فردوس عاشق عوان صاحبہ جب سے پنجاب کی مشیر اطلاعات بنی ہیں ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنا ایک مضبوط اور اچھا امیج پیش کر سکیں۔ پاکستان کی سیاست کے مشکل ترین میدان‘ پنجاب میں خود کو ریلیکس کھلاڑی کے طور پر پیش کرنے کے لئے وہ کبھی کرکٹ کھیلتی نظر آتی ہیں اور کبھی فٹ بال۔ ڈاکٹر صاحبہ بظاہر یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں کہ موجودہ ذمہ داری ان کے لئے ایک بازیچۂ اطفال ہے۔ وہ جب چاہیں گی مخالفین کو کلین بولڈ کر دیں گی اور جب چاہیں گی فٹ بال کی طرح ایک کک کے ساتھ ہوا میں گم کر دیں گی۔ مجھے بھی ان کی بطور مشیرِ اطلاعات اپوزیشن جماعتوں کو آڑے ہاتھوں لینے کی صلاحیت اور استعداد پر کوئی شک نہیں ہے۔ وہ اس کام کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ دو بار مرکز میں وہ ان ذمہ داریوں کو بہ احسن و خوبی نبھا چکی ہیں۔ وہ سامنے کھڑے مخالفین کے کشتوں کے پشتے لگا سکتی ہیں مگر کیا کریں ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ جڑا ہو، وہ کسی بھی عہدے پر فائز کیوں نہ ہوں، کچھ ہی دیر میں تنقید کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ نجی محفلوں میں تو وہ خود بھی یہ شکوہ کرتی ہیں کہ انہیں جب بھی تیر لگا‘ اپنی ہی کمین گاہ سے لگا۔ وہ ہر بار اپنے ہی دوستوں کے ہاتھوں گھائل ہوئیں۔ وہ خود تو ایک تگڑی کھلاڑی ہیں لیکن اب کی بار انہیں کمزور ٹیم کا دفاع کرنا پڑ رہا ہے۔ ویسے بھی وفاق کی نسبت پنجاب کی سیاست بہت گہری، پیچیدہ اور غیر متوقع ہے۔ تحریک انصاف کے موجودہ سیٹ اپ میں پنجاب کی سب سے ناقابل اعتبار وزارت اس وقت اطلاعات کی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس وزارت پہ آنے والا خود کو سب سے زیادہ غیر محفوظ سمجھتا ہے اور اس کے لیے وہ ہر وہ کام کرنے کو تیار ہوتا ہے جس کی توقع عام طور پر نہیں کی جاتی۔
سابق وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان بھی اسی روش کے ہاتھوں دو باریاں لے کر پویلین لوٹ چکے ہیں۔ اسی رویے کے ساتھ شہباز گل بھی زیادہ دیر تک اس وکٹ پر جم کر نہ کھیل سکے۔ اس لئے ان کا تبادلہ بنی گالہ کائونٹی میں کر دیا گیا لیکن وہ وہاں سے بھی کمنٹری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت پنجاب میں سب سے زیادہ کسی کو مانیٹر کیا جا رہا ہے تو وہ فردوس عاشق اعوان ہیں۔ اس پر سب سے زیادہ خوش وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہوں گے کہ چلو ان سے توجہ تو ہٹی۔ اپوزیشن جماعتوں کو اپنے کاٹ دار لہجے اور تیکھے جملوں سے آڑے ہاتھوں لیتے لیتے مشیر اطلاعات نے ایسی بات کہہ دی جو پنجاب کی روایات اور قدروں کے مطابق نہیں لگتی۔ پنجابی کا معروف قول ہے کہ ''دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے‘‘۔ میاں محمد نواز شریف کی والدہ بیگم شمیم اختر کی وفات کے بعد انصاف حکومت کی جانب سے جس رویے اور ردعمل کا اظہار کیا گیا‘ وہ مناسب نہ لگا۔ میرے خیال میں حکومت کو بیگم شمیم اختر کی میت، نماز جنازہ اور تدفین کو پی ڈی ایم کے جلسے، نوازشریف کی تقاریر اور مریم نواز کے بیانات سے الگ کرکے ڈیل کرنا چاہیے تھا۔ یہ نواز شریف فیملی کا انتہائی ذاتی معاملہ تھا‘ اس کے باوجود حکومت کی ذمہ داری انہیں سہولیات فراہم کرنا تھا۔ یہاں یہ بھی ہوا کہ نون لیگ کے ترجمانوں نے حکومتی عدم تعاون کی دہائی دی۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی پیرول پر رہائی پر جذباتیت دکھائی‘ لیکن ہمدردی اور اخلاقیات کے نام پر جو بیانات جاری کئے گئے وہ پنجاب کی روایات اور پاکستان کے سیاسی کلچر کے مطابق نہیں ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہورہا بلکہ اس سے قبل بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر بھی اسی طرح کا پروپیگنڈا کیا گیا تھا۔ اب جو کچھ کیا جا رہا ہے یہ اسی کا تسلسل لگتا ہے۔ یہ معاملہ صرف نون لیگ اور تحریک انصاف کا ہی نہیں کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوتے ہوئے سیاسی روایات اور ہمارے کلچر کو اس طرح سے سبوتاژ کرتی رہیں۔ اقتدار کی اس جنگ میں کسی کو بھی اتنا نیچے نہیں جانا چاہیے جس سے ہماری اخلاقی اور سماجی قدروں کی پامالی ہو۔ یہ ہمارا کلچر اور روایات ہیں کہ ہم غمزدہ خاندان کے ساتھ افسوس اور رواداری کے ساتھ پیش آتے ہیں‘ اور جب بھی ایسا موقع آتا ہے تو بڑی سے بڑی دشمنی کو بھی کچھ وقت کے لئے ''سیزفائر‘‘ کر دیا جاتا ہے۔ احتساب وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے اور ضرور ہونا چاہئے لیکن حکومت شاید احتساب اور انتقام میں فرق کی لائن کو کب کا عبور کر چکی ہے۔ ملتان پی ڈی ایم جلسے میں شرکت بھی مسلم لیگ ن کی قیادت کا ذاتی فیصلہ ہے۔ حکومت کسی طرح بھی انہیں اس جلسے شرکت سے روکنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ یہ کہنا کہ گھر میں میت رکھی ہے اور آپ سیاست کر رہے ہیں‘ مناسب نہیں لگتا۔ شریف فیملی یہ دونوں حق محفوظ رکھتی ہے کہ وہ اپنے مردے بھی دفنائے اور سیاسی جنگ بھی لڑے۔ اس موقع پر حکومت کے پاس خاموشی اختیار کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں؛ البتہ کورونا ایس او پیز کے تناظر میں انتظامی سطح پر لوگوں کو محفوظ بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسی پر بات ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ گفتگو بِلو دی بیلٹ (Below the belt) ہو گی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اخلاقیات سے عاری معاشرہ بنتے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن بھی عوامی تحفظ کی اتنی ہی ذمہ دار ہے جتنی کہ حکومت۔ پشاور جلسے کے بعد دو اہم رہنما چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور رہنما اے این پی ثمر بلور کورونا پازیٹو ہو کر خود کو کورنٹائین کرچکے ہیں۔ بلاول بھٹو اپنی بہن بختاور کی منگنی میں بھی شریک نہ ہو سکے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کیا آنگن میں طویل عرصے بعد خوشیوں کی بہار اتری۔ شومئی قسمت کہ بلاول خوشیوں کے یہ رنگ براہ راست نہ دیکھ سکے۔ عملی طور پر صرف آصفہ بھٹو اس فنکشن کی تنہا میزبان تھیں۔ شاید بی بی شہید کی روح بے بسی سے اس منظر کو دیکھتی ہوگی۔
30 نومبر کو پیپلز پارٹی نے اپنے یومِ تاسیس کے موقع پر پی ڈی ایم کے ملتان کے جلسے میں آصفہ بھٹو کو میدان عمل میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلاول بھٹو چونکہ کورنٹائین ہیں لہٰذا یہ نہایت درست موقع ہے۔ حالیہ دور میں پنجاب کے میدان میں پیپلز پارٹی کی جگہ بنانے کی یہ پانچویں کوشش ہو گی۔ اس سے قبل بلاول بھٹو کی چار کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکیں۔ اس بار امید کی جا رہی ہے کہ آصفہ بھٹو، جن سے خود بے نظیر بھٹو شہید کو بڑی امیدیں تھیں اور آصف زرداری بھی انہیں پیپلز پارٹی کی امید قرار دیتے ہیں، پارٹی کے ناراض اور بکھرے کارکنوں کو واپس لانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں پیپلزپارٹی کی حکمت عملی ہے کہ بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو ایک ٹیم بن کر کام کریں۔ آصفہ بھی بنیادی طور پر اپنے بڑے بھائی بلاول بھٹو کی سنٹر فارورڈ پوزیشن لینے کی خواہشمند نہیں ہیں‘ لیکن سیاست بڑی ظالم چیز ہے۔ وقت خود فیصلہ کر دیتا ہے کہ کون سنٹر فارورڈ بنے گا اور کون فل بیک پوزیشن پر کھیلے گا۔ اس وقت یہ خبر حکومت کیلئے اچھی نہیں۔ پیپلز پارٹی نے ایک مضبوط چہرہ پنجاب کے میدان میں اتار دیا ہے۔ عوام بی بی کی شکل آصفہ میں دیکھیں گے۔ ایک اور آواز جس کے لب و لہجے سے بے نظیربھٹو کی جھلک نظر آئے گی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ملتان جلسے اور پیپلزپارٹی کی اس موو کے بعد مشیر اطلاعات پنجاب کی مشکلات بڑھیں گی۔ انہیں پنجاب میں اب دو طاقتور سیاسی حریف خواتین مریم نواز اور آصفہ بھٹو کے سیاسی حملوں سے اپنی کمزور گورننس والی حکومت کو بچانا پڑے گا!