تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     28-11-2020

کون سا پتا باقی رہ گیا ہے ؟

یعنی جسے ہم مقتدرہ کہتے ہیں اُس کے پاس کون سا آپشن یا پتا کھیلنے کیلئے رہ گیا ہے۔ نیب کوتو آزما چکے اور اس آزمائش کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ نون لیگ اپنی جگہ پہ قائم ہے اور اس کی اصل قیادت ہرگز تائب نہیں ہوئی۔ تائب ہونے کے بجائے اصل قیادت، یعنی نوازشریف اوراُن کی بیٹی مریم نواز، بہت آگے کو نکل چکے ہیں۔ مقتدرہ کے زاویے سے شہباز شریف والا پتا بھی کسی کام کانہیں نکلا۔ بہت سارے نون لیگ کے لیڈر اور ممبران اسمبلی شہباز شریف کی مفاہمتی لائن کو پسند کرتے ہوں گے لیکن نون لیگ کی لائن وہ ہے جس کی تشریح نوازشریف اوراُن کی بیٹی‘ کررہے ہیں۔ سیاسی میدان میں پھر ہمارے کرتا دھرتائوں کے پاس کون سا آپشن رہ جاتا ہے؟
پرابلم کرتا دھرتائوں کا کسی اور سے نہیں نون لیگ سے ہے۔ نئے تشکیل پانے والے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں جان پڑی ہے تو نون لیگ کی وجہ سے۔ جو باتیں اب نوازشریف کررہے ہیں وہ محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمن اور پشتون لیڈر محسن داوڑ جیسے لوگ پہلے بھی کررہے تھے‘ لیکن ان باتوں میں اثر پڑاہے تو نوازشریف کی وجہ سے۔ چھوٹے صوبوں والے کچھ کہیں تو ریاستِ پاکستان میں اس کی ثانوی حیثیت ہی سمجھی جاتی ہے‘ لیکن اُن کی آواز میں پنجاب یا ایک اہم پنجابی رہنما کی آواز پڑ جائے تو بات کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔ ریاستی اداروں کو محسن داوڑ وغیرہ کی باتوں سے اتنی پریشانی نہیں ہوتی۔ ان جیسے عناصر سے آزمودہ طریقوں سے نمٹا جاسکتاہے۔ لیکن موجودہ سیاسی صورتحال میں نئی کیفیت ہی یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پنجاب کی آواز شامل ہورہی ہے‘ اور ہماری بڑی قوتوں کیلئے یہی خطرے کی نشانی ہے۔ تو مقتدرہ کے نقطہ نگاہ سے اس صورتحال کا ممکنہ جواب کیا بن سکتا ہے؟
سیاسی میدان میں نون لیگ کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف نے کیا۔ نوازشریف بطور وزیراعظم فارغ بھی ہوئے اور پچھلے الیکشنوں کے نتیجے میں جنابِ عمران خان وزیراعظم بن گئے‘لیکن ان پچھلے دو سالوں میں سیاسی صورتحال بدل چکی ہے۔ اپنی کارکردگی کی بنا پہ پی ٹی آئی اور عمران خان کی سیاسی ساکھ بُری طرح متاثر ہورہی ہے یا یوں کہیے کہ متاثر ہو چکی ہے۔ اب تو ان کے اپنے سپورٹر منہ چھپائے پھرتے ہیں کیونکہ حکومتی کارکردگی کو دیکھ کے ان کے پاس کہنے کو کچھ رہا نہیں۔ پی ٹی آئی کے برعکس نون لیگ کا ستارا‘ جو لگتا تھا کہ مدھم ہو گیا ہے اب اُس میں نئی روشنی آنے لگی ہے۔ کارکردگی کی وجہ سے پی ٹی آئی تو پریشر میں ہے ہی لیکن جو نئی زبان پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سنی جا رہی ہے اس کی وجہ سے کرتا دھرتا بھی پریشر میں آرہے ہیں۔ بنیادی تنقید کا نشانہ وہ بن رہے ہیں اور نہ صرف اُن کے حال بلکہ ماضی کے کردار پہ بھی تنقید کے گولے برس رہے ہیں‘ ایسے وقت‘ جب پاکستان مختلف خطرات کی زَد میں آیا ہوا ہے۔ ہندوستان سے کشیدگی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے اس کشیدگی نے مستقبل قریب میں ختم نہیں ہونا۔ چلیں ہندوستان کے ساتھ ہمارا دیرینہ مسئلہ ہے اور اس کے حوالے سے کشیدگی کوئی نئی بات نہیں‘ لیکن مغربی سرحدوں پہ شورش کے آثار پھر نمایاں ہو رہے ہیں۔ ہماری سکیورٹی فورسز پہ کئی حملے ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان کی صورتحال کسی لحاظ سے بھی تسلی بخش نہیں۔ وہاں بھی مختلف مقامات پہ شورش کے آثار دیکھنے میں آئے ہیں۔ 
اس صورتحال کا تقاضا تھا کہ قوم کی اپروچ میں کوئی دراڑ نہ آئے اورکم از کم بنیادی نوعیت کے قومی مسائل پہ تمام سیاسی پارٹیاں اور اہم قومی ادارے ایک ہی ساتھ کھڑے ہوں‘ لیکن ایک تو سیاسی نفاق‘ جو جمہوریت میں ایک قدرتی امر ہے‘ زیادہ زور پکڑ چکا ہے‘ اور دوم سیاسی اُفق کے ایک حصے سے اداروں پہ سخت تنقید ہو رہی ہے۔ اس صورتحال میں جلد کسی تبدیلی کی اُمید نہیں رکھی جا سکتی۔
پی ٹی آئی کی کمزور حکومتی کارکردگی کی وجہ سے خاص طور پہ پنجاب میں ایک سیاسی خلا کی صورت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ پنجاب کے سیاسی میدان میں تو دو فیکٹر رہ گئے تھے، ایک پی ٹی آئی، دوسرا نون لیگ‘ لیکن پی ٹی آئی کے نیچے جاتے ہوئے گراف کی وجہ سے نون لیگ کا مؤثر مقابلہ کرنے کیلئے پنجاب میں کچھ رہا نہیں۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مقتدرہ کے لوگ بھی اس صورتحال سے پریشان ہوں گے کیونکہ موجودہ بندوبست کو سہارے دینے میں اُن کا اہم کردار ہے؛ البتہ ایک نئی چیز پیدا ہورہی ہے۔ پیپلز پارٹی کا سیاسی امیج بہتر ہو رہا ہے۔ کچھ تو اس لئے کہ آصف علی زرداری اپنی صحت اور متعدد مقدمات کی وجہ سے بیک فٹ پہ چلے گئے ہیں‘ اورکچھ اس لئے کہ بلاول زرداری مؤثر لیڈر ثابت ہو رہے ہیں۔ ابھی تک انہیں بہت کچھ سیکھنا ہے لیکن اتنا تو نظر آرہاہے کہ شروعات اچھی ہیں۔ 
نون لیگ اور پیپلزپارٹی وقتی طور پہ اور وقتی مصلحتوں کے تحت نزدیک آسکتی ہیں لیکن اِن کا بنیادی تضاد کبھی دور نہیں ہو سکتا۔ جنرل مشرف ہوں تو چارٹر آف ڈیموکریسی پہ دستخط ہو سکتے ہیں‘ موجودہ صورتحال ہو تو پی ڈی ایم جیسا اتحاد تشکیل پا سکتا ہے‘ لیکن سیاسی صورتحال نارمل ہو تو نون لیگ اپنی جگہ پہ کھڑی ہو گی اور پی پی پی اپنی جگہ پہ۔ اب بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جس قسم کی تنقید ریاستی اداروں پہ نوازشریف کررہے ہیں اُس قسم کی زبان بلاول زرداری استعمال نہیں کر رہے۔ کل اگر الیکشن کا سٹیج سجے تو دونوں جماعتیں مدِ مقابل ہوں گی‘ لیکن پنجاب میں سیاسی خلا پیدا ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کیلئے ایک نیا موقع بن رہاہے۔ پچھلے الیکشنوں میں تو پیپلزپارٹی پِٹ کے رہ گئی تھی کیونکہ نون لیگ کے مخالف عناصر پی ٹی آئی کی طرف چلے گئے تھے‘ لیکن اب الیکشن ہوتے ہیں تو کوئی احمق ہی پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے پیچھے دوڑے گا۔ صورتحال ایسی بن چکی ہے کہ اگلے الیکشن میں امیدواروں کی کوشش ہوگی کہ اُن پہ پی ٹی آئی کا دھبہ کسی حوالے سے بھی نہ لگے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے‘ مہنگائی سے مارے لوگ اپنا ووٹ کہیں بھی ڈالیں پی ٹی آئی کے حق میں شاید ہی ڈالیں‘ لیکن سارا پنجاب نون لیگ کا تو ہے نہیں۔ نون مخالف عناصر پھر پناہ اور عافیت کس چھتری تلے ڈھونڈیں گے؟
پچھلے الیکشن کے وقت جو لوگ پیپلز پارٹی چھوڑ کے پی ٹی آئی کی طرف گئے تھے وہ اب پچھتا نہ رہے ہوںگے؟ پی پی پی سے بھاگے اس لئے تھے کہ پی پی پی کا ٹکٹ شکست کی ضمانت بن چکا تھا لیکن اب تویوں لگتاہے کہ آئندہ الیکشنوں میں، جب بھی ہوئے، شکست کی مکمل ضمانت پی ٹی آئی کی ٹکٹ کی صورت میں ہوگی۔ جولوگ پی پی پی کو چھوڑ کے پی ٹی آئی میں گئے اُنہیں ملا کیا؟ پیپلزپارٹی میں تھے تو پارٹی کے دائرے میں رہ کے عزت تو تھی۔ عمران خان کامیابیوں کے بادشاہ ہوتے تو پھر اور بات تھی‘ پیپلزپارٹی سے گئے ہوئے عناصر کہتے کہ ہمارا فیصلہ درست تھا‘ لیکن اس حکومت کے کام دیکھ کے اندر ہی اندر سینہ کوبی نہ کر رہے ہوں گے؟ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے لوگ بہتر نہیں رہے؟ پچھلے الیکشن میں سیٹیں بھی اپنی ہار گئے لیکن سینے میں ندامت تو نہ ہو گی۔ جہاں کھڑے تھے وہیں کھڑے ہیں‘ اور اگلے الیکشنوں میں خیال کیا جا سکتا ہے کہ ان کی قسمت ایک بار پھر بدلے۔ 
آنے والے دنوں میں پنجاب کی ایک لیڈر تو واضح ہیں، مریم نواز۔ دوسرا لیڈر بننے کے آثار بلاول زرداری کے ہو سکتے ہیں۔ بھاری دل سے کہیں پھر بھی کہنا پڑتا ہے کہ پی ٹی آئی کا کھاتہ ختم ہوتا ہوا لگتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved