تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     28-11-2020

علامہ خادم حسین رضوی رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ(1966ئ۔2020ئ)

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمﷺ کے سچے محب، پاسبانِ ختم نبوت، محافظِ ناموسِ رسالت، مجاہدِ حرمتِ مقدّساتِ دین علامہ خادم حسین رضوی آن بان اور شان کے ساتھ جیے اور اُس سے بھی بڑی شان کے ساتھ عازمِ سفرِ آخرت ہوئے۔ جیے تو لبرلز کے سینے پر مونگ دلتے رہے، اُن کے دلوں میں چبھتے رہے، آنکھوں میں کھٹکتے رہے اور سفرِ آخرت پر چلے تو سب کو شرمسار کرگئے۔ سارے لبرلز زندگی میں انہیں کوستے رہے، دل کی بھڑاس نکالتے رہے، اپنی دانست میں اُنکے وڈیو کلپ نکال نکال کر عوام کے دلوں میں اُن کے وقار کو کم کرنے کی سعی کرتے رہے، لیکن اُن کی وفات کے بعد وہی لوگ عوام کے دلوں میں اُن کی بے پناہ محبت کے مظاہر دیکھ کر عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے، فیضؔ نے شاید انہی کیلئے کہا تھا:
مرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو 
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکا دیا 
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے 
رہِ یار ہم نے قدم قدم، تجھے یادگار بنا دیا 
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو 
کہ غرورِ عشق کا بانکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا 
چونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمﷺ کی بارگاہ میں حضوری کے سفر پر جارہے تھے، اس لیے غرورِ عشق کا بانکپن نہیں تھا بلکہ بندگی کا عَجز تھا، غلامی کی تواضع تھی، اپنے آقا کے حضور نیاز بھی اور اُن کی رحمت پر ناز بھی تھا۔ سر پر دستار سجی تھی، لبوں پر ہلکی سی تبسم کی کیفیت تھی۔ لوگوں کو گلہ رہتاتھا کہ علامہ خادم حسین رضوی کے چہرے پر ہمیشہ کرختگی اور غیظ وغضب کی کیفیت طاری رہتی ہے، یہ کیفیت دراصل گستاخانِ رسول کے لیے تھی، دشمنانِ دین کے لیے تھی، اُن کا چہرہ اُن کی قلبی کیفیات کا آئینہ دار تھا، ظاہر وباطن ایک تھا، اُن کی عقائد ونظریات میں منافقت، ریا اورباطل سے مفاہمت کا شائبہ تک نہ تھا۔ دنیا والوں سے بے پروا رہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّمﷺ سے لَو لگائے رہے، اُن کے ناقدین کو کیا خبر کہ انہوں نے اپنا تبسّم کسی اور مرحلے کے لیے بچا رکھا تھا، کسی نے کیا خوب کہا ہے: 
نشانِ مردِ مومن با تو گویم 
چوں مرگ آید، تبسّم بر لبِ اُوست
ترجمہ: ''اے مخاطَب! تجھے مردِ مومن کی نشانی بتاتا ہوں، جب موت کا وقت آتا ہے تو اُس کے لبوں پر تبسم آمیز کیفیت ہوتی ہے‘‘۔
علامہ یحییٰ بن شرف الدین نووی نے لکھا ہے:''رِبْعِی بِن حِرَاش جلیل القدر تابعی تھے، دوسری صدی ہجری کے اوائل میں اُن کا وصال ہوا، زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا، انہوں نے قسم کھارکھی تھی کہ اپنا انجام معلوم ہونے تک ہنسیں گے نہیں، سو زندگی بھر نہ ہنسے، مگرجب وفات پائی تواُن کی میت کو غسل دینے والے نے کہا: ''وہ مسلسل اپنے تخت پرمسکراتے رہے اور ہم انہیں غسل دیتے رہے اور یہ کیفیت آخر تک جاری رہی، اُن کی اس کیفیت کو دیکھ کر اُن کے بھائی ربیع نے بھی ایسی ہی قسم کھائی اور ایسی ہی قابلِ رشک موت انہیں نصیب ہوئی‘‘ (شرح النووی علیٰ مسلم، ج:1، ص: 66)۔ مولانا آسی غازی پوری نے کہا تھا: 
اب تو پھولے نہ سمائیں گے کفن میں آسیؔ
ہے شبِ گور بھی، اُس گُل سے ملاقات کی رات 
امام احمد رضا قادری نے بحرِ عشقِ مصطفیﷺ کی گہرائیوں میں ڈوب کر کہا:
جان تو جاتے ہی جائے گی، قیامت یہ ہے
کہ یہاں مرنے پہ ٹھہرا ہے نظارہ تیرا
تجھ سے در، در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے، دُور کا ڈورا تیرا
اس نشانی کے جو سگ ہیں، نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹّا تیرا
ہماری یہ باتیں دیوانوں کی باتیں ہیں، عقل کے پرستاراسے نہ پڑھیں، اُن کی صحت پر شاید اچھا اثر مرتب نہ ہو۔ حال ہی میں ایک یوٹیوب چینل کے لیے ایک انٹرویو میں مجھ سے سوال ہوا:''علامہ خادم حسین رضوی کے بارے میں کہا جاتا ہے : یہ پلانٹڈ تھے، اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں‘‘، میں نے جواب میں عرض کیا: ''پلانٹڈ کے معنی ہیں: کسی کا کاشت کیا ہوا پودا، کسی کی جانب سے اپنے ایجنڈے پر لانچ کیا ہوا فرد، الغرض ہمارے ہاں بدگمانی اور بدنیتی کا شعار عام ہے، سو میرا سوال یہ ہے :اگر علامہ خادم حسین رضوی جیسے شاہکار کسی ٹکسال میں ڈھلتے ہیں یا کسی ادارے کی جانب سے پلانٹ کیے جاتے ہیں، تو آپ کی مشینیں اور ٹکسال بند تو نہیں ہوگئے، ایسا کوئی شاہکار دوسرا پیدا کرکے دکھائیے اورپھر اسے ملک کے اندر اور بیرونِ ملک کروڑوں انسانوں کے دلوں میں بٹھاکر دکھادیجیے، ہم آپ کی کرامت یا کرشماتی کمال کو تسلیم کرلیں گے، مسیحائی اور مُردوں میں جان ڈالنے کا معجزہ اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو اور اس سے بھی آگے بے جان میں جان ڈالنے کا اعجاز خاتَمُ النَّبِیّٖن سیدنا محمد رسول اللہﷺ کو عطا فرمایا تھا‘‘۔ البتہ اگر ہم نادانوں کی بات پر کسی کو یقین آتا ہو تو ہمارا ایمان ہے: ایسے اشخاص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمﷺ کی جانب سے اپنے نوامیسِ مقدّسہ اور اپنے دین کی حفاظت کے لیے وقتاً فوقتاً بھیجے جاتے رہے ہیں اور بھیجے جاتے رہیں گے۔ میری نظر میں علامہ خادم حسین رضوی ایسے اشخاص میں سے ایک تھے جو روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
مفتی عابد مبارک راوی ہیں:''علامہ خادم حسین رضوی کے جواں عمر صاحبزادے اورتحریک لبیک کے نومنتخب امیر حافظ سعد حسین رضوی نے بتایا: علامہ صاحب اپنے وصال سے کچھ پہلے کافی دیر تک اپنے تمام تر ہوش وحواس کے قائم رہتے ہوئے اُن سے باتیں کرتے رہے، اُس وقت انہیں شدید بخار تھا۔ سعد حسین رضوی بیان کرتے ہیں: میں نے باتوں کے دوران کہا: ابا جی! ہم دونوں خاموشی سے مدینۂ منورہ چلے جاتے ہیں، انہوں نے پنجابی میں اپنے فرزند سے کہا:جھلّیا !(دیوانے) تینوں ہوش اے، میں کس منھ دے نال حضور دی بارگاہ وِچ جانواں گا، جے میں زندہ آں تے حضور دی گستاخیاں ہوریاں نیں‘‘۔ پھر باپ نے بیٹے سے کہا: ''میں تیری شادی دی تاریخ دسمبر وچ مقرر کردتّی اے، پر میں تیرا نکاح آپ نئیں پڑھانڑاں، میں کسی مولوی صاب کولوں پڑھاواں گا، اپنڑی ماں نو آکھیں: لفافہ بھاری جیا تیار کرکے رکھے‘‘ اور واقعی وہ اپنے بیٹے کا نکاح نہ پڑھاسکے، اُن کی پیشگوئی کے مطابق کوئی اور ہی پڑھائے گا۔ سعد بیان کرتے ہیں: ''پھر والد نے کہا: مجھے رضائی اوڑھادو اور بتی بند کردو، اتنے میں انہوں نے جھرجھری لی، چہرہ قبلے کی طرف ڈھلک گیا اور روح پرواز کرگئی، فَاِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطٰی وُکُلٌّ شَیْیئٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمّٰی۔انہوں نے خود اپنے ایک خطاب کے دوران کہا: 
جب روح میرے پیراہنِ خاکی سے نکلے
تو روضے سے آواز آئی: ''او میرا فقیر آیا‘‘
علامہ خادم حسین رضوی، مولانا محمد علی جوہر کے اس شعر کا مصداق تھے:
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ د عالم سے خفا میرے لیے ہے
انہوں نے اپنے ایک خطاب میں معترضین کو جواب دیتے ہوئے کہا: ''منافق کسی حال میں راضی نہیں ہوتا، مولوی حق کے لیے نہ نکلے تو کہتے ہیں: ''حرام خورہوگیا‘‘اور نکلے تو کہتے ہیں:''حلوہ خطرے میں پڑ گیا‘‘اور جب کامیابی ملتی ہے تو کہتے ہیں: ''اکیس کروڑ روپے لے لیے‘‘۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی ساری متاعِ زیست بارگاہِ رسالت میں لاکرپیش کردی، تومنافقین نے اسے ریاکاری سے تعبیر کیا اور حضرت ابوعقیل انصاریؓ شب بھر مزدوری کر کے دو کلو لے کر آئے تومنافقین نے کہا:اللہ کو اس حقیر صدقے کی کوئی حاجت نہیں ہے‘‘، آگے پتا چل جائے گا:
ہم سوئے حشر چلیں گے شہِ ابرار کے ساتھ
قافلہ ہو گا رواں قافلۂ سالار کے ساتھ
یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے ورنہ
کون روتا ہے لپٹ کر در و دیوار کے ساتھ
میں نے اُن کے سِوُم کی محفلِ ایصال ثواب میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا تھا: ''علامہ خادم حسین رضوی دنیاوی رشتوں کے حوالے سے میرے کچھ نہیں تھے، لیکن دینی رشتے کے حوالے سے میرا سب کچھ تھے، میں تحریک لبیک پاکستان کا کبھی رکن نہیں رہا، مگر امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی اپنی تحریک سمیت میرے قلب میں رچے بسے رہے...میں آج لاکھوں انسانوں کو گواہ بناکر اللہ اور اس کے رسولؐ کی بارگاہ میں شہادت دیتا ہوں کہ خادم حسین رضوی نے اپنی بساط کے مطابق حسینی کردار کو زندہ کیا، نوجوانوں کے دلوں میں، انگ انگ میں، رُوئیں رُوئیں، ہر بُنِ مُو اورہر قطرۂ خون میں عشقِ مصطفیﷺ کو کُوٹ کر بھردیااورایک ایسا روحانی کرنٹ دوڑادیاکہ آنسو گیس کے گولوں کا ڈھیر بھی اُن کے عزم کو نہ توڑ سکا اور اُن کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی‘‘۔
علامہ صاحب پر ایک نکتہ چینی ان کے بعض ریمارکس کے بارے میں ہوتی تھی، جن کے بارے میں اُن کا کہنا تھا: ''میرے پاس قرآن وحدیث سے منکرین ومنحرفین کے بارے میں جواز کے دلائل موجود ہیں‘‘، میں نے ایک ملاقات میں ان سے عرض کیا:یہ دلائل ہمارے اکابر کے پاس بھی تھے، لیکن انہوں نے مخالفین کے بارے میں کبھی ایسا اندازِ بیاں اختیار نہیں کیا، چنانچہ2018ء کے دھرنوں کے بعد انہوں نے یہ اندازِ بیاں ترک کردیا، میں نے رب کریم کا اوران کا شکرادا کیا، مخالفین اب بھی وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا سے ایسی باتیں نکال کر لے آتے ہیں، مگر شریعت کا حکم یہ ہے کہ کسی کی وفات کے بعد اس کاذکر صرف اچھے اوصاف کے ساتھ کرنا چاہیے، کردار کی پاکیزگی کے لیے اتنا ہی ثبوت کافی ہے کہ اس مردِ درویش نے، جس پر لوگ ہزاروں لاکھوں روپے نچھاور کرتے تھے، مسجد کے تین مرلے کے مکان میں ساری زندگی گزاری اور رب کی رضا پر راضی رہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved