حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے تبدیلی کے نام پر قوم سے ووٹ مانگے اور وعدہ کیا کہ اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کے بعد ملک میں واضح تبدیلی نظر آئے گی، بلکہ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد سو دنوں میں واضح تبدیلی نظر آنے لگے گی۔ ظلم، بربریت، بدعنوانی، ناانصافی، اقربا پروری، رشوت، سفارش، لاقانونیت، جھوٹ، فریب اور دھوکا دہی جیسی لعنتوں کاخاتمہ ہو گا اور ان کی جگہ امن و امان، میرٹ، انصاف اور حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ قوم کو تبدیلی کا سنہرا خواب دکھایا گیا جس پر پاکستانی عوام نے بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دیا اور نتیجتاً عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ اقتدار کے ساتھ ہر طرح کا اختیار بھی انہیں مل گیا لیکن سو دن گزرے‘ ایک پتا بھی نہ ہل سکا، پھر ششماہی کی بات ہوئی، چھ مہینے بھی گزرگئے، پھر سال بھی بیت گیا، اب سوا دو سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے اور اقتدار کی مدت تیزی سے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے مگر کہیں تبدیلی کا کوئی نام و نشان نہیں۔ وفاقی وزراء اور حکومتی ترجمانوں کے پاس عوام کو مزید لارے لگانے کے جواز جوں جوں محدود ہوتے چلے گئے‘ حکومت نے اپنی توپوں کا رخ اپوزیشن کی طرف کر لیا اور اب صبح، دوپہر و شام صرف ماضی کے قصے اور سابق حکمرانوں پر تنقید کے سوا کچھ سننے کو نہیں ملتا۔ شاید حکمران بھی یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ تبدیلی کے نعرے کی کشش ماند پڑتی جا رہی ہے لہٰذا اب اپنا بیانیہ تبدیل کر لیا جائے لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ عوام نے تو کسی اور تبدیلی کیلئے ووٹ دیا تھا اور اگر آپ نظام میں کوئی مثبت تبدیلی نہ لا سکے تو پھر آئندہ عام انتخابات میں عوام کے پاس لے جانے کیلئے آپ کے پاس کچھ نہ ہو گا۔ تبدیلی کی کئی اقسام ہیں، ایک تو چہروں کی تبدیلی ہے‘ جو گزشتہ سات دہائیوں سے چلی آ رہی ہے، ہر الیکشن میں چہرے تبدیل ہو جاتے ہیں ، حزب اقتدار والے حزبِ اختلاف میں چلے جاتے ہیں اور اپوزیشن عوام کو سہانے خواب دکھا کر حکومت میں آ جاتی ہے، چند چھوٹے اتحادی ہر دور میں حکومت کا حصہ رہتے ہیں یوں وہی پرانے چہرے بار بار تبدیل ہوکر عوام پر مسلط رہتے ہیں۔ ایک تبدیلی نظام کی ہے‘ جس میں رشوت، سفارش، بدعنوانی اور دیگر سماجی جرائم کو ختم کرکے صاف و شفاف نظامت کا قیام شامل ہے کہ جس میں عام آدمی کو انصاف بھی ملے اوراحساسِ تحفظ بھی ہو۔ ایک تبدیلی نظامِ تعلیم کی تبدیلی ہے‘ جس میں فرسودہ طبقاتی نظام تعلیم ختم کرکے ملک بھر میں یکساں معیاری نظام تعلیم کو رائج کرنا ہے جس سے ایک غریب و بے سہارا بچہ بھی مستفید ہو سکے۔ تبدیلی صحت کے شعبے میں بھی لائی جا سکتی ہے جس میں ایک عام شہری کو صحت کی جدید ترین بنیادی سہولتیں بالکل مفت مل سکیں اور کوئی غریب علاج معالجے کی سہولت افورڈ نہ کر سکنے کی بنا پر موت کے منہ میں نہ جائے، بلاشبہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہیں لیکن علاج کرنا بھی سنت ہے اور ایک فلاحی ریاست میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو معیاری اور مفت علاج کی سہولتیں فراہم کرے۔ غرض تبدیلی کی بڑی اقسام ہیں لیکن یہاں ہمارا مقصد صرف نظام کی تبدیلی پر بات کرناہے جو ابھی تک کہیں نظر نہیں آ رہی اور اب تک ہونے والے تجربے کی روشنی میں تو دور دور تک اس کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ چونکہ حکومت نے عوام سے اپنا وعدہ بھی پورا کرنا ہے اور ملک میں ایسی تبدیلی لانی ہے جو نظر بھی آئے اور عوام تک اس کا فائدہ بھی پہنچے۔
ہمارے ملک میں سمارٹ لاک ڈائون کا تجربہ کافی حد تک کامیاب رہا‘ جس سے کورونا وائرس کی شدت میں کمی بھی آئی اور حسبِ ضرورت معاشی سرگرمیاں بھی چلتی رہیں، اب کورونا کی دوسری لہر شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور رواں ہفتے اس وبا سے روزانہ اموات کی تعداد اوسطاً تین درجن سے بھی بڑھ چکی ہے، ایک بار پھر حکومت نے حکم جاری کیا ہے کہ تمام بازار اور شاپنگ مالز رات دس بجے بند کر دیے جائیں‘ جبکہ سندھ حکومت نے کاروبار 6بجے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو دینِ اسلام ہمیں صبح سویرے کام‘ کاروبار پر نکلنے کا حکم دیتا اور دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی تلقین کرتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کے کئی غیرمسلم ممالک میں تو ان اصولوں پر عمل ہو رہا ہے لیکن ہم حاملِ قرآن ہو کر بھی اسلامی اصولوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور یہی ہمارے بحرانوں کا سبب بھی ہے۔ ہمارے ملک میں کاروباری مراکز دوپہر سے پہلے کم ہی کھلتے ہیں اور پھر نصف شب تک کھلے رہتے ہیں جو ناصرف شریعت کے اصولوں سے متصادم ہے بلکہ اس سے بجلی کی کئی گنا اضافی کھپت سمیت متعدد دیگر مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ دوپہر بارہ بجے سے پہلے تو کوئی مارکیٹ کھلتی ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے شہریوں کی اکثریت صبح یا دن کے بجائے رات کو مغرب یا عشا کے بعد خریداری کیلئے بازاروں کا رخ کرتی ہے کیونکہ وہ دن بھر کے کاموں سے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں اور ان کے پاس تسلی سے خریداری کا وقت ہوتا ہے، دوسرا، رات کو رنگ برنگی روشنیاں اپنے دلکش نظاروں سے گاہکوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں۔ راقم الحروف نے گزشتہ برس بھی اپنے ایک کالم میں اس تجربے کے ذکر کیا تھا کہ جب 2016ء میں ویتنام جانے کاموقع ملا، ایک ایسا ملک‘ جو طویل امریکی جنگ نے تباہ کر دیا تھا۔ وہاں کے باشندوں کا مذہب بت پرستی ہے لیکن ان لوگوں نے اپنی زندگی میں کئی اسلامی اصول اپنا رکھے ہیں اور دنیاوی ترقی کے زینے چڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ وہاں دیکھا کہ وہ لوگ ایمان کی روشنی سے تو محروم ہیں لیکن دن کی روشنی کا استعمال خوب جانتے ہیں، وہ فجر کی نماز کے بارے تو نہیں جانتے لیکن سحری کے وقت اٹھنا ان کا معمول ہے اور منہ اندھیرے (علی الصبح) ہی کام و کاروبار کے لئے گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور سورج نکلنے سے پہلے اپنے کام کا آغاز کر چکے ہوتے ہیں، اسی طرح نوکری پیشہ مرد و خواتین بھی صبح سات بجے سے پہلے اپنی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں، صبح تازہ دم ہونے کی وجہ سے نہ صرف ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے بلکہ ہشاش بشاش چہرے خوش اخلاقی کا تاثر بھی دیتے ہیں، وہاں طلوعِ آفتاب سے پہلے شروع ہونے والا کاروبارِ زندگی سورج کے غروب ہونے سے پہلے ختم ہو جاتا ہے اور مغرب سے پہلے تمام لوگ اپنا اپنا کام ختم کرکے گھروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ شام کے بعد کوئی بازار یا شاپنگ مال کھلا نہیں ملتا اس لئے جس نے کوئی چیز خریدنا ہو وہ دن کو ہی خرید لیتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ شام کے بعد صرف ہوٹل یا بار روم ہی کھلا مل سکتا ہے۔ اس طرح وہ قوم اپنی بجلی کی بچت بھی کرتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اپنے دورے کے دوران ہم نے ایک لمحے کیلئے بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں دیکھی۔ اس کے برعکس جب سے ہم نے دن کی روشنی کا استعمال ترک کیا‘ ایک تو ہماری نمازِ فجر قضا ہونے لگی، تاخیر سے اٹھنے کے باعث ہم اکثر کام پر جانے کیلئے بھی لیٹ ہوتے ہیں ، جبکہ ہماری کل بجلی کا 70 فیصدر حصہ رات کو کمرشل لائٹوں پر ضائع ہو جاتا ہے اور اسی کے نتیجے میں ہمیں طویل لوڈ شیڈنگ کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم سورج کی روشنی کا صحیح استعمال کریں تو لوڈشیڈنگ ختم ہو سکتی ہے۔
بات کورونا لاک ڈائون سے بچنے کیلئے رات دس بجے مارکیٹیں بند کرنے کی ہو رہی تھی‘ میرے خیال میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے پاس سنہری موقع ہے کہ ملک بھر میں عام مارکیٹ کا نظام الاوقات صبح سات سے شام سات بجے تک کر دے، اس کے بعد صرف ریسٹورنٹس اور میڈیکل سٹورز ہی کھولنے کی اجازت ہو اورکریانہ سٹور بھی شام سات بجے بند کر دیے جائیں‘ یوں لوگ خودبخود اپنی خریداری کا وقت ٹھیک کر لیں گے۔ اس سے قوم میں نظم و ضبط بھی پیدا ہوگا اور توانائی بحران بھی کافی حد تک حل ہو جائے گا۔ اگر وزیراعظم عمران خان ایک یہی کام ہی کر دیں تو اس میں حکومت کے اضافی وسائل بھی خرچ نہیں ہوں گے اور یہی حقیقی تبدیلی کی بنیاد بھی ہو گی۔ اس طرح پی ٹی آئی کا عوام سے تبدیلی کا وعدہ بھی پورا ہو گا اور تاریخ میں عمران خان کانام بھی درج ہو جائے گا۔ وزیراعظم صاحب 'موقع بھی ہے‘ دستور بھی ہے‘ فائدہ اٹھائیں اور تاریخ رقم کر دیں۔