قوم وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تعلیمی ادارے بند نہ کرنے کے بیانات سے بڑی حد تک مطمئن تھی اور خیال تھا کہ اس بار تعلیمی ادارے بند نہیں ہوں گے اور مستقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت متاثر نہیں ہو گی، امتحانات بھی بروقت ہو جائیں گے اور نوجوان نسل کا سال ضائع ہونے سے بچنے کے ساتھ وہ منفی سرگرمیوں سے بھی محفوظ رہے گی۔ حکومت پہلے صرف معیشت اور کاروبار بچانے کی باتیں کیا کرتی تھی، کہا جاتا تھا کہ ہماری کمزور معیشت مکمل لاک ڈائون کی متحمل نہیں ہو سکتی، کاروبار بند کر کے لوگوں سے روزگار نہیں چھین سکتے، معیشت کا پہیہ جام نہیں کیا جا سکتا ورنہ لوگ کورونا سے بچ بھی گئے تو بھوک سے مر جائیں گے۔
وزیراعظم نے تعمیراتی شعبے کو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہوئے پہلے لاک ڈائون کے دوران بھی سب سے پہلے اس کی اجازت دی، کنسٹرکشن انڈسٹری کے لئے متعدد مراعات کا اعلان کیا گیا، پہلے پابندیاں نرم کی گئیں پھر مکمل طور پر اس شعبے کو کھول دیا گیا، مراعاتی پیکیج بھی دیے گئے، نجی شعبے کو بھی سرکاری سکیموں میں شامل کر لیا گیا اور متعدد نجی تعمیراتی منصوبوں کی سرکاری سطح پر تشہیر کی گئی جس سے یقینا لوگوں کی بڑی تعداد مستفید ہوئی۔
پہلے لاک ڈائون کے دوسرے مرحلے میں تمام کاروبار کھول دیے گئے، مختلف صنعتوں کو کئی اقسام کے ٹیکسوں میں رعایت دی گئی اور سبسڈی بھی دی گئی۔ آہستہ آہستہ کورونا ایس او پیز کو بالکل ہی پس پشت ڈال دیا گیا۔ اس پر سمارٹ لاک ڈائون کے تجربات کیے گئے جنہیں خاصا کامیاب سمجھ کر پوری دنیا میں اپنی اس کامیابی کو ایسے پیش کیا گیا جیسے ہم ترقی یافتہ ممالک کو پیچھے چھوڑ چکے ہوں۔ ان سطور کا مقصد قطعاً حکومت کے مذکورہ بالا اقدامات پر تنقید کرنا نہیں مگر اس سے غریب یا متوسط طبقے میں یہی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ حکومت میں اہم اور بااختیار پالیسی ساز عہدوں پر ایسے لوگ براجمان ہیں جن کی سوچ صرف صنعت کاروں، سرمایہ داروں، جاگیر داروں اوربڑے زمینداروں کے کاموں تک ہی محدودہے، انہیں عام آدمی کے مسائل، تکالیف اور مشکلات سے نہ توکوئی غرض ہے اور نہ ہی ان کا کوئی اندازہ۔ جنہوں نے یہ بالکل بھی نہ سوچا کہ لاک ڈائون کے بعد صنعتی و کاروباری شعبہ تو بحال ہو ہی جائے گا لیکن چھ مہینے بے روزگار رہنے والا غریب قرض کی دلدل سے کیسے نکلے گا؟ حکومت نے لاک ڈائون سے متاثرہ عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دیا تو صرف صنعتی اورکاروباری شعبے کو ہی تین ماہ کے بلوں میں چھوٹ دی گئی جبکہ لاک ڈائون کے باعث کئی ماہ سے بیروزگار اور فاقہ کشی کے شکار غریبوں کو صرف بل کی اقساط کرانے کا آپشن دیا گیا جس کی وجہ سے کئی لوگ آج تک یوٹیلٹی بلوں کے چکر سے ہی نہیں نکل سکے ہیں کیونکہ حکومت نے ٹیرف میں اضافہ کر کے عام آدمی کے بوجھ میں اضافہ کر دیا۔ ان سارے مراحل میں تعلیم اورکھیل کے شعبوں پر سب سے آخر میں توجہ دی گئی حالانکہ قوم کے نونہالوں اور شاہینوں کا مستقبل انہی دو شعبوں سے وابستہ ہے۔
ہم نے دیکھا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران جب مکمل لاک ڈائون تھا، تعلیمی اداروں اور کھیل کے میدانوں کو تالے لگے ہوئے تھے تو قوم کا مستقبل‘ نوجوان طبقہ منفی سرگرمیوں کی جانب زیادہ راغب ہوا، کسی نے اپنا قیمتی وقت ٹِک ٹاک میں ضائع کر دیا تو کئی نشے کی لت میں مبتلا ہو گیا، مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پسنے والے طبقے کے بعض نوجوان چوری، ڈکیتی، راہزنی اور دیگر سٹریٹ کرائم میں ملوث پائے گئے۔ گھریلو لڑائی جھگڑوں کی شکایات میں اضافہ ہوا حتیٰ کہ اسی دورانیے میں زیادتی کے واقعات میں بھی خطرناک حد تک تیزی دیکھی گئی۔ ٹِک ٹاک اور سوشل میڈیا کا مشغلہ بھی کئی قیمتی جانوں کو نگل گیا جبکہ خودکشی کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
غرض ہر طرح کی منفی سرگرمیاں بڑھ گئیں، پھر جب تعلیمی ادارے کھل گئے اورکھیلوں کے میدان آباد ہوئے تو نوجوان نسل دوبارہ مثبت سرگرمیوں میں مشغول ہو گئی، اقبال کے شاہین صبح سکول، کالج یا یونیورسٹی جاتے تو شام کو سپورٹس کمپلیکس اور گرائونڈز میں موجود ہوتے جس سے ایک بار پھر روشن مستقبل کی امید بیدار ہوئی۔ حکومت اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی کاوشوں سے ملک میں ڈومیسٹک کرکٹ کی بحالی کے ساتھ زمبابوے کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا کامیاب دورہ مکمل کیا، پاکستان سپر لیگ پانچویں ایڈیشن کے باقی ماندہ میچز کا کامیابی سے انعقاد ہوا اور آج کل خواتین کا قومی سہ فریقی ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ راولپنڈی میں بھرپور جوش و جذبے سے جاری ہے۔پاکستان ہاکی فیڈریشن نے قومی سینئر ہاکی چمپئن شپ کا انعقاد کیا، راولپنڈی میں گرینڈ میراتھن کے بعد سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام ونٹر سپورٹس گالا جاری ہے، پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں کھیلوں کے مقابلے کرانے اور نوجوان نسل کو اپنی صلاحیتوں کے مثبت اظہار کے لئے بھرپور مواقع فراہم کرنے کااعلان کر رکھاہے جو بہت حوصلہ افزا ہے۔
کورونا وائرس کی دوسری لہر شروع ہوئی‘ جس کی شدت پہلے سے ہی متوقع تھی‘ تو قوم کو ان بیانات نے بڑا حوصلہ دیا کہ ہم تعلیمی ادارے اورکھیل کے میدان بند نہیں کریں گے بلکہ جن اداروں میں کورونا کے زیادہ کیسز سامنے آئیں گے‘ صرف انہیں بند کیا جائے گا جبکہ ایس او پیز پر عمل پیرا ہو کر کرکٹ کی طرح دیگر کھیلوں کے میدان بھی آباد رکھیں گے لیکن بعدازاں کورونا کیسز میں ریکارڈ اضافے کے پیشِ نظر حکومت کو تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔اس وقت ملک بھر میں کورونا کے تیز تر وار جاری ہیں اور گزشتہ 24گھنٹوں میں 40سے زائد افراد کورونا کے سبب موت کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ روزانہ نئے کیسز کی تعداد اب تین ہزار سے بھی بڑھ چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور نیوزی لینڈ میں موجود قومی کرکٹ ٹیم کے 6کھلاڑی بھی اس وقت کورونا سے نبرد آزما ہیں۔کورونا کے دوسری لہر کی شدت‘ جو پہلی کی نسبت زیادہ خطرناک ہے‘ کے پیشِ نظر حکومت نے تعلیمی ادارے بند کرنے کا اقدام کیا اور یہ فیصلہ ہوا ہے کہ ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے چھبیس نومبر سے چوبیس دسمبر تک آن لائن تعلیم دیں گے اور پچیس دسمبر سے دس جنوری تک موسم سرما کی تعطیلات ہوں گی۔
تعلیمی ادارے تو بند ہو چکے ہیں لیکن اب ہم نے بہر صورت کھیل کے میدانوں کو کھلا رکھنے کے لیے کاوشیں کرنی ہیں اور نوجوان نسل کو دوبارہ منفی سرگرمیوں کی جانب مائل نہیں ہونے دینا۔ اس کیلئے صرف وزیراعظم عمران خان ہی کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ وہ خود بھی ایک کھلاڑی ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ قومی و بین الاقوامی سطح پر کورونا ایس او پیز پرعمل کرتے ہوئے کرکٹ، فٹ بال اور دیگر کھیلوں کے مقابلے کامیابی سے جاری ہیں۔ کھلاڑی خود بھی نظم و ضبط کے پابند ہوتے ہیں اور کھیل کے شعبے میں ایس او پیز پرعمل درآمد آسان ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کھیلوں میں بھی صرف شیڈول مقابلے مکمل کرا کے باقی کھیل بند کر دیے جائیں۔ اب یہ وزیراعظم صاحب کی ذمہ داری ہے کہ کھیل کے میدان بند ہونے سے بچائیں تاکہ قوم کا مستقبل منفی سرگرمیوں سے بچ سکے ۔