تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     28-11-2020

تعلیم اور صنفی عدم مساوات

اکیسویں صدی کو علم اور مقابلے کی صدی کہا جاتا ہے ۔اس صدی میں وہی قوم کامیاب ہوگی جس کے افراد تعلیم یافتہ اور ان مہارتوں سے لیس ہوں گے‘ جو اکیسویں صدی میں کامیابی کے لیے درکار ہیں۔UNDPکی 2019ء کی رپورٹ میں 189ممالک کے ڈویلپمنٹ انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 152اور ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس ویلیو 0.562ہے۔ یاد رہے کہ اس انڈیکس میں ''1‘‘ سب سے زیادہ ویلیو شمار کی جاتی ہے۔ اس فہرست میں سری لنکا 71‘مالدیپ 104‘ بھارت 129‘ بھوٹان 134‘بنگلہ دیش 135 اور نیپال 147نمبر کے ساتھ پاکستان پر سبقت رکھتے ہیں۔ صر ف افغانستان کا نمبر پاکستان کے بعد آتا ہے۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ 2018ء کی ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 150تھا ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وقت کے ساتھ پاکستان کی کارکردگی بہتر ہوتی اور ممالک کی فہرست میں بلند درجے پر آجاتا لیکن اس کے برعکس دو درجے نیچے‘ 152نمبر پر آگیا ہے۔ پاکستان اس لحاظ سے ایک خوش قسمت ملک ہے کہ اس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ‘اگر ان نوجوانوں کو تعلیم اور تربیت کے مواقع میسر آئیں تو ملکی ترقی میں یہ ہر اول دستے کا کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اس کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اگر ان نوجوانوں کو مناسب تعلیم کے مواقع میسرنہ آئیں تو یہ ملکی ترقی کے سفر میں ایک بوجھ بن سکتے ہیں۔
پاکستان کی تعلیمی صورتحال پر نگاہ ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے اڑھائی کروڑ بچے ایسے ہیں جنہیں سکول کی دہلیز تک پہنچنا نصیب نہیں ہوتا۔ ہمارے تعلیمی منظر نامے کا ایک اہم پہلو وہ صنفی عدم مساوات ہے جو ہمیں زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح تعلیم میں بھی نظر آتی ہے۔قیامِ پاکستان کے وقت خواندگی کی شرح تقریباً 15فیصد تھی ‘جس میں لڑکیوں کی خواندگی کی شرح بہت کم تھی۔ لڑکیوں کے تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جانے میں سماجی‘ مذہبی‘نفسیاتی اور سکیورٹی کی وجوہات شامل ہیں۔ادھر اقوامِ متحدہ کا Sustainable Goal 4کوالٹی ایجوکیشن ہے‘جس کے مطابق سب کو تعلیم کے مساوی مواقع ملنے چاہئیں۔اگر ہم70برس پہلے کے معاشرے پر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر بہت کم توجہ دی جاتی تھی۔ اس کی سماجی وجہ معاشرے میں عورتوں کے بارے میں ایک فرض کردہ تصور تھا جس کے مطابق عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے اور امورِ خانہ داری ہی اس کا فرضِ منصبی ہے۔مذہبی حوالے سے یہ مناسب سمجھا جاتا تھا کہ لڑکیوں کو عام تعلیم کے بجائے گھر ہی میں مذہبی تعلیم دی جائے۔اس کا ممکنہ معاشی پہلو یہ تھا کہ والدین یہ خیال کرتے تھے لڑکوں کو تعلیم دینے کے بعد ان کی ملازمت ہوگی تو سرمایہ کاری کا Returnوصول ہو جائے گا جبکہ لڑکیوں کی تعلیم کی صورت میں ان کی شادی کے بعد Returnکا تصور ختم ہو جاتاہے۔اس کی ایک اور ممکنہ وجہ ایک عام خیال تھا کہ لڑکیوں نے کون سی ملازمت کرنی ہے‘ اس لیے انہیں تعلیم دینے کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر تعلیم دی بھی جائے تو ابتدائی مذہبی یا پھر پرائمری تعلیم ہی کافی ہے۔یوں خواتین‘ جو ہماری آبادی کا نصف سے بھی زیادہ تھیں‘ملکی ترقی کے عمل میں لاتعلق ہو گئی تھیں۔لڑکیوں کو سکول نہ بھیجنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لڑکیوں کے سکولوں کی تعداد کم تھی اور گھروں سے سکولوں کا فاصلہ زیادہ تھا یوں لڑکیوں کا ہر روز گھر سے سکول آنا جانا غیر محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح بہت سے سکول ایسے تھے جن کی چہاردیواری نہیں تھی ‘نہ ہی وہاں واش رومز کی سہولت تھی۔ایک اوربڑی وجہ جس سے والدین اپنی بچیوں کو سکول بھیجنے سے کتراتے تھے وہ مخلوط تعلیم (Co-education) تھی۔لڑکیوں کے علیحدہ سکول نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں اور لڑکوں کو ایک ہی سکول میں پڑھنا پڑتا تھا‘ایسے میں بہت سے والدین اپنی بچیوں کو ایسے سکولوں میں بھیجنے سے کتراتے تھے جہاں مرد اساتذہ پڑھاتے تھے۔اس مسئلے کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی تھا کہ تجربہ کار خواتین اساتذہ کی شدید کمی تھی۔تعلیمی پالیسیوں کی سفارشات پر عمل کرنے کے راستے میں معاشی اور افرادی وسائل کی کمی تھی۔لڑکیوں کی سکولوں تک رسائی ایک چیلنج تھا لیکن اس کا ایک اور اہم پہلو تعلیم کا معیار تھا ۔خواندگی عام کرنے کے لیے حکومتی سطح پر محلہ سکول‘مسجد مکتب ‘نئی روشنی سکول جیسے اقدامات کیے گئے جن کے ذریعے خواندگی کے اعدادوشمار میں تو اضافہ ہوا لیکن معیار پر ایک سوالیہ نشان رہا ۔اسی طرح خواتین اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے لیے خواتین اساتذہ کی ملازمت کی شرائط کو نرم کیا گیا۔ یوں تعداد میں اضافے کی خاطر معیار پر سمجھوتہ کر لیا گیا۔
1947ء سے لے کر آج تک معاشرے میں تعلیم ِ نسواں کے حوالے سے آگاہی نظر آتی ہے اور والدین عمومی طور پر اپنی بچیوں کی تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں۔پاکستان کی تعلیمی پالیسیوں پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1947ء سے لے کر ہر نئی آنے والی تعلیمی پالیسی میں تعلیم ِ نسواں پر زور دیا گیا اور اس کے لیے مختلف خوش آئند اقدامات کا اعادہ کیا گیا ‘لیکن ان پر عمل کا وقت آیا تو بہت سے سہانے خواب بکھر گئے ۔پچھلے کچھ عشروں سے تعلیمی عمل میں ابھی تک لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان تعلیمی فرق قائم ہے۔2019-20ء PSLMسروے کے مطابق پاکستان کی شرح خواندگی 60فیصدہے جس میں 71 فیصد مرد اور 49فیصد خواتین ہیں۔ اگر صوبوں میں خواندگی کی شرح کا جائزہ لیا جائے تو لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح میں فرق نظر آتا ہے مثلاً پنجاب میں مردوں اور عورتوں کی شرحِ خواندگی بالترتیب 73فیصد اور 57فیصدہے۔ سندھ میں 68فیصداور 44 فیصد‘ خیبر پختونخوا میں 76فیصداور 40فیصداور بلوچستان میں 54فیصداور 24فیصدہے۔اسی طرح پرائمری ‘مڈل اور میٹرک کی سطح پر داخلے کی شرح میں بھی عدم مساوات پائی جاتی ہے ۔یہ فرق خیبر پختونخوا ‘سندھ اور بلوچستان کے صوبوں میں نسبتاً زیادہ ہے۔اس سے جڑ ا ہوا ایک اور چیلنج یہ ہے کہ سکول تک پہنچنے والے بہت سے بچے پانچویں جماعت تک نہیں پہنچ پاتے اور سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ PSLMکے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 30فیصدبچے پرائمری کلاس مکمل کرنے سے پہلے ڈراپ آؤٹ ہو جاتے ہیں جن میں 25فیصدلڑکے اور 36فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں۔ صوبوں میں بھی ڈراپ آؤٹ لڑکیوں کی شرح لڑکوں کی نسبت زیادہ ہے۔تازہ ترین جنڈر پیریٹی انڈیکس (Gender Parity Index) کے مطابق پاکستان کا سکور 0.69ہے۔ اس انڈیکس میں اس کا سکور مساوات کو ظاہر کرتا ہے۔یوں اگر ہم 1947ء سے لے کر اب کی صورتحال کا جائزہ لیں تو تعلیم نسواں کے حوالے سے ہم نے ایک طویل سفر طے کیا ہے لیکن اب بھی صورتحال مثالی نہیں۔ اب بھی حکومتی اور سماجی سطح پر ان علاقوں میں تعلیم نسواں کے حوالے سے اقدامات کی ضرورت ہے جہاں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔اگرچہ پچھلے کچھ عرصے سے لڑکیوں میں تعلیم کے حوالے سے صورتحال بہتر ہوئی لیکن اسی تناسب سے ملک کی لیبر فورس میں خواتین کی Visibilityبہت کم ہے ۔اکثر لڑکیاں اعلیٰ پروفیشنل تعلیم حاصل کرتی ہیں اور پھر سماجی رسم ورواج کے آگے بے بس ہو کر ملازمت نہیں کر سکتیں۔ یہی وہ پہلو ہے جس پر حکومت اور ہمیں بطورِ معاشرہ سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہی تعلیم یافتہ خواتین جب مردوں کے شانہ بشانہ ملکی ترقی کے ہراول دستے کا حصہ بنیں گی تو ہم اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم زیادہ مستعد اور پُر اعتماد ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved