جناب مراد سعید ان نوجوان وفاقی وزیروں میں سے ہیں جن کا نام آئے دن کسی نہ کسی معرکے کی تفصیل کے ساتھ اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنتا رہتا ہے۔ عموماً یہ جنگ و جدل قومی اسمبلی کے ایوان میں، سوشل میڈیا پر یا پریس کانفرنسوں کے میدانوں میں ہوتی ہے۔ مراد سعید کو سنیں تو پتا چلتا ہے کہ جوش اور خروش دونوں اکٹھے ہو جائیں تو کیا بنتا ہے۔ اس زورِ بیان میں دلیل اور منطق زیادہ نہیں ڈھونڈنی چاہیے کیونکہ یہ دونوں موجود ہوں تو اس جارحانہ پن کی ضرورت ویسے بھی نہیں ہوتی۔ ان کا تاثر بہت سے لوگوں پر بہت اچھا بھی ہو گا لیکن اگر زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھ لیا جائے تو اس نقارچی کی بات اچھا منظر پیش نہیں کرتی۔ مراد سعید صاحب کی جھولی میں اس وقت وزارتِ مواصلات اور پوسٹل سروسز دونوں ہیں۔ وفاقی وزیر اور وزیر مملکت کے دو قلمدان ان کے ہاتھ میں ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ ان کا وزارت سے زیادہ دھیان سیاست پر ہے۔ کبل، سوات کا ایک خوبصورت، زرخیز اور ٹھنڈا علاقہ ہے۔ یہاں کے سیب بھی اپنی مٹھاس اور رسیلے پن کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ویسے تو کسی بھی انسان کے مزاج کی گرمی باہر کی خنکی کی کو داخل ہونے کا موقع بہت ہی کم دیتی ہے لیکن اس ٹھنڈے علاقے میں یہ گرم خو نوجوان پیدا ہونا تعجب خیز ضرور ہے اس لیے کہ سوات کے جتنے لوگوں سے اب تک واسطہ پڑا ہے، وہ میٹھے اور نرم خو ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ایوان کے باہر مگر عمارت کے اندر جناب مراد سعید کی وڈیوز بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اور مخالفین تو مخالفین‘ ان کی اپنی جماعت کے لوگ بھی ان کی تلوار کی زد میں رہتے ہیں۔
گزشتہ روز خبر ملی کہ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی ندیم افضل چن اور وزیر مواصلات مراد سعید کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔ لیجیے اخبار ہی کی زبان میں تفصیل سنیے۔ تلخ کلامی فیصل آباد پنڈی بھٹیاں موٹروے پر عوامی مشکلات کے مسئلے پر بحث کے دوران ہوئی۔ مراد سعید خود پر تنقید سنتے ہی آگ بگولا ہو گئے۔ ندیم افضل چن نے کہا کہ پنڈی بھٹیاں فیصل آباد ٹول پلازا پر بدانتظامی کے باعث عوام کو گھنٹوں ذلیل ہونا پڑتا ہے۔ گاڑیوں کے رش کے باعث عوام تکلیف میں ہیں۔ مراد سعید نے کہا کہ ندیم افضل چن صاحب! جس بات کا علم نہ ہو‘ اس پر ریمارکس مت دیں۔ ندیم افضل چن نے کہا: بھائی میں خود یہ دیکھ کر آیا ہوں، یہ سنی سنائی بات نہیں ہے۔ آپ اپنے پر تنقید برداشت نہیں کر سکتے۔ بجائے معاملے کو حل کرنے کے آپ مجھے ہی غلط کہہ رہے ہیں۔ ندیم افضل چن نے کہا کہ آپ اپنے الفاظ واپس لیں۔ وزیراعظم نے دونوں کو خاموش کروا دیا اور مراد سعید کو عوامی مسئلہ ختم کرنے کی ہدایت کی۔
خیر! ہمارا ان کی مزاج کی تندی یا شعلہ گفتاری سے براہِ راست تعلق نہ سہی لیکن وزارتوں کی کارکردگی سے تو ہے۔ وہ محکمہ ڈاک کے وزیر ہیں اور میں اس محکمے سے بہت دُکھا بیٹھا ہوں۔ ابھی اگست 2020ء میں مراد سعید صاحب نے وزارتِ مواصلات کی دو سالہ کارکردگی کی رپورٹ جاری کی ہے اور بہت سے اقدامات گنوائے ہیں جو اس دورانیے میں وزارت نے کیے ہیں۔ مجھے دو سالہ کارکردگی کی کوئی رپورٹ پوسٹل سروسز کے بارے میں نہیں ملی البتہ 2019ء میں پوسٹل سروسز کے ڈائریکٹر جنرل کا وہ بیان پڑھنے کا موقع ضرور ملا تھا جس میں انہوں نے بہتری کیلئے کیے گئے اقدامات کی تفصیل اور پوسٹل سروسز کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا تھا۔ اس پر بھی ایک تبصرہ ضروری ہے لیکن پہلے یہ بات کہ کیا ہمیں اس محکمے کی تاریخ اور اہمیت کا اندازہ ہے؟
ویسے تو نامہ بری کا انتظام انگریزوں سے بہت پہلے مسلمان حکمرانوں نے بہت بہتر انداز میں بنا رکھا تھا۔ اور اس کی وجوہات ان کی انتظامی، سیاسی اور دفاعی ضروریات تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ شیرشاہ سوری کے زمانے میں پشاور سے ایک تیز رفتار نامہ بر چلتا تو تیسرے دن وہ خط کلکتہ پہنچ جاتا تھا۔ یہی معاملہ مغل دور حکومت میں بھی رہا۔ غالبؔ تک آتے آتے نامہ بر کی حیثیت وہ ہوچکی تھی جو ان کے اس شعر میں ہے ؎
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے
انگریزوں نے اس نظام کو مزید مستحکم کیا اور نامہ بر اور چٹھی رساں گیتوں اور کہانیوں میں بھی پہنچ گیا۔ ہم نے نامہ بر کو ایک رومان کی آنکھ سے دیکھا اور یہ تاثر اب تک قائم ہے لیکن عملی صورتِ حال میں ذرا سی بھی رومانیت نہیں ہے۔ ایک ناشر و تاجر کتب، ایک کتب بین اور ایک عام شہری کی حیثیات سے میرا تعلق ڈاک خانوں سے کم و بیش پینتالیس سال سے مسلسل ہے۔ پینتالیس سال پہلے کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب نہ یہ پرائیوٹ کوریئر سروسز تھیں، نہ انٹرنیٹ، نہ کمپیوٹر، نہ موبائل اور نہ سوشل میڈیا۔ خطوط اور چٹھیاں ہی رابطے کا بہترین ذریعہ تھیں کیونکہ ٹیلیفون بھی کم کم تھے اور کال بھی مہنگی تھی۔ کتابیں اور دیگر ضروری اشیا خواہ وہ رجسٹری کے ذریعے بھیجی جانی ہوں یا وی پی پی (ویلیو پے ایبل پارسل) کے ذریعے‘ ڈاک خانہ ہی واحد اور محفوظ ترین طریقہ تھا۔ چنانچہ ان پیکٹوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتی تھی۔ میں یہ پیکٹ اٹھا کر اور کبھی سائیکل پر رکھ کر لاہور کے مرکزی ڈاک خانے جی پی او میں پہنچتا تو وہاں کاؤنٹرز پر قطاریں لگی ہوتی تھیں۔ اور ایک ایک شخص کے پاس بعض اوقات سینکڑوں کے حساب سے لفافے اور پیکٹ ہوتے تھے۔ وجہ یہ کہ سرکاری دفاتر، بینک، نجی کاروبار، بڑے ادارے سبھی کی اہم اشیا کی ترسیل کا بہت بڑا راستہ یہی تھا۔ ایسا بھی بہت بار ہوا کرتا تھا کہ گھنٹوں کے حساب سے وقت لگا لیکن باری پھر بھی نہیں آئی۔ دوبارہ جانا پڑا۔ ڈاک خانوں کا انتظام اس وقت بھی بہت تسلی بخش نہیں تھا لیکن اس دور کے وسائل کبھی کم تھے اور ڈاک بروقت ملتی تھی۔ جتنا ہجوم ڈاک خانوں پر ہوتا تھا اور جتنے پیکٹ اور پارسل انہیں ادھر سے ادھر بھیجنے پڑتے تھے اسے دیکھا جائے تو اب محسوس ہوتا ہے کہ ڈاک خانے کا نظام آج سے بہت بہتر تھا۔ لاہور سے کراچی بھیجا جانے والا خط زیادہ سے زیادہ تیسرے دن مل جاتا تھا۔ اسی طرح وی پی پی اور منی آرڈر کی رقم‘ خواہ وہ کسی دور دراز علاقے سے بھیج گئی ہو‘ ایک ہفتے کے اندر پہنچ جاتی تھی۔
پھر ایک سیلاب کی طرح جیسے کسی بند کی دیوار توڑ کر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا دھارا نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جو چٹھی دنوں اور ہفتوں میں مکتوب الیہ تک پہنچتی تھی‘ وہ سیکنڈوں میں پہنچنے لگی۔ انٹرنیٹ کے ہاتھ پھیلنے لگے اور خطوں، رجسٹرڈ پوسٹ کی تعداد گھٹنے لگی۔ چند سال ہی گزرے تھے کہ موبائل نامی ایک جن نمودار ہوا جو ہر ایک کی جیب میں ہر وقت موجود تھا اور ایک ٹچ پر حاضر ہو جایا کرتا تھا۔ اسی کے ساتھ پرائیویٹ کوریئرز کی دنیا نے جنم لیا۔ نت نئے نام سننے میں آنے لگے۔کچھ کوریئرز تو بین الاقوامی سطح پر اتنے بڑے تھے کہ کوریئر کا لفظ سنتے ہی ان کا نام ذہن میں روشن ہو جاتا تھا۔ ڈاک خانوں کی قطاریں پہلے کم ہوئیں پھر بالکل ختم۔ تبدیل شدہ دنیا کے معاملات اپنی جگہ اور بد دیانتی، کام چوری اور نااہلی کے مسائل اپنی جگہ۔ ڈاک خانے سنسان ہوگئے۔ ایسے میں کوئی ایسا نہ تھا جو اس بڑے اور اہم ادارے کو سنبھالتا اور بدلتی دنیا کے ساتھ خود کو بدلنے کی کوشش کرتا۔ ایک مسلسل خسارہ ہر سال پوسٹل سروسز کو درپیش تھا اور یہ خسارہ بڑھتا ہی جاتا تھا لیکن کون سا سرکاری ادارہ تھا جو اس خسارے سے باہر تھا۔ سب ایک ہی تھالی میں لڑھکتے بینگنوں کی طرح سجے تھے۔ مسلم لیگ نون کے سابقہ دور 2018ء تک یہی صورتحال تھی لیکن یہ بات پھر بھی تھی کہ لاہور سے کراچی رجسٹرڈ خط دوسرے ورنہ تیسرے دن لازماً مل جاتا تھا اور بسا اوقات دوسرے دن بھی۔ یہ مراد سعید صاحب کے قلم دان سنبھالنے کے وقت کی بات ہے۔ (جاری)