تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-11-2020

’’کچہری‘‘

بہت کچھ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس میں باتیں بھی شامل ہیں۔ جی ہاں‘ باتیں ہی باتیں ہیں۔ اور تو کیا دھرا ہے اب زندگی میں۔ ایک قوم ہے کہ باتوں کی ہوکر رہ گئی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ وقت سے بڑی نعمت اور دولت کوئی نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں بخشا جانے والا وقت محدود ہے اس لیے اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ سیانوں نے وقت کو محدود کیوں قرار دیا ہے۔ اپنی اصل میں تو وقت لامحدود ہے اور ہمارے ہاں وقت کو اسی زاویے سے دیکھا گیا ہے۔ کوئی مانے یانہ مانے‘ حقیقت یہی ہے کہ ہم نے وقت کو اُس کی اصل کے مطابق برتنا ہی سیکھا ہے یعنی جو کچھ بھی کیجیے صرف یہ سوچتے ہوئے کیجیے کہ وقت لامحدود ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب ایسی بہت سی سرگرمیاں ہمارے معمولات کا حصہ ہیں جن کا ہماری زندگی کچھ خاص تعلق نہیں۔ ہم نے خود کو ان سرگرمیوں کے سپرد کردیا ہے۔ 
زندگی‘ زمانہ‘ دنیا ...یہ سب اپنی جگہ اور ان کے تقاضے اپنی جگہ۔ ہمیں تو فی الحال اس بات سے غرض ہے کہ لامحدود وقت کو کس طور زیادہ سے زیادہ قتل کیا جائے! جی ہاں‘ قتل۔ ہم وقت کے معاملے میں جو رویہ اپنائے ہوئے ہیں اُس کیلئے ''قتل‘‘ سے ہٹ کر کوئی بھی لفظ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اور وقت بھی ایسا سخت جان ہے کہ لاکھ قتل کرو مرتا نہیں‘ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ 
ایک زمانے سے قوم کا معمول ہے کہ ہر وہ کام کیجیے جس سے کچھ خاص تعلق نہ ہو۔ ایسا کرکے ہی ہم خود کو منفرد ثابت کرسکتے ہیں۔ دنیا ہے کہ وہ کام کرتی ہے جس کے کرنے سے کچھ بھلا ہوتا ہو یعنی غیر متعلق کاموں کی طرف کم ہی جاتی ہے۔ ادھر ہم ہیں کہ ہر وہ کام بخوشی کرتے ہیں جس کا بظاہر ہم سے کچھ تعلق ہو نہ فائدہ۔ اس راہ پر گامزن رہتے ہوئے ہمیں اتنا وقت گزر چکا ہے کہ اب کسی اور راہ پر آنے کا خیال بھی عجیب سا لگتا ہے۔ دوسرے معاشروں کا تو ہمیں کچھ خاص علم نہیں‘ پاکستانی معاشرے کا معاملہ یہ ہے کہ زندگی جیسی نعمت کو زیادہ سوچ بچار اور سنجیدگی کی نذر نہ کرو اور اس دنیا میں بسر کرنے کیلئے جتنا وقت دیا گیا ہے اُسے جیسے تیسے ختم کرو‘ ٹھکانے لگادو۔ اور دیکھیے کہ ایسا کرکے بھی ہم اب تک زندہ ہیں! ہماری نظر میں تو یہ اولوالعزمی اور مستقل مزاجی ہے‘ دل جلے اگر اس روش کو ہٹ دھرمی کہتے ہیں تو کہتے رہیں! 
پاکستان معاشرے کی کلیدی یا مرکزی روش ہے زندگی کے نام پر ملنے والے وقت کو جیسے تیسے گزارنا اور یہاں سے رخصت ہو جانا۔ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنے والوں کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ کیوں نہ دیکھا جائے؟ جو زندگی بھر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ عجیب ہی تو ہو جاتے ہیں۔ ان کے معمولات بھی عجیب ہوتے ہیں اور فکری سانچا بھی۔ ہر معاملے میں حقیقت پسندی اور معقولیت کا مظاہرہ کرنے والے دور ہی سے پہچانے جاتے ہیں۔ معاشرہ جس ڈگر پر چل رہا ہو اُس سے ہٹ کر چلنے والے عجیب ہی تو کہلائیں گے۔ سوچ بھی الگ اور عمل بھی جداگانہ۔ یہی سبب ہے کہ لوگ معقولیت کی طرف نہیں آتے‘ ذہن پر زیادہ زور نہیں دیتے اور سنجیدگی اختیار نہیں کرتے۔ 
دنیا بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے یا کیا جارہا ہے اُس سے ہمارا کچھ تعلق بنتا ہے نہ غرض۔ قومی سوچ اب یہ ہے کہ زیادہ سوچا نہ جائے اور زیادہ سے زیادہ خوش رہتے ہوئے زندگی بسر کی جائے۔ یہ الگ بات کہ کسی جواز کے بغیر منائی جانے والی خوشی اپنی اصل میں خوشی ہوتی ہی نہیں۔ مگر یہاں کون ہے جو اتنا سوچے؟ سب ایک رنگ کے ہوگئے ہیں۔ جو تھوڑا بہت سوچنے کی کوشش کرے اور پھر اپنی سوچ کے مطابق لوگوں کو کچھ سمجھانے پر مائل ہو وہ اجنبی سا قرار پاتا ہے۔ گلی‘ علاقہ‘ دفتر یا کسی اور ماحول کو تو ذکر ہی کیا‘ ایسا شخص تو اپنے گھر ہی میں اجنبی ہوکر رہ جاتا ہے۔ سب ایک رنگ میں جی رہے ہوتے ہیں اور وہ ایک کونے میں تنہا کھڑا رہ جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے نصیب میں ''ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘‘ والی کیفیت رہ جاتی ہے۔ اسی کیفیت کے سہارے وہ جیسے تیسے زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔
قوم نے وقت کو قتل کرنے کے عجیب و غریب طریقے اختیار کر رکھے ہیں۔ اس حوالے سے ''ایجاد‘‘ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جب کوئی ایک طریقہ کثرتِ استعمال سے زیادہ پُرکشش نہیں رہتا تو وقت کو قتل کرنے کا کوئی اور طریقہ وضع کیا جاتا ہے تاکہ زندگی میں کچھ رنگ رنگی رہے۔ ''کچہری‘‘ لگانا بھی ایسا ہی طریقہ ہے۔ قوم بہت کچھ دیکھ اور پڑھ رہی ہے۔ ہم مشاہدے اور مطالعے کی بات نہیں کر رہے۔ سمارٹ فونز کی بدولت واٹس ایپ‘ فیس بک‘ یو ٹیوب اور دیگر ایپلی کیشنز اور ویب سائٹس کے ذریعے بہت کچھ ہے جو ذہن میں داخل ہوتا ہے اور وہاں قیامت سی برپا کردیتا ہے۔ یہ چونکہ یومیہ عمل ہے‘ یعنی معمول ہے اس لیے ہمیں کچھ خاص احساس ہی نہیں ہو پارہا کہ اس کے نتیجے میں ہماری زندگی کا کس بُرے ڈھنگ سے تیا پانچا ہو رہا ہے۔ لوگ دن رات سمارٹ فون پر الا بلا دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ معاملہ یہاں تک بھی ہو تو جھیل لیا جائے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ لوگ جو کچھ الٹا سیدھا دیکھتے اور سُنتے ہیں اُس پر ''تبادلۂ خیالات‘‘ کو بھی زندگی کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔ گھر میں معاملات مختلف ہوتے ہیں۔ نیٹ کے ذریعے دیکھی جانے والی انٹ شنٹ ویڈیوز گھر میں سب کو تو نہیں دکھائی جاسکتیں۔ بیشتر معاملات میں کسی کو بھی نہیں دکھائی جاسکتیں۔ ایسے میں حلقۂ احباب رہ جاتا ہے جہاں کچہری لگاکر ہر لایعنی قسم کی ویڈیو یا پوسٹ پر بحث کی جاسکتی ہے۔ زندگی کے بڑے اور کلیدی معاملات کو بالائے طاق رکھ کر اب ہر اُس معاملے پر بحث و تمحیص کی جاتی ہے جو نامعقولیت میں دوسرے معاملات سے بڑھ کر ہو۔ 
اب بیشتر دکانوں‘ دفاتر‘ فیکٹریز اور کام کے دیگر مقامات پر دوسری تمام مصروفیات سے بڑھ کر ہے کچہری لگانا۔ دفاتر کی حالت یہ ہے کہ ڈیوٹی شروع ہونے پر پہلا گھنٹہ سوا گھنٹہ ایک دوسرے کو نئی ویڈیوز اور پوسٹس دکھانے میں کھپ جاتا ہے۔ اس دوران ٹی وی پر دکھائی دینے والے مناظر بھی زیر بحث آتے ہیں۔ مختلف ایپس کے ذریعے ہم تک پہنچنے والی لایعنی اور لاحاصل قسم کی ویڈیوز پر بحث وہ توانائی سلب کرلیتی ہے جو دراصل معاشی سرگرمی کے لیے مختص ہونی چاہیے۔ حلقۂ احباب میں اور کام کے مقامات پر کچہری لگانے کا رجحان اب اس قدر پختہ ہوچکا ہے کہ لوگ یہ بھی بھول بیٹھے ہیں کہ یہ رجحان اُن کی زندگی کو اُسی طور نگل رہا ہے جس طور اینا کونڈا کسی بڑے جانور کو ڈکار جاتا ہے۔ زندگی کسی بھی اعتبار سے ایسا معاملہ نہیں کہ غیر متعلق باتوں کی نذر کردیا جائے۔ 
قدرت کا طے کردہ اصول ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی کام کیا جاسکتا ہے۔ یہ اصول ہر دور میں کار فرما رہا ہے اور اب بھی یہ ہمارے معاملات سے پوری مطابقت رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص کام کے دوران ٹی وی بھی دیکھے‘ واٹس اپ بھی کھنگالے‘ فیس بک پر چیٹنگ بھی کرے اور پھر ان تمام معاملات پر گفتگو بھی کرے تو ہوچکا کام۔ ایسے میں کام کی مقدار بھی گھٹے گی اور معیار بھی متاثر ہوگا۔ کچہری لگانے کی عادت ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن کر رہ گئی ہے۔ لوگ ہر غیر متعلق بات کو زندگی کا سب سے اہم معاملہ سمجھ کر اُس پر بات کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ زندگی کو سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا۔ وقت کی کوئی حد نہیں مگر ہمیں بخشے جانے والے وقت کی بہرحال ایک حد ہے اور یہ حد بہت جلد آ جاتی ہے۔ دنیا میں ہمارا قیام ہزاروں‘ لاکھوں برس کے لیے نہیں۔ وقت کے سمندر سے ہمیں قطرہ ملا ہے۔ اس قطرے کو سمندر بناتے ہوئے جینا ہے تاکہ جب وقت کو بروئے کار لانے کا حساب مانگا جائے تو شرمندگی ہو نہ دکھ۔ زندگی کا بنیادی تقاضا ہے لایعنی باتوں سے دور رہنا یعنی غیر ضروری طور پر کچہری لگانے کی عادت کو بالکل ترک کردینا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved