرے مضبوط ہو چکی ہے۔ یہ مسلسل تیسری جمہوری حکومت تھی جسے اقتدار ایک جمہوری حکومت نے بذریعہ انتخابات منتقل کیا وگرنہ تو عوام ہر ایک دو عوامی حکومتوں کے بعد ڈکٹیٹرشپ کے عادی ہو چکے تھے اور اس کی وجہ خود کرسی سے چپکے سیاستدان تھے جو جمہوریت کے بجائے آخری وقت تک اپنے اقتدار کو بچانے کی کوشش میں رہے لیکن نہ خود بچ سکے نہ جمہوریت کو بچا پائے۔ 2006 میں میثاق جمہوریت کے نام پر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کا عہد کیا تھا‘ لیکن دونوں جماعتیں موقع ملتے ہی اسٹیبلشمنٹ کو کچوکے لگانے سے باز نہیں آئیں۔ اتنی توانائی اور وقت یہ ملک اور عوامی کی بہتری پر لگاتے تو ملک قرضوں کی دلدل میں نہ اترتا۔ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے نادر موقع ہے کہ وہ منفی سیاست سے باز آ جائیں اور انتخابی عمل کو شفاف اور موثر بنانے کے عمل کا ساتھ دیں تاکہ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں سے دھاندلی کا لفظ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved