تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     26-11-2020

پی ڈی ایم کورونا کی زد میں؟

کورونا کی دوسری لہر سے متعلق حکومت نے نہایت حکمت کے ساتھ حکمت عملی تشکیل دی۔ بظاہر اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ پالیسی تشکیل دیتے ہوئے حکومتی اہداف کو پیشِ نظر رکھا جائے‘ اور غالباً اسی لئے گلگت بلتستان میں الیکشن مہم اور نتائج کے حصول تک واضح کورونا پالیسی کے اعلانات سے گریز کیا گیا۔ اس دوران اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل سلطان اپوزیشن کو چھوٹی چھوٹی وارننگ جاری کرتے رہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان، اسلام آباد میں وکلا کنونشن، سوات اور میانوالی میں عوامی جلسوں سے خطاب فرماتے رہے۔ جن کاموں سے اپوزیشن کو روکا گیا‘ وہ حکومت نے خود عملی طور پر کرکے دکھائے۔ اسے یوں کہا جا سکتا ہے کہ اپنے بنائے گئے ایس او پیز توڑنے کا راستہ دکھایا۔ اب جبکہ حکومت کو گلگت بلتستان میں فتح کی صورت میں ایک بڑا ہدف حاصل ہو چکا ہے لہٰذا پوری حکومتی مشینری کورونا کی دوسری لہر سے نمٹنے کے لئے میدان میں اتر چکی ہے۔
جناب وزیر اعظم، وزراء اور مشیرانِ کرام اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اب اگر کوئی عوامی اجتماع کیا گیا تو کورونا کا شکار افراد کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہو جائے گا۔ بہرحال حکومت خم ٹھونک کر کورونا کی پہلی لہر سے نمٹنے کا کریڈٹ لیتی ہے۔ یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ جس وقت اپوزیشن اور سندھ حکومت‘ دونوں مکمل لاک ڈائون کی حمایت کر رہی تھیں‘ تب حکومت نے سمارٹ اور جزوی لاک ڈائون کے ذریعے ناصرف کورونا پر قابو پا لیا بلکہ زندگی کو رواں رکھنے کیلئے بھی جدوجہد کی۔ اس دوران جو تجربہ حکومت کو حاصل ہوا اب وہ دوبارہ اسے عوام کی بھلے کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ کورونا کی پہلی لہر کے بعد انڈسٹریز کی بحالی، ہائوسنگ اور ٹیکسٹائل کی صنعت کا پہیہ چلانے کے لئے بڑے بڑے پیکیجز کا اعلان کیا گیا‘ جسے کورونا میں کھو جانے والے روزگار کی بحالی کی کوششوں کا حصہ قرار دیا گیا‘ جو تا حال تو نتیجہ خیز پالیسی ثابت نہیں ہو سکی۔ گم شدہ نوکریاں، سیلری کٹ اور تباہ شدہ کاروبار بحال ہونے میں جہاں بہت وقت درکار ہے وہیں کمر توڑ مہنگائی اور یوٹیلٹی بلز نے عوام کے ایک بڑے حصے کی زندگیوں کو شدید طور پر متاثر کیا ہوا ہے۔ ایک اور تجربہ جو شاید حکومت کیلئے نہایت خوشگوار تھا کہ اس دوران میڈیا اور عملی سیاسی میدان میں اپوزیشن کہیں دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی‘ یعنی پورے منظرنامے پر حکومت کا راج تھا۔
اس سے قبل حکومت نے اپوزیشن کو کورونا سے نمٹنے کی قومی حکمت عملی کا حصہ ہی نہیں بننے دیا تھا حالانکہ شہباز شریف لندن سے اسی جذبے کے تحت آئے تھے کہ شاید وہ ایک بار پھر لانگ بوٹ والے مناظر کی یاد تازہ کر سکیں یا جس طرح انہوں نے ڈینگی سے لڑائی کا معرکہ جیتا تھا‘ اس بار بھی انہیں پنجاب کا ہیرو قرار دیا جائے گا۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ موجودہ پنجاب کی ایڈمنسٹریشن کو جتنا وہ سمجھتے ہیں شاید ہی کسی اور کو معلوم ہو۔ تحریک انصاف کسی صورت یہ رسک نہیں لے سکتی تھی۔ یہ براہ راست سرکار کی ''نامعلوم‘‘ساکھ پر حملہ تھا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے وفاق مخالف پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن اسے خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ یوں کورونا کے معاملے پر وفاق کا بیانیہ معتبر ٹھہرا۔ اپوزیشن کو طوعاً و کرہاً اس صورتحال کو قبول کرنا پڑا‘ لیکن جیسے ہی کورونا کی لہر ماند پڑی‘ اپوزیشن کو باہر نکلنے کا موقع مل گیا؛ چنانچہ اس نے رہبر کمیٹی کو ایکٹو کیا اور پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم تشکیل دے دیا۔
اس میں جان ڈالنے کیلئے 20 ستمبر کی آل پارٹیز کانفرنس میں آصف زرداری اور میاں نواز شریف نے ویڈیو لنک سے خطاب کیا۔ میاں نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو اور فوجی سربراہان کا براہ راست نام لے کر مسلم لیگ ن کو پی ڈی ایم کی مزاحمتی تحریک میں سب سے نمایاں اور آگے لا کھڑا کیا۔ نواز شریف کے اس لب و لہجے اور بیانیے کو جمعیت علمائے اسلام کی بھرپور حمایت حاصل تھی بلکہ اب بھی ہے۔ نواز شریف کے اس بیانیے کی سب سے زیادہ خوشی ان مخصوص لبرل طبقات کو ہوئی جو ایک عرصے سے پاک فوج پر تنقید اور پراپیگنڈے میں مصروف تھے لہٰذا انہوں نے میاں نواز شریف کو بطور انقلابی لیڈر پیش کرنا شروع کر دیا۔ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ میاں صاحب کبھی بھی انقلابی لیڈر نہیں رہے‘ نہ ہی وہ اس قسم کے عزائم رکھتے ہیں؛ البتہ تین تلخ تجربات کے بعد وہ سول سپریمیسی کے کٹر وکیل بن چکے ہیں۔ بطور سینئر سیاستدان ان کا موجودہ غصہ بھی کسی ادارے پر نہیں بلکہ بقول ان کے کچھ افراد پر ہے۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں ان کے اس بیانیے میں چارہ بننے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ ان موضوعات پر ان کیمرہ اجلاسوں میں کھل کر بات کرنے کو تیار تھیں لیکن جلسوں اور ٹی وی پر براہ راست نام لے کے پی ڈی ایم کی تحریک کا رخ متعین کرنے کے لئے راضی نہ تھے۔ اس بات کا اظہار پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو گلگت بلتستان مہم کے دوران ایک انٹرویو میں کر چکے ہیں کہ انہیں گوجرانوالہ جلسے کے دوران نواز شریف کی تقریر میں براہ راست نام لے کر کی جانے والی تنقید سے دھچکا لگا۔ اس کے بعد اس ساری صورت حال کو مینج کرنے کے لئے مریم نواز کا اسی نشریاتی ادارے کو انٹرویو جس میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ یہ ایسے ہی تھا کہ بات ''اوئے گل سن‘‘ سے ''بھائی جان ذرا بات تو سنیں‘‘تک آ گئی ہے۔
اس صورتحال کے بعد رہبر کمیٹی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کی جانب سے پشاور والے جلسے میں براہ راست نام لینے بلکہ میاں صاحب کے ویڈیو خطاب کی مخالفت کی گئی۔ پشاور والے جلسے کے دن ہی نواز شریف کی والدہ بیگم شمیم اختر لندن میں انتقال کر گئیں (اللہ ان کے درجات بلند کرے) جس کے باعث نواز شریف اور مریم نواز جلسے سے خطاب نہ کر سکے۔ شریف فیملی ایک بار پھر مشکل وقت گزار رہی ہے۔ ادھر پشاور میں پی ڈی ایم کا جلسہ بھی متاثر کن نہیں تھا۔ اس کی بڑی وجہ حکومت کی جلسے سے قبل کورونا کمپین اور اپوزیشن کی جماعتوں کے درمیان کوآرڈینیشن کی کمی تھی۔ اس کے برعکس امیر مقام کے زیر اہتمام مسلم لیگ ن کا سوات میں جلسہ زیادہ کامیاب تھا۔ مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر امیر مقام بھی اسٹیبلشمنٹ مخالف نظریات نہیں رکھتے لیکن وضع داری کے ساتھ قیادت کے موجودہ بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی جلسے میں مریم نواز کی تقریر میں سختی تو برقرار تھی لیکن ان توپوں کا ہدف حکومت تھی۔ کورونا کی دوسری لہر جس تیزی سے شدت اختیار کررہی ہے‘ کئی اپوزیشن اور حکومتی لیڈر اس کا شکار ہوگئے ہیں۔ قمر زمان کائرہ ابھی کورونا سے صحت یاب ہوئے ہیں۔ میر ثنااللہ زہری کی 22 سالہ بیٹی اور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ وقار احمد سیٹھ اسی وبا سے انتقال کر گئے۔ وفاقی وزیر فوڈ اینڈ سکیورٹی فخر امام کورونا کا شکار ہو کر قرنطینہ میں جا چکے ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی مشیر جمیل احمد سومرو کا کورونا ٹیسٹ رزلٹ مثبت آیا ہے جس کے بعد چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خود کو آئسولیٹ کر لیا ہے اور اپنے ٹیسٹ رزلٹ کے نتیجے کے منتظر ہیں۔ ادھر حکومت عوام میں کورونا کا ڈر بڑھا رہی ہے۔ اندیشہ ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں عوامی حاضری کم ہو جائے۔ عوام ہی نہ آئے تو پی ڈی ایم کے جلسوں سے ہوا نکل جائے گی اور حکومت کی حکمت عملی کامیاب ہو جائے گی۔ یوں بنا براہ راست تصادم کے تحریک لپیٹ دی جائے گی اور بات شاید لانگ مارچ کے مرحلے تک نہ پہنچ سکے۔ اگر بلاول ملتان جلسے میں شرکت نہ کر سکے تو اس کے بھی خاصے منفی اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved