ایک طرف ایسا لگتا ہے کہ موضوعات کا ہجوم ہے اور کسی ایک موضوع کو منتخب کرکے اس پر لکھنا مشکل ہے۔ مگر دوسری طرف ایک احساس یہ بھی ہے کہ جیسے ہربات کسی پرانی بات ہی کا تسلسل ہے۔ ہرموضوع باسی ہے، ہرخیال شکستہ اور خستہ حال ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم لکھنے والے روزانہ ہی پرانے خیالات کی جگالی کرنے پر مجبور ہیں۔ کوئی تازہ خیال، کوئی روشن منظر کبھی دکھائی بھی دے تو حادثوں اور سانحوں کی دھند ایسی چھاتی ہے کہ پھر سب آئینے دھندلا جاتے ہیں۔ نئی حکومتیں بن چکیں، نئے عزم اور نئے ارادے بھی اپنی جگہ موجود ہیں مگر حالات کی ستم ظریفی وہی ہے، کراچی، کوئٹہ، پشاور میں وہی آگ اور لہوکا کھیل جاری ہے، وہی بے گناہوں کے لاشوں پر ان کے پیاروں کے بین ہیں۔ گلی گلی مقتل کا منظر تو پیش کرتی ہے مگر دست قاتل کہیں دکھائی نہیںدیتا۔ ابھی بانی پاکستان کی یادوں کو اجاڑنے کا سیاہ منظر دل کو دھواں دھواں کررہا تھا کہ اسی روز ظالموں نے علم کی راہ میں جانے والی معصوم ، بے گناہ طالبات کی بس میں خودکش دھماکہ کرکے چودہ گھروں کی بیٹیوں کو شہید کردیا۔ چودہ گھر ماتم زدہ ہوگئے۔ کتنی ہی طالبات ظلم کی آگ میں جھلس گئیں۔ چشم تصور سے دیکھیں کہ ان کے چہرے کیسے کومل اور صبیح تھے، آنکھیں کتنی اُجلی اور روشن تھیں، وہ آنکھیں جو راکھ ہوئیں ان میں کیسے کیسے سنہرے خواب بسیرا کیے ہوئے تھے، کیسے کیسے چاند چہرے شعلوں کی نذر ہوگئے۔ ایسا ظلم ہوا کہ اس پر مذمت کرنے کو لفظ نہیں۔ یہ صرف طالبات کا قتل نہیں، خوابوں، امیدوںکا قتل ہے ۔ اس سانحے سے بچ جانے والی طالبات کی نفسیات اب کتنی بدل چکی ہوگی۔ کوئٹہ تو عرصہ دراز سے دہشت گردی کا شکارہے۔ ایسے میں ان عظیم طالبات کا خوف اور خطرے کی پروا کیے بغیر اپنے گھروں سے تحصیل علم کے لیے روز نکلنا ایک جہاد تھا۔ اور وہ علم کی اس راہ میں شہید ہوگئیں۔ ملالہ یوسفزئی کے لیے پوری دنیا سے تحسین وتعریف کی بارش ہوئی۔ انعامات، ایوارڈز عطا ہوئے۔ ان طالبات کا جذبہ کسی طوربھی ملالہ یوسف زئی سے کم نہ تھا، یونیورسٹی میں ہی کم ازکم ان کی یاد میں کوئی چیئرقائم کردی جائے۔ ان کے پورٹریٹ آویزاں کر دئیے جائیں ۔ ان کی یاد کو، علم کے حصول کے لیے ان کے جذبے کو سلام پیش کیا جانا چاہیے۔ اس سانحے کی وجہ سے آج بھی کوئٹہ کی فضا سوگوار ہے۔ افسوسناک بات ہے کہ ایسے گھنائونے واقعات کا تسلسل ٹوٹتا ہی نہیں۔ ابھی کل مردان میں نماز جنازہ پڑھنے کے لیے آنے والوں پر خودکش حملہ ہوا اور چند ہی منٹوں میں جولوگ زندہ سلامت نماز جنازہ پڑھنے آئے تھے، ان کی میتیں جنازے کی صورت رکھی تھیں۔ سنگدلی کی انتہا ہے کہ اب جنازوں پر بھی خودکش حملے ہونے لگے ہیں۔ چودھری نثار ملک کے نئے وزیرداخلہ ہیں ، ان کے بیانات آئے۔ پھر صوبائی حکومتوں کی طرف دہشت گردی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ خبروں، ٹی وی تبصروں اور کالموں میں ان سانحات پر اظہار خیال ہوا۔ انہی پرانے خیالات کی جگالی اور خود اس وقت میرا قلم بھی تو کوئی نئی بات کہنے سے قاصر ہے کیونکہ قبریں نئی ضرور ہیں مگر دکھ تو وہی پرانا ہے اور بعض اوقات ایسے میں قلم رک جاتا ہے، لفظ ختم ہوجاتے ہیں۔ ایک چپ، ایک سکتہ، ایک گہری خاموشی فضا پر طاری ہوجاتی ہیں۔ یوں کبھی کبھی اس گہری خاموشی کو، کوئی دکھ بانٹتی نظم توڑتی ہے اور دل کی اداسی کو سمجھتا ہوا، کسی دوست جیسا کوئی اچھا شعر، خاموشی میں آواز بن جاتا ہے۔ ایسی ہی کسی کیفیت میں، میں نے اختر حسین جعفری کی نظمیں پڑھیں تو لگا کہ یہ نظمیں اس چپ کا اظہار کررہی ہیں جو پے درپے حادثات نے ہمارے اوپر طاری کردی ہے۔ سوباسی لفظوں اور باسی خیالات کی مزید جگالی کرنے سے بہتر ہے کہ آپ سے بھی ایسی ہی کچھ دوست نما نظموں کو شیئر کرلیاجائے، اختر حسین جعفری کی ایک نظم ہے ’’پیام جتنے صبانے دیے غلط نکلے‘‘ پیام جتنے صبا نے دیے غلط نکلے کہا جو موجۂ آب رواں نے جھوٹ کہا سفر کا رنج وہی، زیرپا زمین وہی وہی فلک جوکھڑے پانیوں میں دیکھ چکے وہ ہفت رنگ ستارہ اس آسماں میں نہیں وہ پھول حلقۂ دام ہوا سے آگے ہے دنوں کی شاخ برہنہ، شبوں کی زلف تہی سنا گئی تھی ہوا کس وصال کی باتیں دکھا رہی ہے زمین کس فراق کا چہرہ! کہا جو موجۂ آب رواں نے جھوٹ کہا اور ایک اورنظم کے چند مصرعے مرے بدن پہ ہے معزول درد کی خلعت مری مژہ پہ غم مسترد کا اشکِ نگوں قریب آکے وہ مسند تجھے دکھائوں میں کہ جس کے گرد شبِ حیلہ جو کی زرد سپہ مجھی سے میرے لہو کا حساب مانگتی ہے وطن اور اہل وطن پر اترنے والی ایسے ہی دکھ بھرے شب وروز میں میرے اندر کی گہری اداسی نے ان شعروں کا پیرہن اوڑھ لیا تھا بے انت خامشی میں کہیں اک صدا تو ہے ماتم ہوائے شہر نے اب کے کیا تو ہے بے چہرہ لوگ ہیں کہیں بے عکس آئینے!! گلیوں میں رقص کرتی ہوئی بددعا تو ہے کاغذ کی نائو بپھرے ہوئے پانیوں کے بیچ اس پہ یہ رخ ہوا کا اسے بھی پتہ تو ہے جب تک حالات کی صورت نہیں بدلے گی، ہم لکھنے والے بھی شاید اس جرم کا ارتکاب کرتے رہیں کہ نئے دکھوں پر پرانے نوحے بلند کریں اور چند باسی آنسو بہاکر سوچیں کہ قرض اور فرض ادا ہوگیا اس لیے کہ بقول اختر حسین جعفری۔ سفر کا رنج وہی۔ زیرپازمین وہی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved