تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     27-11-2020

ماں کی موت‘ بے لوث محبت کی موت

اللہ رحمن کے پاس محترم سراج الحق کی والدہ چلی گئیں۔ میاں محمد نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی والدہ بھی اپنے رب کریم کے پاس جا پہنچیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں مائوں کو جنت الفردوس عطا فرمائے اور جو مسلمان بھی اپنی ماں سے محروم ہو گیا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس محرومی کو صبر جمیل کا خوبصورت لباس پہنائے اور ہر ماں کے درجات کو رفعت عطا فرمائے۔ محترم سراج الحق کے پاس تعزیت کے لیے بیٹھا تھا، اپنی والدہ کے بارے میں مجھے بتانے لگے کہ وہ اپنی زندگی کی آخری بیماری میں ہسپتال میں تھیں۔ میں بھاگم بھاگ ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ بیٹے کو دیکھ کر خوش تو یقینا ہوئیں مگر دید کی مسرت کے ساتھ محبت کا ایک اور پہلو غالب آ گیا۔ وہ ناراض ہونے لگ گئیں کہ تم اتنی دور سے تکلیف اٹھا کر آئے‘ سفر کی صعوبت برداشت کی، اچھا! یہ بتائو، راستے میں روٹی کھائی یا بھوکے ہو؟ اللہ اللہ! میں سوچنے لگ گیا کہ دونوں پہلوئوں میں محبت کا جام چھلک رہا ہے۔ جو شخص بھی‘ جو بیٹا بھی ایسے بے لوث جام کو پینے سے محروم ہو جائے‘ اب دنیا میں اور کون سی چیز ہے جو اس کی پیاس بجھائے گی؟ میں کہتا ہوں ہر رشتے کی محبت میں مفاد ہوتا ہے‘ ماں کی مامتا کا رشتہ ایسا ہے کہ یہاں مفاد فوت ہی نہیں ہوتا بلکہ ماں اپنی اولاد کی خاطر جان کی قربانی دینے کے لیے بھی ہمہ وقت تیار ہوتی ہے لہٰذا ماں کی موت دراصل بے لوث محبت کی موت ہوتی ہے۔ میری ماں محترمہ رضیہ رحمۃ اللہ کہا کرتی تھیں: اے میر رب رحمن! مجھے اولاد کا کوئی دکھ نہ دکھانا۔ تیری تقدیر میں کوئی دکھ لکھا ہو (یعنی کسی کی موت میری زندگی میں لکھی ہو) تو مجھے اس دکھ سے پہلے ہی اپنے پاس بلا لینا اور پھر والدہ محترمہ صرف 45 سال کی عمر میں نماز پڑھتے ہوئے اپنے اللہ کے پاس جا پہنچیں۔
محترم سراج الحق کی مجلس میں انسانی مائوں کی محبتوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کی مائوں کی محبتوں کے تذکرے بھی شروع ہو گئے۔ قاری محمد یعقوب شیخ کے بیان کردہ واقعے نے تو ہر آنکھ کو نم کر دیا۔ بتانے لگے: کوئی 20 سال قبل جب میں ریاض یونیورسٹی میں طالبعلم تھا‘ عمرہ کی غرض سے دوستوں کے ہمراہ مکہ کا سفر اختیار کیا۔ ہائی وے کے اردگرد تاروں کی باڑ تھی‘ ایک جگہ سے باڑ ٹوٹی ہوئی تھی۔ ٹرالر تیز رفتاری سے جا رہا تھا کہ اچانک ایک اونٹنی سامنے آ گئی۔ ٹرالر سے گھبرا کر وہ ایک طرف ہو کر اس زور سے گری کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا۔ ہم ذرا فاصلے پر منظر دیکھ رہے تھے۔ قریب آ کر رکے، کیا دیکھتے ہیں‘ اس اونٹنی کے بچے نے جو ماں کے ساتھ ذرا فاصلے پر صحرا کی جھاڑیوں میں چر رہا تھا۔ اپنی ماں کو گرتے ہوئے دیکھا تو سرپٹ بھاگتا ہوا ، روہانسی آوازیں نکالتا ہوا ‘ ماں کو آوازیں دیتا ہواماں کے قریب آ گیا۔ کافی لوگ اپنی اپنی گاڑیاں کھڑی کر کے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ اونٹنی کا پیٹ پھٹ چکا تھا۔ انتڑیاں نظر آ رہی تھیں لیکن وہ ابھی زندہ تھی۔ اس کے لخت جگر نے اپنا منہ ماں کے منہ کے ساتھ لگا دیا۔ ماں جو بے حد تکلیف میں تھی‘ نے اپنی لمبی زبان کے ساتھ بچے کے چہرے کو چومنا شروع کر دیا۔ اس کے چہرے کو چاٹنے لگی۔ یہ منظر دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔ آخر کار اونٹنی فنا ہو گئی۔ قاری محمد یعقوب شیخ‘ جو ریاض یونیورسٹی سے گولڈ میڈلسٹ ہیں‘ سنہرا سبق یہ دے رہے تھے کہ ایک حیوان ماں کی محبت اپنے بچے کے ساتھ اتنی عظیم ہے تو انسان‘ جو اشرف المخلوقات ہے کی محبت کی رفعتوں کو پیدا کرنے والا ہی جانتا ہے۔ لہٰذا اس بے لوث محبت کی جو قدر کرتے ہیں۔ اللہ کے ہاں بھی انہی کی قدر ہوگی۔ آئیے! حضور حضرت محمد کریمﷺ کے فرمودات ملاحظہ کرتے ہیں!
قارئین کرام! جو حدیث میں بیان کرنے جا رہا ہوں‘ اس میں اپنے بچے کے ساتھ ماں کی محبت کا والہانہ پن دیکھیں اور پھر حضورﷺ نے اس پر جو فرمایا وہ بھی ملاحظہ کریں اور اپنے خالق کی محبت میں قربان و فدا ہوتے رہیں۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں: اللہ کے رسولﷺ کے پاس جنگی قیدی آئے‘ ان میں ایک عورت بھی تھی جو اپنے بچے کو تلاش کرتے ہوئے اِدھر اُدھر بھاگ رہی تھی۔ جونہی اسے بچہ ملا‘ اس نے پکڑا اور سینے سے چمٹا لیا اور پھر اسے دودھ پلانے لگ گئی۔ اس پر اللہ کے رسولﷺ ہم سے مخاطب ہوئے اور پوچھنے لگے: بتائو! کیا یہ عورت بھلا اپنے بچے کو آگ میں پھینکے گی؟ ہم نے عرض کی: اللہ کی قسم! بالکل نہیں بھی نہیں۔ (اے اللہ کے رسولﷺ) جبکہ وہ ہمت رکھتی ہو کہ اسے آگ میں نہ جانے دے۔ اس پر اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا! سنو! جس قدر یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے‘ اللہ تعالیٰ اس ماں سے کہیں اور کہیں زیادہ بڑھ کر مہربان ہے اپنے بندوں کے ساتھ۔ (بخاری: 5999، مسلم: 2754)۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں: میں نے اللہ کے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے رحمت کے 100 حصے بنائے۔ 99 حصے اپنے پاس روک کر رکھ لیے۔زمین پر صرف ایک حصہ نازل فرمایا؛ چنانچہ اسی ایک حصے سے تمام مخلوقات آپس میں رحم کرتی ہیں حتیٰ کہ گھوڑی اپنے پائوں کو اپنے بچے کے ساتھ (ٹچ ہوتے ہی) اوپر اٹھا لیتی ہے۔ اس ڈر سے کہ اسے نقصان نہ پہنچ جائے (تو اسی ایک حصۂ رحمت کی وجہ سے وہ ایسا کرتی ہے)۔ (بخاری:6000، مسلم :2752)۔ صحیح مسلم میں آخری الفاظ یوں ہیں کہ کسی بھی جاندار کی ماں اپنا پائوں اٹھاتی ہے تو اس حصہ رحمت کی وجہ سے اٹھاتی ہے۔ وہ ماں بھینس ہو‘ گائے ہو‘ اونٹنی ہو یا کوئی بھی ہو۔ صحیح مسلم میں یوں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے 99 حصوں کو اپنے پاس چھپا کر رکھا ہے۔ (2752) بخاری اور مسلم کی اور حدیث میں حضورﷺ نے الفاظ یوں استعمال فرمائے ہیں کہ جنات، انسان، جانور اور حشرات سب اسی ایک حصہ رحمت کی وجہ سے آپس میں عاطفت و رحمت کا رویہ اپناتے ہیں۔ (بخاری:6469، مسلم2752) صحیح مسلم میں حضور رحمت دو عالمﷺ کا ایک فرمان یوں ہے کہ وحشی جانور اور پرندوں کی (مائیں بھی) اسی ایک حصۂِ رحمت کی وجہ سے باہم اور اپنے بچوں پر محبت نچھاور کرتی ہیں۔ یہ بھی فرمایا! کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں پر 99 حصوں کی رحمت کے ساتھ رحم فرمائیں گے۔ اور یہ بھی فرمایا: اَکْمَلَھَا بِھَذِہٖ الرَّحْمَۃ کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے ایک حصہ رحمت کے ساتھ 99 حصوں کو مکمل کریں گے‘‘۔ (بخاری: 6469، مسلم:2753)۔ 
لوگو! انتہائی غور طلب اور فکر طلب بات ہے کہ جو دنیا میں دی ہوئی ایک رحمت سے فائدہ اٹھائے گا‘ انسانیت پر رحم کرے گا‘ وہی قیامت کے دن 99 حصوں سے فائدہ اٹھائے گا۔ جو یہاں اپنے حصے کی رحمت کو استعمال کرنے سے محروم ہو گیا وہ قیامت کے دن 99 حصوں سے محروم ہو جائے گا۔ جس نے ماں کی بے لوث محبت کا جواب ادب اور رحمت سے نہ دیا‘ باپ کو عزت و تکریم دینے سے محروم ہو گیا‘ بھائیوں، بہنوں کے حقوق کا غاصب بن گیا‘ دوسروں پر ظلم کرنے لگ گیا‘ جس پر وہ ظلم کرنے لگ گیا ہے آخر وہ بھی کسی ماں کا بیٹا‘ کسی ماں کی بیٹی ہے‘ وہ دوسروں کی مائوں کی بددعائیں لے کر اپنی ماں کے سینے کو کیسے ٹھنڈا کرے گا؟ اپنے خالق کی رحمتوں سے حصہ کیسے لے گا؟ بالکل بھی نہیں! کچھ نہ لے سکے گا، راندۂ درگاہ بنے گا۔
اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب کہتی ہے کہ اے انسان! تجھے تیری ماں نو ماہ تک پیٹ میں اٹھائے پھرتی رہی پھر دو سال تک دودھ پلایا۔ اسے جھڑکنا تو دور کی بات اس کے سامنے اُف بھی نہ کرنا اور پھر جو ولادت کا ٹائم تھا وہ تو زندگی اور موت کے درمیان کشمکش کا ٹائم تھا۔ اللہ اللہ! یہ ماں کی نعمت تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو دی ہے۔ کون ہے جو ماں کا حق ادا کر سکتا ہے؟ حضرت بہز بن حکیمؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص حضورﷺ کے پاس آیا۔ کہنے لگا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں کس کے ساتھ اچھا سلوک کروں؟ فرمایا! ماں کے ساتھ۔ پھر پوچھنے لگا: اس کے بعد؟ فرمایا: ماں کے ساتھ۔ تیسری بار پوچھا! اس کے بعد۔ فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔ چوتھی بار پوچھا تو حضورﷺ نے فرمایا: باپ کے ساتھ۔ (ترمذی: 1897 سندہٗ حسن، ابن ماجہ: 3658 سندہٗ صحیح) جی ہاں! تین بار ماں اور ایک بار باپ یعنی ماں کا مقام باپ سے تین گنا بڑھ کر ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک بندہ اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا کہ مجھ سے ایک عظیم گناہ صادر ہو گیا ہے‘ کیا کوئی توبہ کی صورت ہے؟ حضورﷺ نے پوچھا: کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ کہنے لگا: جی نہیں! فرمایا: کیا تیری کوئی خالہ موجود ہے؟ کہنے لگا: جی ہاں۔ فرمایا: جا‘ اس کی خدمت کر لے۔ (ترمذی: 1904، سندہٗ صحیح)۔ 
لوگو! وہ عورت کہ جس کا دودھ پیا ہو‘ اسے رضاعی ماں کہتے ہیں۔ یعنی ایک سگی ماں، دوسری دودھ والی ماں، تیری خالہ کہ وہ بھی ماں کے مقام پر ہے۔ اللہ اللہ! اسلام میں ماں کی سہیلیوں کے اکرام کی وصیت کی گئی ہے کہ ماں نہیں ہے تو ماں سے متعلق ماں جیسی عورتوں کا اکرام کر کے اللہ تعالیٰ کی محبتوں کو حاصل کیا جا سکتا ہے، ماں کے لیے صدقہ جاریہ بنا جا سکتا ہے، پھوپھی اور ممانی وغیرہ سے اچھا سلوک کر کے ماں کو اگلے جہان میں تحفہ دیا جا سکتا ہے۔ اور ایک وہ بھی خوش قسمت ہے کہ جو مندرجہ بالا تحائف کے علاوہ ماں کی خدمت میں روزانہ کم از کم پانچ مرتبہ گفٹ بھیج سکتا ہے۔یہ پانچ نمازیں ہیں۔ پانچ فرض نمازوں کے فرائض۔ سنتیں، نوافل، وتر اور تہجد اس کے علاوہ ہیں وہ جب بھی تشہد میں بیٹھے گا۔ دوزانو ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے مؤدّب ہو کر بیٹھے گا تو اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض کرے گا، فردوس کے مالک سے گزارش کرے گا۔ اے اللہ! میرے ماں باپ کی مغفرت فرما دے۔ اللہ کے ہاں نماز قبول ہو گئی تو فوراً بچوں کا تحفہ ماں کو پہنچ جائے گا۔ وہ جنت میں ہے تو وہاں خوش ہو گی کہ اولاد متواتر تحائف بھیج رہی ہے۔ اگر تشہد میں آنسوئوں کے ساتھ تحفہ جائے گا تو اور گراں قدر ہو جائے گا ۔ جوں جوں اخلاص بڑھتا جائے گا‘ تحفے کی قیمت اور اس کا ریٹ اَپ ہوتا جائے گا۔ اللہ توفیق عطا فرمائے، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved