تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     29-11-2020

کورونا، حکومت، اپوزیشن اور عوام

ملک میں کورونا کی پہلی لہر کے دوران ہونے والے انتہائی کم جانی نقصانات میں حکومتی اقدامات کا اتنا ہی دخل تھا جتنا چینی کی قیمت کے پچاس روپے سے سو روپے کلو تک چلے جانے میں تھا۔ کورونا بھی حکومتی دخل اندازی کے بغیر کنٹرول ہو گیا تھا اور چینی کی قیمت بھی کسی قسم کی حکومتی دخل اندازی کے بغیر دوگنا ہو گئی تھی۔ کورونا اللہ کی رحمت سے کم ہوا اور چینی کی قیمت بے لگام مافیا کی منہ زوری کے طفیل زیادہ ہو گئی‘ حکومت مکمل طور پر سوئی رہی تھی۔ اب بعد میں حکومت جو مرضی دعویٰ کرتی پھرے‘ حقیقت یہی تھی۔
اب کورونا کی دوسری لہر آ چکی ہے۔ یہ بات تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے کہ ایسی وبا کی دوسری لہر پہلی لہر سے کہیں زیادہ شدید ہوتی ہے اور اس کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ عملی اقدامات کی ضرورت کے ساتھ ساتھ عوام کی جانب سے احتیاطی تدابیر پر زیادہ سختی سے عمل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے‘ لیکن ہر دو اطراف سے اپنی اپنی ذمہ داری سے جس طرح پہلوتہی کی جا رہی ہے اس کی کہیں مثال ملنا ممکن نہیں۔ غیرذمہ داری اپنے عروج پر ہے اور وبا کی دوسری لہر اتنی شدت اور ہلاکت خیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے کہ اللہ ہی اپنا رحم کرے۔ گزشتہ چند روز میں کئی دوست اس جان لیوا وبا کا شکار ہوکر اتنی جلدی اور آناً فاناً جدا ہوئے کہ ابھی تک ان کی رخصتی کا یقین نہیں آرہا۔
ہمارے بزرگ دوست اور مہربان سید حسن رضا گردیزی مرحوم کے اکلوتے فرزند اور نہایت ہی نفیس انسان سید حیدر عباس گردیزی اس جہان فانی سے کورونا کی ہلاکت خیزی کا شکا ہوکر رخصت ہوگئے۔ ان کے والد ملتان کے نامور شاعر تھے اور انہوں نے ایک عہدکو متاثر کیا تھا۔ ان کے بیٹے سید حیدر گردیزی نہایت ہی صاحب علم دانشور تھے اور دھیمے لہجے میں علمی گفتگو کرکے مخاطب کو اپنا گرویدہ بنا لینے میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن رہے اور سیاسی طور پر بہت زیادہ متحرک ہونے کے باوجود مروت اور رواداری کی ایسی مثال تھے کہ آج کی سیاسی افراتفری میں ان جیسے لوگوں کا دم غنیمت تھا جو کسی صورت میں بھی شائستگی اور اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے۔ اس بے مہر زمانے میں ایسے لوگوں کی رخصتی دوہرے المیے سے کم نہیں۔
اسی دوران میرے زمانہ طالبعلمی کے دوست، ایمرسن کالج میں میرے جونیئر اور کالج کی سٹوڈنٹس یونین کے سابقہ جوائنٹ سیکرٹری عبدالرحمان قریشی رخصت ہوگئے۔ دھیمے مزاج کے ملنسار عبدالرحمان قریشی نے اس جہان فانی سے جاتے ہوئے اتنی جلدی کی کہ ابھی تک اس کی موت کا یقین نہیں آ رہا۔ کسی نے شاید ایسے ہی موقع کیلئے یہ شعرکہا تھا: 
ایک ایک کرکے لوگ بچھڑتے چلے گئے
یہ کیا ہوا کہ وقفہ ماتم نہیں ملا
ابھی عبدالرحمان قریشی کے صدمے کی شدت میں کمی نہیں آئی تھی کہ ملتان کے نامور صحافی اور ہمارے بزرگ دوست مرحوم عاشق علی فرخ کے جواں سال صحافی بیٹے آصف علی فرخ کی اس جہان فانی سے رخصتی کی خبر مل گئی۔ گزشتہ اڑھائی عشروں سے صحافت سے وابستہ آصف علی فرخ اپنے مرحوم والد کی طرح اعلیٰ صحافتی قدروں کے امین تھے۔ ان کے والد گرامی روزنامہ ایکسپریس کے ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر رہے اور ان کے بعد آصف علی فرخ بھی یہی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ اس وبا کے دنوں میں روزانہ کسی واٹس ایپ گروپ پر کسی دوست کے رخصت ہونے کی خبر ملتی ہے۔ بے اعتبار زندگی ان دنوں تو اتنی بے اعتبار ہو گئی ہے کہ برادرم ایاز امیر کی مانند کئی بار سوچا کہ اب چھوڑنے کیلئے کافی کے علاوہ ہمارے اور تو کچھ نہیں لہٰذا وصیت ہی لکھ چھوڑیں۔ کیا خبر کہ یہ لکھنے کی بھی مہلت ملے یا نہ ملے۔
کورونا کی دوسری لہر اپنی تمام تر ہلاکت خیزی کے ساتھ حملہ آور ہے اور حقیقتاً حکومت اس کو روکنے کے معاملے میں یعنی Preventive measures کے طور پر کچھ بھی نہیں کر رہی سوائے ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لیے بستروں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے۔ حفاظتی اقدامات کے معاملے میں حکومتی کارکردگی صفر بٹا صفر ہے۔ صورتحال کتنی خراب ہے اس کا کسی کو شاید درست ادراک ہی نہیں۔ ٹیسٹ اس طرح ہو ہی نہیں رہے کہ صحیح شماریاتی صورت ہمارے سامنے آئے۔ ملتان اور اردگرد کے سارے علاقوں کے لیے مظفر گڑھ میں ترکی کی جانب سے تعمیر کردہ طیب اردوان ہسپتال اور نشتر ہسپتال یعنی سرکاری سطح پر دو ہسپتال ہیں جو کورونا کے مریضوں کا علاج کررہے ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں بختاور امین ٹرسٹ ہسپتال واحد ہسپتال ہے جو اس وبا کے مریضوں کو داخل کر رہا ہے۔ حکومتی احکامات کے ہوا میں پرزے اڑاتے ہوئے کسی ہسپتال نے کورونا کے مریضوں کے علاج کا نہ تو اہتمام کیا اور نہ ہی کوئی آئی سی یو ان کے لیے مختص کیا ہے۔ نشتر ہسپتال کے جن وارڈز کو میڈیکل وارڈز سے کورونا وارڈز میں تبدیل کیا گیا ہے ان کے مریضوں کے لیے اب علاج کی سرکاری سہولت جو پہلے ہی ناکافی تھی‘ مزید بری صورتحال میں چلی گئی ہے۔
حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں پوری طرح منافقت میں مبتلا ہیں۔ حکومت کے نزدیک کورونا کا پھیلائو صرف اور صرف پی ڈی ایم کے جلسوں سے ہو رہا ہے اور پی ڈی ایم کی قیادت کو اپنی جان کی حد تک کورونا خطرناک لگتا ہے‘ لیکن عوام کی جان کے حوالے سے ان کو رتی برابر فکر نہیں ہے۔ بختاور بھٹو زرداری کی منگنی کی رسم میں شرکت کی غرض سے بلاول ہائوس میں داخلے کے لیے کورونا کے نیگیٹو ہونے کا سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا گیا‘ اس کے بغیر کوئی شخص بلاول ہائوس میں داخل نہیں ہو سکا؛ تاہم جلسوں کے سلسلے میں کیونکہ عام آدمی کی زندگی کا سوال ہے اس لیے پی ڈی ایم کی قیادت اس معاملے میں ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ 
دوسری طرف حکومت سارا زور پی ڈی ایم کے جلسوں کو مؤخر کروانے میں لگا رہی ہے جبکہ کسی جگہ کسی قسم کے ایس او پیز کی پابندی نہیں ہو رہی۔ نہ کوئی ماسک استعمال کر رہا ہے اور نہ ہی سماجی فاصلے کی پابندی ہو رہی ہے۔ ملتان کے جن علاقوں میں سمارٹ لاک ڈائون کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا‘ میں بذات خود وہاں گیا تو دیکھا کہ وہاں کسی قسم کی نہ کوئی پابندی تھی اور نہ ہی کسی ضابطے پر عمل ہو رہا تھا۔ اوپر سے مذاق یہ ہے کہ جلسوں پر حکومتی پابندی کو ہوا میں اڑایا جا رہا ہے اور حکومت کو اپنی جگ ہنسائی سے کوئی غرض نہیں اور اس کی بھد اڑ رہی ہے۔ اگر حکومت اپنی اعلان کردہ پابندی پر عمل نہیں کروا سکتی توپھر ایسے اعلانات کیوں کررہی ہے؟ پشاور میں اپنے حکم کی رسوائی کے بعد اب ملتان میں جلسے پر پابندی لگا دی ہے۔ دوسری طرف جلسے کے انتظامات ہیں کہ زوروشور سے جاری ہیں۔ دکانوں اور مارکیٹوں کے بند ہونے کے اوقات پر کہیں کوئی عمل نہیں کررہا، اور حکومت کو اپنی رٹ، اپنی عزت اور اپنی ساکھ کی ٹکے کی فکر نہیں۔ لگتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز اس ملک میں موجود نہیں۔ صرف ایک وزیراعظم ہیں جن کا تکیہ کلام ہے کہ کسی کو این آر او نہیں دوں گا‘ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، مافیا کو لگام ڈالوں گا اور سب چوروں کی چیخیں نکلوائوں گا۔ ویسے تو ان اعلانات اور بیانات کے ساتھ بھی وہ کچھ ہو رہا ہے جو دیگر حکومتی اقدامات اور اعلانات کے ساتھ ہو رہا ہے لیکن ثابت قدم وزیراعظم اپنے بیانات اور اعلانات کے ٹکے ٹوکری ہونے پر ذرا بھی فکرمند نہیں، بالکل ویسے ہی جیسے عوام کی اکثریت کورونا کے بارے میں قطعاً فکرمند نہیں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved