قواعدوضوابط کے مطابق ڈپٹی کمشنر 12 گھنٹے کے لیے پیرول پر رہائی کا حکم جاری کرسکتا تھا۔ اس سے زیادہ کا اختیار صوبائی حکومت کو تھا۔ وزیر اعلیٰ بزدار نے کابینہ سے مشورے کے بعد جناب شہبازشریف اور حمزہ شہبازکی پانچ دن کے لیے پیرول پر رہائی کا فیصلہ کیا کہ بیٹا اپنی والدہ کی اور پوتا اپنی دادی کی آخری رسوم میں شرکت کرسکے۔ وزیر اعلیٰ کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اسے خصوصی رعایت قرار دیا ہے۔ (مسلم لیگ ن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عطااللہ تارڑ نے 15دن کے پیرول کی درخواست دی تھی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق پیرول کا آغاز محترمہ شمیم اختر کے جسد خاکی کے لاہور پہنچنے پر ہونا تھا، (جسدِ خاکی ہفتے کی صبح لاہور پہنچے گا) سرکاری ترجمان اسے بھی سرکار کی عنایت خسروانہ قرار دے سکتے ہیں کہ باپ، بیٹے کی رہائی ہفتے کی صبح کے بجائے جمعہ کو دوپہر دوبجے ہوجائے گی۔ یہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہوجاتی تووہ نماز جمعہ میں بھی شریک ہو جاتے) بیگم صاحبہ کی نماز جنازہ ہفتے کو نماز ظہر کے بعد جاتی امرا میں ادا کی جائے گی جس کے بعد جاتی امرا کے ''خاندانی قبرستان‘‘ میں ایک اور قبر کا اضافہ ہوجائے گا، چوتھی قبر۔ سب سے پہلے یہاں بڑے میاں صاحب (محمد شریف) آسودۂ خاک ہوئے، پھر سب سے چھوٹے صاحبزادے عباس شریف باپ کے پہلو میں جا لیٹے، تیسری قبر محترمہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ کی تھی اور اب والدہ صاحبہ لندن سے تشریف لارہی ہیں۔
خوشی، غمی کے حوالے سے ہماری خاص روایات رہی ہیں۔ مشرف دور میں جاوید ہاشمی، بغاوت اور غداری کے ''جرم‘‘ میں کوٹ لکھپت جیل میں سزا کاٹ رہے تھے‘ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی حکمرانی تھی۔ ہاشمی کی تیسری صاحبزادی کی شادی کا دن آ گیا۔ ''باغی‘‘ کی غیرت پیرول پر رہائی کی درخواست میں مانع تھی۔ اس نے جیل ہی میں بیٹی کے نیک نصیبوں کیلئے دعائیں کرلی تھیں کہ جیل حکام بیرک میں آن پہنچے۔ ان کا کہنا تھا، قیدی اپنا سامان سمیٹ لے کہ اسے کسی اور جگہ منتقل کرنا ہے۔ کوٹ لکھپت سے اب انکا رخ لاہور ایئرپورٹ کی طرف تھا۔ قیدی کو جہاز پر بٹھادیا گیا، اسے اگلی منزل کا پتہ تب چلا جب پائلٹ اعلان کیا کہ پرواز ملتان کیلئے روانہ ہونے کو ہے۔ ملتان ایئرپورٹ پر ہاشمی کو پتہ چلا کہ بیٹی کی رخصتی کیلئے وہ تین دن کے پیرول پر ہیں۔ وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے اس کیلئے قیدی (یا اس کے وابستگان میں کسی) کی درخواست کا انتظار نہیں کیا تھا۔ تیسرا دن بھی گزر گیا۔ یوں لگتا تھا، حکومت انکی جیل واپسی کا بھول چکی ہے۔ انہوں نے خود متعلقہ حکام کو فون کیا لیکن سنی ان سنی کردی گئی۔ آخر چھٹے روز کے اختتام پر اسے ملتان سے واپس لاہور کوٹ لکھپت جیل پہنچا دیا گیا۔
البتہ بھانجی کے سانحہ پر معاملہ مختلف تھا‘ جو چند دن پہلے دلہن بنی تھی۔ نوبیاہتا جوڑے نے عمر ے کی سعادت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ بدقسمت فوکر ملتان ایئرپورٹ سے اڑان بھرتے ہی حادثے کا شکار ہوگیا۔ جاں بحق ہونے والوں میں یہ دونوں بھی تھے۔ اب انہیں اپنی بہن اور بہنوئی کے گلے لگنا تھا، ان کے آنسو پونچھنا تھے جنہیں زندگی کے سب سے بڑے دکھ نے آلیا تھا۔ اب انہیں پیرول کیلئے درخواست لکھنے میں عار نہ تھی۔ چھوٹے چودھری کی وزارتِ اعلیٰ ابھی چل رہی تھی۔ وہ شاید اب بھی درخواست کے بغیر ہی دکھی ماموں کو ملتان پہنچانے کا اہتمام کردیتے۔
سیاسی اختلافات کے باوجود اپنے ہاں خوشی، غمی کی یہ روایات نہایت مستحکم رہی ہیں۔ 2013 کی انتخابی مہم کے آخری دو تین دن تھے جب عمران خان لاہور میں ایک انتخابی جلسے میں سٹیج کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے گر کر شدید زخمی ہوگئے۔ نوازشریف لاہور سے باہر ایک انتخابی جلسے میں تھے۔ انہوں نے حاضرین سے خان کی صحت یابی کیلئے دعا کا کہا اور اگلے روز ملک بھر میں مسلم لیگ کی انتخابی سرگرمیاں معطل کرنے کا اعلان کردیا۔ شہباز شریف لاہور میں تھے۔ انہوں نے اسی شام شوکت خانم ہسپتال کا رخ کیا۔ خود میاں صاحب الیکشن کے فوراً بعد ہسپتال پہنچے۔ دیر تک عمران خان کے پاس رہے، دوستی کے پرانے دنوں کی یادیں تازہ کیں اور یہ کہہ کر رخصت ہوئے: جلدی سے ٹھیک ہو جائو، پھر ہم فرینڈلی میچ کھیلیں گے۔ قدرت نے مہربانی کی، عمران خان کو صحت یابی میں زیادہ دیر نہ لگی۔ فرینڈلی میچ کی صورت تو پیدا نہ ہوئی؛ البتہ میاں صاحب خان کی دعوت پر بنی گالہ گئے۔ خان خود دروازے پر مہمان کے خیر مقدم کیلئے موجود تھا۔ پرُتکلف عصرانے پر بے تکلف گفتگو رہی۔ وزیر اعظم پروٹوکول کے بغیر پہنچے تھے۔ ڈرائیونگ سیٹ پر چودھری نثار علی خاں تھے۔ جلا وطنی کے دنوں میں شہباز شریف نے شوکت خانم ہسپتال کیلئے 30 لاکھ کا عطیہ ارسال کیا تھا، جس پر اظہار تشکر کیلئے عمران خان سرور پیلس آئے۔ عباس شریف کے ''حادثاتی‘‘ انتقال پر (بجلی کا جھٹکا ان کی موت کا سبب بنا تھا) عمران خان، تحریک انصاف کے دیگر قائدین کے ساتھ، تعزیت کے لیے جاتی امرا آئے تھے؛ البتہ بیگم صاحبہ (کلثوم نواز) کے انتقال پر خان صاحب نے سرکاری وفد جنازے میں شرکت کیلئے بھیجا۔ خود تشریف نہ لا سکے۔ تعزیتی بیان ضرور جاری کیا۔
11ستمبر 2018 کی شام میاں صاحب (اور مریم نواز) اڈیالہ جیل تھے، جب لندن میں بیگم صاحبہ نے آخری سانس لیا۔ حکومت نے مہربانی کی کہ شہباز صاحب کی تحریری درخواست پر اسی شب میاں صاحب اور مریم کی پیرول پر رہائی کا حکم جاری کردیا۔ چھ روز بعد باپ بیٹی دوبارہ اڈیالہ چلے گئے۔ اب لندن میں والدہ کا انتقال اس عالم میں ہوا کہ شہباز صاحب اور حمزہ کوٹ لکھپت جیل میں تھے۔ عطااللہ تارڑ کو اسی شام دونوں سے ملاقات کی اجازت مل گئی۔ شہباز صاحب کی بڑے بھائی سے فون پر ''بات‘‘ بھی ہوگئی۔ شدید صدمے کے اس عالم میں ''ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے، سلسلہ تکلم کا‘‘ والی کیفیت تھی۔ یہ موقع ایسا ہوتا ہے جب غم زدگان کو باہم دلاسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کے آنسو پونچھتے ہیں‘ گلے ملتے ہیں، دکھ بانٹتے ہیں‘ لیکن غم زدہ بیٹے اور پوتے کو چھ روز تک یہ غم تنہا سہنا تھا۔ اس شب دونوں کی پیرول پر رہائی ہو جاتی تو سیاسی رواداری کی روایت آگے بڑھتی۔
بالآخر وزیر اعظم عمران خان، چودھریوں کے ہاں ہو آئے۔ سوا دو برسوں کی وزارتِ عظمیٰ میں اپنے اتحادیوں کے ہاں یہ ان کی پہلی آمد تھی۔ بڑے چودھری صاحب کی عیادت، ملاقات کا بہانہ تھی۔ خان صاحب اور چودھری برادران 2018 کے الیکشن سے پہلے کے اتحادی ہیں لیکن یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ خوش دلانہ نہیں، مارے باندھے کا تعلق ہے، انگریزی میں جسے Strange Bed fellows کہتے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں بڑے چودھری صاحب علاج کیلئے جرمنی گئے۔ اس دوران شہبازشریف اور چودھری صاحب میں فون پر رابطہ رہا‘ لیکن وزیر اعظم اپنے اتحادی کے متعلق لاعلم تھے۔ خان صاحب کی کابینہ کے رکن طارق بشیر چیمہ نے انہیں مزاج پرسی کیلئے کہا تو معلوم ہوا۔ گزشتہ دنوں چودھری صاحب شدید علالت کے باعث سروسز ہسپتال میں تھے۔ اس دوران نوازشریف نے خواجہ آصف کے ہاتھ گلدستہ بھجوایا (شہبازشریف جیل میں ہونے کے باعث عیادت کیلئے نہ آسکے) اور خواجہ سعد رفیق سمیت نون لیگی قائدین مزاج پرسی کیلئے آتے رہے۔ اس دوران وزیر اعظم صاحب لاہور تشریف لائے لیکن عیادت کیلئے وقت نہ نکال سکے۔ یہ شاید اسی کا ردِ عمل تھا کہ وزیر اعظم صاحب کے کھانے میں قاف لیگ نے شرکت سے معذرت کرلی۔
اب وزیر اعظم تشریف لے گئے تو بعض ستم ظریف اسے پی ڈی ایم کے پیدا کردہ دبائو کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں کہ وزیر اعظم اس نازک کے موقع پر اپنے کسی اتحادی کو کھونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔