تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     27-11-2020

A Promised Land …(2)

سابق یو ایس پریذ یڈنٹ باراک اوبامہ نے اپنی کتاب کے پارٹ نمبر 6میں باب نمبر 24کا عنوان بہت دلچسپ رکھا ہے''In the Barrel‘‘۔ اس عنوان کو پڑھ کر جنرل پرویز مشرف کی کتاب ''In the Line of Fire‘‘بھی ذہن میں آتی ہے۔دہلی کے راج بھون میں بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کو نیند کی وادی میں جاتا دیکھ کر باراک اوبامہ کے ذہن میں دال اور قیمہ آگیا۔ساتھ ہی سابق امریکی صدر کو کالج کے زمانے کے اپنے پاکستانی اور انڈین دوست بھی یاد آئے جنہوں نے اوبامہ کو دال اور قیمہ پکانا سکھایا تھا۔پھر باراک اوبامہ کے خیال کے گھوڑے دوڑتے چلے گئے۔ شاید وہ برّ صغیر کی وسعت کو تلاش کر رہے تھے جہاں تقریباً2000مختلف نسلی گروہ اکٹھے رہتے ہیں اور 700سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ پھر اوبامہ کو یاد آیا کہ اس نے اپنے بچپن کا کچھ حصہ انڈونیشیا میں گزارا تھا۔ اسی کی وجہ سے اسے مشرقی مذاہب میں دلچسپی محسوس ہونا شروع ہوئی۔ اس دلچسپی کی وجوہ کو باراک اوبامہ نے بڑے کینوس پر پھیلا کر بیان کیاہے۔اوبامہ لکھتے ہیں ''لیکن ان سب وجوہات سے بڑھ کے میری دلچسپی انڈیا میں مہاتما گاندھی کی وجہ سے تھی۔ابراہم لنکن‘ مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا کے ساتھ ساتھ گاندھی کا بھی میرے خیالات پہ گہرا اثر رہا۔اُن کی غیر متشدد مہم جو 1915ء میں شروع ہوئی اور اگلے 30 سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہی‘نے نہ صرف ایک سلطنت پہ قابو پا کر برصغیر کے ایک وسیع حصے کو آزاد کروانے میں بڑاکردار ادا کیا ‘بلکہ اس نے پوری دنیا میں ایک اخلاقی چارج کی شروعات کی ‘جو بے شمار ملکوں میں گردش کرنے لگا۔یہ دوسرے dispossessed اور marginalized گروہوں کیلئے مشعل بن گیاجن میںJim Crow South کے Black Americans بھی شامل تھے‘جو اپنی آزادی حاصل کرنے کیلئے ثابت قدم ہوگئے‘‘۔
اس سے آگے باراک اوبامہ نے بھارت کے معاشرتی تضاد پر بھی بہت کُھل کر لکھا۔ان میں سے کچھ پیراگراف ممبئی کے خاموش محلے میں موجود ایک معمولی دو منزلہ عمارت کے وزٹ کے بارے میں ہیں جسے موہن داس کرم چند گاندھی نے کئی سال تک اپنی ہوم بیس کے طور پہ استعمال کیا تھا۔یہیں پر باراک اوبامہ کو وہ وزٹر بک دیکھنے کو ملی جس میں امریکی سیاہ فام رہنما ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ نے 1959میں دستخط کئے تھے۔ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ نے انڈیا تک کا سفر نسلی انصاف کی جدوجہد کی طرف بین الاقواجی توجہ دلانے اور اس انسان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے کیا تھا جس کی تعلیمات نے انہیں Inspireکیا تھا۔ایک بات جو امریکہ کے صدر کو ہمارے اکثر ایشیائی رہنمائوں سے مختلف ثابت کرتی ہے وہ یہ نکلی کہ اس نے بھارت کے ٹور کے دوران بابائے بھارت کے گھر تک جانے کی خواہش پوری کرلی۔اسی تسلسل میں بھارتی معاشرے کا ایک اور بڑاتضاد باراک اوبامہ نے ان لفظوں میں بیان کیا ''اپنی تمام تر غیر معمولی صلاحیتوں کے باوجودگاندھی برصغیر کے گہرے مذہبی تفرقوں کو ٹھیک نہ کرسکے اور نہ ہی ہندو انڈیا اور مسلم پاکستان میں اس کا بٹوارا ہونے سے روک سکے۔یہ ایک وسیع واقعہ تھا جس میں اَن گنت لوگوں نے فرقہ ورانہ تشدد کی وجہ سے جانیں گنوائیں اور لاکھوں خاندانوں کو مجبوراً اپنا تمام سازوسامان اُٹھا کر نئی قائم کردہ سرحدوں کے پارہجرت کرنا پڑی۔ اپنی تمام محنت مشقت کے باوجود گاندھی نے انڈیا کے ذات پات کے دم گھونٹنے والے نظام کو ختم نہیں کیا؛ تاہم انہوں نے 78 برس کی عمر تک مارچ کئے‘فاقے کئے اور وعظ دیئے ‘یہاں تک کہ 1948ء میں اپنے آخری دن انہیں ایک ہندو انتہا پسند نوجوان نے گولی کا نشانہ بنا کر ہلاک کردیا۔اس کا کہنا تھا کہ گاندھی کی تحریک ہندو مذہب کے ساتھ کھلی غداری ہے ‘‘۔ 
اگلا تضاد جس نے باراک اوبامہ کو رنجیدہ کردیا ‘وہ کیا تھا ؟یہ جاننے کیلئے آج کے انڈیا کے بارے میں باراک اوبامہ نے اپنے پڑھنے والوں کو مایوس کرنے کے بجائے کھل کر سچ لکھ ڈالا‘کہتے ہیں ''سچ تو یہ ہے کہ انڈیا اب بھی گاندھی کے تصور والے مساوات اورپُر امن معاشرے سے کسی قسم کی کوئی مشابہت نہیں رکھتا۔پورے ملک میں کروڑوں لوگ تپتی دھوپ میں جلتے دیہات اور کچی آبادیوں میں مصیبت زدہ زندگیاں گزار رہے ہیں‘جبکہ انڈین انڈسٹری کے بڑے نام ایسی شاہانہ زندگیاں گزارتے ہیں جنہیں دیکھ کے پرانے زمانے کے مہاراجائوں اور امیروں کو بھی رشک آئے۔ وائلنس‘ چاہے وہ عوامی ہو یا نجی‘انڈین زندگی کا بہت وسیع حصہ ہے‘‘۔
پاکستان کے بارے میں ہندو لیڈروں کی چانکیہ سیاست کے بارے میں باراک اوبامہ نے بڑا زور دار تبصرہ کیا۔انہوں نے لکھا ''پاکستان سے دشمنی کا اظہار کرنا‘ بھارت میں سیاسی لیڈروں کے لیے قومی اتحاد کی طرف جانے والا سب سے تیز ترین راستہ ہے۔بہت سے انڈینز کو اس بات پہ بہت فخر ہے ‘کہ ان کے ملک نے پاکستان کے مقابلے کا ایٹمی پروگرام تیار کیا ہے۔ اس بات کی انہیں کوئی پریشانی نہیں ہے کہ دونوں طرف میں سے کسی ایک کی بھی چھوٹی سی غلطی ‘پورے ریجن کو نیست و نابود کرنے کا باعث بن سکتی ہے‘‘۔
باراک اوبامہ وہ پہلے عالمی لیڈر ہیں جنہوں نے انڈیا کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ماننے سے انکار کر دیا۔ اس بارے میں لکھتے ہوئے انہوں نے ہر قسم کے شک و شبہ کو دور کرنے کیلئے انڈین پالیٹکس کو سب سے اہم بات کہی ۔باراک اوبامہ نے لکھا: ''سب سے اہم بات یہ ہے کہ انڈیا کی سیاست بس مذہب‘قبیلہ اور ذات پات کے ارد گرد ہی گھومتی ہے‘‘۔
اس کالم کی پہلی قسط میں باراک اوبامہ کی نظر میں سونیا گاندھی کی دلکشی کا ذکر آیا تھا۔دراصل ہوا یوں کہ من موہن سنگھ کی طرف سے دی گئی دعوت میں کھانے کی میز پر راہول اور سونیا گاندھی اکٹھے موجود تھے ۔ اس ملاقات کا احوال باراک اوبامہ نے یوں لکھا ''سونیا گاندھی ایک دلکش 60سالہ خاتون تھیں۔انہوں نے ایک روایتی ساڑھی پہن رکھی تھی ‘اُن کی آنکھیں گہری تھیں اور پریزنس شاہی تھی۔یورپ سے تعلق رکھنے والی اس سابق گھریلو خاتون نے 1991ء میں ایک سری لنکن علیحدگی پسند کے خودکش دھماکے میں ہلاک ہونے والے اپنے شوہر کے بعد ہی معروف قومی سیاست دان بننے تک کا سفر طے کیا‘‘۔ سابق امریکی صدر نے ایبٹ آباد کے او بی ایل آپریشن پر بھی کافی بات کی ہے ‘جس کی تفصیل علیحدہ سے لکھی جا سکتی ہے۔بھارت کے بارے میں A Promised Landمیں تین اہم نکات کی طرف توجہ دلائی گئی ۔ان میں سے سب سے اہم بات یہ کہ بھارت نے اپنے چہرے پر سیکولرازم کی جو سرخی جمارکھی ہے در اصل وہ بھارت کے جنونی ریاستی رویے کے بہائے ہوئے لہو کی سرخی ہے۔ دوسرا یہ کہ بھارت سماج مذہبی تعصب پر آگے بڑھ رہا ہے جس میں بین المذاہب تعصب تو ہے ہی ‘اعلیٰ درجے کے ہندوئوں کے سامنے نچلی ذات کے ہندوئوں کی نہ کوئی شناخت ہے اور نہ ہی کوئی عزت۔کشمیر کے مسلمان ہوں یا ترن تارن کے سکھ ‘بمبئی کے کرسچین یا صدیوں سے بھارت میں مقیم مسلمان‘ سب نفرت کی زد میں ہیں۔نفرت بھی ایسی جس کی ڈیزائنر اور پروموٹر کوئی اور نہیں بلکہ ریاستی مشینری ہے۔ تیسرا اہم نکتہ بھارت کے معاشی مستقبل کا ہے جہاں چند گھرانوں کے علاوہ دوسرے کسی کی بھلائی دور دور تک نظر نہیں آتی۔پاکستان میں محب وطن ماہرین ابلاغ کو باراک اوبامہ کی کتاب اس لیے ضرور پڑھنی چاہیے کہ یہ ایک غیر جانب دار لیڈر کی طرف سے بھارتی ریاست میں طرزِ سیاست اور حکومت کے خلاف کھلی چارج شیٹ ہے۔ اس چارج شیٹ کے علاوہ بھی کتاب کا اسلوب پڑھنے والے کو بور نہیں ہونے دیتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved