تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     29-11-2020

گیم ڈیویلپمنٹ سے پاکستان کی معاشی ترقی کیسے ممکن ہے؟

وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری صاحب نے کہا ہے کہ پاکستان نوے ارب ڈالر کی گیمنگ انڈسٹری میں داخل ہونے کو تیار ہے‘ حکومت پاکستان جلد ہی اینی میشن اور گیمنگ سرٹیفکیشن شروع کرنے والی ہے۔ فواد چوہدری صاحب ماضی میں بھی ٹیکنالوجی سے معیشت کو بہتر بنانے کے منصوبوں پر بات کرتے رہے ہیں اور کچھ منصوبے سامنے بھی لائے ہیں۔ اسی تناظر میں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں مثبت صورتحال سامنے آئے گی۔ مستقبل میں کیا ہو گا اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن پاکستان میں گیمنگ کی صنعت کو کس طرح پروموٹ کیا جا سکتا ہے اور ملکی معیشت کو کس طرح فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے‘ آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں گیمنگ ڈیویلپمنٹ کی طرف رجحان 2000ء میں سامنے آیا تھا۔ یہاں پہلے صرف گیمز کھیلی جاتی تھیں۔ اٹاری‘ ساگا‘ این ای ایس‘ پی سی ایس‘ کموڈورز نوجوانوں کی فیورٹ گیمز تھیں‘ لیکن جیسے ہی انٹرنیٹ اور موبائل فون ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی‘ پاکستان نے بھی اس میں قدم رکھ دیا۔ مقامی کیفے لوکل ایریا نیٹ ورک ٹیکنالوجی استعمال کر کے لوکل سٹرائیک اور ان رئیل ٹورنامنٹ جیسی گیمز کھیلنے کی سہولت فراہم کرتے تھے۔ ابتدائی کیفیز میں اسلام آباد میں ٹرینگو انٹریکٹو ‘ فورک پارٹیکل اور لاہور میں وائر فریم انٹریکٹو یہ سہولت مہیا کر رہے تھے۔ پاکستان انٹرنیشنل گیم ڈیویلپر ایسوسی ایشن کے مطابق 2019ء میں پاکستان میں ویڈیو گیمز ڈیویلپمنٹ کی سالانہ آمدن کم و بیش پچیس ملین ڈالرز ہے اور تقریباً آٹھ ہزار سے زیادہ پروفیشنلز اس شعبے سے وابستہ ہیں۔حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باوجود یہ اعداوشمار حوصلہ افزا ہیں۔ گیمنگ انڈسٹری سے کتنا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے‘ اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہ بتا دینا کافی ہے کہ پوری دنیا میں تقریباً اڑھائی ارب لوگ گیمز کھیلتے ہیں اور وہ ہر وقت اس انتظار میں رہتے ہیں کہ گیم کا ایڈوانس ورژن کب آ رہا ہے اور کون سی نئی گیم مارکیٹ میں آنے والی ہے ۔ فٹ بال کرکٹ سے پانچ گنا بڑی گیم ہے اور صرف پب جی فٹ بال سے پانچ گنا بڑی گیم سمجھی جاتی ہے۔
حکومت سرٹیفکیشن شروع کرنے جا رہی ہے جو کہ اچھی بات ہے‘ لیکن گیمنگ انڈسٹری سے حقیقی معاشی فائدہ اٹھانے کے لیے قابل عمل اقدامات کی ضرورت ہے۔پاکستان میں صلاحیت کی کمی نہیں ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ نوجوان ایسے آئیڈیاز لے کر آتے ہیں جو پوری دنیا پر اثر چھوڑ سکتے ہیں‘ لیکن وسائل کی کمی کے باعث کامیابی ممکن نہیں ہو پاتی۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی سٹارٹ اَپ وسائل کے بغیر نتائج نہیں دے سکتا۔جہاں تک ویڈیو گیمز ڈیویلپمنٹ کی بات ہے تو اسے سیکھنے اور نئی گیمز سامنے لانے کے لیے بجٹ درکار ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو نجی کمپنیاں ہی اچھا سپانسر کر دیتی ہیں‘ لیکن پاکستان میں محدود معیشت ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ حکومت سے گزارش ہے کہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کی مدد سے نئی گیمز بنانے کے لیے ایک بجٹ مختص کرے۔ جس کے ذریعے بچوں کو ڈیویلپمنٹ کی تربیت دلوائی جائے اور نئے آئیڈیاز پر کام کر کے دنیا کے سامنے ایسی گیمز متعارف کروائی جائیں جو کہ کمرشل بھی ہوں اور تمام معاشروں کے لیے قابلِ قبول بھی ہوں۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں بننے والی گیمز کو مقامی مارکیٹ کے لیے تیار کیا جاتا ہے‘ بالکل اس طرح جیسے پاکستان میں فلمیں پاکستانی مزاج کے مطابق بنائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مطلوبہ نتائج نہیں دے پاتیں۔ یہاں تک کہ پاکستانی گیم' سٹک کرکٹ‘ صرف کرکٹ کھیلنے والے ملکوں میں مشہور ہے اور باقی دنیا کے لیے اس میں دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہے۔ پاکستانی گیم ڈیویلپرز کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان کی گیمز ایک ایسا معیار متعین کریں جس کے پیچھے دنیا چل سکے اور جن سے متاثر ہو کر نئی گیمز بنائی جا سکیں۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب بین الاقوامی ناظرین اور سامعین کی دلچسپی کو مدنظر رکھ کر پروجیکٹ بنائے جائیں۔ جس کے لیے بین الاقوامی ڈیویلپرز اور کمپنیوں کے ساتھ تربیتی ورکشاپس کرنے کی ضرورت ہے۔ جس باقاعدگی سے حکومت سرکاری افسران کو تربیت کے لیے بیرون ملک بھجواتی ہے اسی طرح گیم ڈیویلپمنٹ کے بچوں کی بیرون ملک تربیت کا بندوبست کرنا بھی ضروری ہے۔ ماہرین کو پاکستان بلایا جا سکتا ہے۔ تمام بڑے شہروں میں تربیتی سیشن منعقد کروا کر بین الاقوامی طرز کی تربیت کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی گیمز میں اورجنیلٹی کی کمی ہوتی ہے۔ پہلے سے ڈیزائن شدہ گیمز کو بنیاد بنا کر نئی گیم تیار کر لی جاتی ہے۔ جس کا مکینکس‘ ڈیزائن اور تھیم پرانی گیم سے متاثر شدہ ہوتا ہے۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے نئے ٹیلنٹ کو موقع دینے کی ضرورت ہے۔نئی سوچ جدید بھی ہوتی ہے اور زیادہ پریکٹیکل بھی۔ نئے ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے لیے سرکاری سطح پر مقابلے کے امتحانات کروانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں گیمنگ انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے والدین کی سوچ کو بدلنا بھی ضروری ہے۔ جس معاشرے میں گیم کو وقت کا ضیاع سمجھا جاتا ہو وہاں بچوں کو اس کی تعلیم و تربیت کی طرف راغب کرنا اور اسے پروفیشنل کیرئیر کے طور پر منتخب کرنا ایک مشکل عمل ہے۔ پب جی کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ والدین نے حکومت سے شکایت کی کہ بچے پب جی کھیلنے میں زیادہ وقت صرف کرتے ہیں اسے بند کر دیا جائے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ حکومت نے پابندی بھی لگا دی۔ اس خبر نے پروفیشنلز کو نہ صرف پریشان کیا بلکہ گیمنگ کے حوالے سے کیرئیر شروع کرنے والے کئی بچوں کی حوصلہ شکنی بھی کی۔ گو کہ بعدازاں اس بندش کو ختم کر دیا گیا لیکن اس نے پاکستانی امیج کو مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی خراب کیا۔ گیمنگ کو فضول سمجھنے والے معاشروں اور حکومتوں میں فواد چوہدری کا گیمنگ سرٹیفکیشن شروع کرنا صحرا میں پانی کی پہلی بوند برسنے کے مترادف ہے۔ پاکستان فری لانسنگ میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے یعنی گرافکس ڈیزائننگ‘ ویب سائٹس ڈیویلپمنٹ‘ ویڈیو گرافی‘ کانٹینٹ رائٹنگ‘ ایس ای او سمیت سینکڑوں شعبوں میں دنیا کو گھر بیٹھے سروسز دے رہے ہیں اور کروڑوں ڈالرز پاکستانی معیشت میں شامل کر رہے ہیں۔ اگر ویڈیو گیمز ڈیویلپمنٹ کی طرف توجہ دی جائے تو ممکن ہے کہ پاکستان فری لانسنگ میں پہلے نمبر پر آ جائے‘ کیونکہ یہ سچ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں گیمز اور اینی مشنز بنانے والے لاکھوں ڈالر وصول کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں فری لانسنگ کے ذریعے وہی سروسزہزاروں ڈالرز میں دی جا سکتی ہیں۔
دنیا میں گیمز کو مشہور کروانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن مقامی کلچر کے مشہور کرداروں کو ہیرو بنا کر پوری دنیا میں پیش کرنا بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ بہت سے ملک اس اپروچ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں گیمنگ سیکٹر کو صنعت کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ اسے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اندر ہی ڈیل کیا جاتا ہے۔ گیمنگ کو باقاعدہ ایک صنعت بنانے سے اسے سرکاری سطح پر زیادہ توجہ مل سکے گی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر منسٹری بن بھی جائے تو پیسہ کہاں سے آئے گا؟ وہ اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اگر نجی سیکٹر گیمنگ کے حوالے سے بیرون ملک کوئی ایساسرکاری کام کرنا چاہتاہے جس میں سرکاری سطح پر پالیسی بنانے کی ضرورت ہو تو وہ کام فوراً کیاجاسکتا ہے۔ جدید دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے گیمنگ ڈیویلپمنٹ کو سکول اور کالج میں کورسز کا لازمی حصہ بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ آجکل کی نسل پڑھنے سے زیادہ دیکھنا پسند کرتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گیمنگ میں بچوں کا رجحان بڑھ گیا ہے۔وہ اسے آسانی سے سیکھ سکتے ہیں۔ کھیل اور کام ایک ہی ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ یاد رکھئے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر وقت پیچیدہ راستوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اکثر اوقات سادہ اور آسان فارمولے کامیابی کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں ۔ گیمنگ ڈیویلپمنٹ کے شعبے کی ترقی بھی آسان فارمولوں میں پوشیدہ دکھائی دیتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved