حکومت شریف خاندان کو سیاسی انتقام
کا نشانہ بنا رہی ہے: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''حکومت شریف خاندان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے‘‘ اور اب تو ایسے گھسے پٹے جملے ادا کرتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس سیاسی انتقام کی آج تک کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ کس چیز کا انتقام ہے اور گھوم پھر کر بات وہیں آ جاتی ہے کہ احتسابی کارروائیاں ہی ایک طرح سے سیاسی انتقام ہیں کیونکہ ہمارے دور میں جس طرح اپوزیشن فرینڈلی ہوا کرتی تھی اسی طرح احتسابی ادارے بھی، بلکہ اس سے بھی زیادہ فرینڈلی ہوا کرتے تھے اور جو اب ایسے بدلے ہیں کہ پہچانے ہی نہیں جاتے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف بڑا فیصلہ کریں اور جنازے
میں شرکت کریں: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''نواز شریف بڑا فیصلہ کریں اور جنازے میں شرکت کریں‘‘ اور اگر وہ ایسا کر سکے اور انہوں نے واپس جانا چاہا تو ہم اس کی بھی اجازت خوشدلی سے دے دیں گے جیسے کہ پہلے دی تھی۔ اول تو وہ یہاں اپنے شایانِ شان استقبال ہی سے اس قدر متاثر ہوں گے کہ یہیں رہنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ اس کا پورا پورا بندوبست کیا جا چکا ہے اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی بلکہ ان کے برخورداران بھی دادی اماں کے جنازے میں شرکت کر کے بہادری کا ثبوت دیں کیونکہ ان کے والد گرامی نے اپنے حالیہ بیانات میں جس بہادری کا ثبوت دیا ہے‘ انہیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
گلگت بلتستان میں پُرامن احتجاج
کو طاقت سے دبانا بدقسمتی ہے: کائرہ
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''گلگت بلتستان میں پُرامن احتجاج کو طاقت سے دبانا بدقسمتی ہے‘‘ جبکہ ہماری بدقسمتی تو انتخابی نتائج ہی سے ثابت ہو گئی تھی حالانکہ وہاں ہمارے رہنمائوں نے اپنی نیک کمائی پانی کی طرح بہائی تھی اور اگر کچھ لوگوں نے وہاں چند عمارتیں اور گاڑیاں نذر آتش کر دی تھیں تو محض اپنے جذبات ہی کا اظہار کیا تھا جبکہ جمہوریت میں جذبات کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہے جبکہ جذبات کا خیال رکھنا اخلاقیات کی پہلی شرط ہے جس کی خلاف ورزی پر ہمارے چیئر مین نے اپنے آپ کو قرنطینہ کر لیا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہم مائوں پر سیاست نہیں کرتے: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''ہم مائوں پر سیاست نہیں کرتے‘‘ کیونکہ سیاست کرنے کے لیے دیگر رشتہ دار موجود ہیں جبکہ ہم ضرورت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے بلکہ ضرورت ہو بھی تو نہیں کرتے کیونکہ کام بھی کوئی کرنے والی چیز ہے جبکہ کام نہ کرنے سے ہینگ اور پھٹکڑی کی جو بچت کی جا رہی ہے‘ اس پر حکومت بجا طور پر شکریے کی مستحق ہے؛ اگرچہ اپوزیشن نے کبھی ہمارا شکریہ ادا کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی جس پر ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ آپ اگلے روز گوجرہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
لاہور کا جلسہ حکومت کے خلاف ریفرنڈم ہو گا: افضل کھوکھر
نواز لیگ کے رکن قومی اسمبلی محمد افضل کھوکھر نے کہا ہے کہ ''لاہور کا جلسہ حکومت کے خلاف ریفرنڈم ہو گا‘‘ اگرچہ اب تک دوسرے جلسے بھی حکومت کے خلاف ریفرنڈم ہی تھے لیکن حکومت اس ریفرنڈم کو تسلیم ہی نہیں کرتی اس لیے ہمیں چاہیے کہ جلسوں کا یہ مذاق بند کر دیں اور حکومت کے خلاف کوئی اور راستہ اختیار کریں؛ اگرچہ فی الحال تو ہم دیگر ضروری کاموں میں مصروف ہیں جن میں سرفہرست اپنے بیانیے کو کوئی قابلِ قبول شکل دینا ہے کیونکہ ہم سب کے بزرگ پیر صاحب پگاڑا نے بھی کہہ دیا ہے کہ اداروں کے خلاف بیان بازی ملک دشمنی ہے؛ اگرچہ وہ بیانات خاصی حد تک توڑ مروڑ کر پیش کیے گئے تھے جن کے اب کس بل نکال کر انہیں سیدھا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آپ اگلے روز رائیونڈ سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
گداگری اور پاکستانی معاشرہ
یہ نصر اللہ خان چوہان کی تصنیف ہے جس کو بُک ہوم لاہور نے شائع کیا ہے۔ انتساب سراپائے شفقت پیارے والدین کے نام ہے۔ پیش لفظ اور مقدمہ دونوں مصنف کے قلم سے ہیں۔ پسِ سرورق ادارے کی طرف سے مصنف کا مختصر تعارف مع تصویر شائع کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک ایسے جلتے ہوئے موضوع پر ہے جو ہمارے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے کی طرح چسپاں ہے اور جو بیرونی ممالک میں بھی ہمارے لیے بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ گداگری کے خلاف باقاعدہ ایک قانون موجود ہے لیکن اس پر عملدرآمد تو کُجا، کہا جاتا ہے کہ خود ہماری ٹریفک پولیس اس فعل میں اعانت کرتی نظر آتی ہے اور جو باقاعدہ ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کتاب کو مختلف ابواب میں تقسیم کر کے اس کے مختلف پہلوئوں اور تدارک کے طریقوں پر بحث کی گئی ہے۔ ادارہ اس اہم موضوع پر یہ کتاب شائع کرنے پر مبارکباد کا مستحق ہے۔
اور‘ اب آخر میں رانا عبدالرب کی شاعری:
مرنے کا خوف بڑھنے لگا اختیار سے
اب زندگی اتار مجھے اپنی کار سے
اتنا کہا کہ تجھ سے محبت ہے‘ لڑ پڑا
اتنا تو اب مذاق بھی ہوتا ہے یار سے
میں زندگی کی بس میں لطیفے ہوں بیچتا
جلنے لگے ہیں لوگ مرے کاروبار سے
چونکہ سڑک سے آپ کی گاڑی گزرنی ہے
سارے درخت نکلے ہوئے ہیں قطار سے
میں مطمئن ہوں مارنے والا مرے گا ساتھ
باندھا ہے میں نے سانس کو بجلی کے تار سے
میں نے بدن کے گھر سے اسے عاق کر دیا
اک رات آنکھ بھاگی ترے انتظار سے
٭......٭......٭
تجھ کو کیا بتلائوں کون سے اچھے ہیں
تیرے قرب کے سارے لمحے اچھے ہیں
تجھ کو دیکھے بن جو تجھ کو دیکھتے ہیں
دیکھنے والوں سے وہ اندھے اچھے ہیں
تیری اک تصویر ہے سارے کمروں میں
میرے گھر کے سارے کمرے اچھے ہیں
ہر میسج میں دل ہی بھیجا جاتا ہے
باتوں سے تو یار اشارے اچھے ہیں
آج کا مقطع
ہم نے جدوجہد کرنا تھی ظفرؔ جن کے خلاف
وہ سبھی آ کر ہماری صف میں شامل ہو گئے