تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     30-11-2020

یہ اعتماد کا بحران ہے‘ جناب! اعتماد کا

صرف اڑھائی سال ہی تو ہوئے ہیں! ستر سال کی کثافت دھونے کے لیے کچھ تو وقت دیجیے۔
یہ سب سے زیادہ پیش کی جانے والی دلیل ہے! مان لیا اڑھائی برس کم ہیں! یہ بھی مان لیتے ہیں کہ گزشتہ حکومتیں کرپٹ تھیں! مگر افسوس! مسئلہ یہ ہے ہی نہیں!
مسئلہ معیشت کا ہے نہ کرپشن کا! مسئلہ اعتماد کا ہے! سوال یہ ہے کہ کیا اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ دیانت (Integrity) صرف مالی حوالے سے تو نہیں ہوتی۔ اہم ترین پہلو اس ضمن میں یہ ہے کہ کوئی قول کا پکا ہے یا نہیں! کیا اس کی زبان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ ایفائے عہد میں اس کی شہرت کیسی ہے؟
یہ وعدے تھے جنہوں نے 25 جولائی 2018ء کے دن اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات کو گھروں سے نکال کر ووٹ ڈالنے والوں کی قطاروں میں لا کھڑا کیا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات! جو الیکشن کے دن اس سے پہلے گھروں سے کبھی نہیں نکلے تھے! اگر یہ وعدے نہیں تھے تو کوئی بتائے کہ کیا وجہ تھی؟ یہ وعدے ہی تو تھے میرٹ پر چلنے کے، اصول پسندی کے، دوست نوازی کو ختم کرنے کے، پولیس کو بدلنے کے اور بہت سے دوسرے! مگر ہوا کیا؟
پہلی مثال! وعدہ کیا گیا تھا کہ کابینہ سترہ افراد کی ہوگی! اس وقت کابینہ کے ارکان کی تعداد پچاس سے اوپر جا چکی ہے۔ دوسری مثال! نواز شریف حکومت نے یوم اقبال کی چھٹی ختم کی تو سات نومبر 2015ء کو خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کو حکم دیا گیا کہ صوبے میں عام تعطیل کی جائے۔ پھر ٹویٹ کیا گیا ''اگرچہ میں بہت زیادہ چھٹیوں کا حامی نہیں؛ تاہم یومِ اقبال باقی دنوں سے مختلف ہے‘فکر اقبال نے نظریہ پاکستان کو عملی شکل دی ہے‘‘۔ اس وقت جب وہ خود ملک کے حکمران ہیں، یوم اقبال کی چھٹی نہیں کی گئی۔ تیسری مثال! بجلی کے ہر بل میں 35 روپے سرکاری ٹی وی کے کھاتے میں لیے جاتے ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے اس حوالے سے سخت جارحانہ انداز اپنایا گیا۔ اس کٹوتی کی بھرپور مذمت کی گئی۔ پی ٹی وی کے سربراہ کو للکارا گیا۔ اقتدار میں آئے اڑھائی برس ہو چکے ہیں۔ رقم بدستور کاٹی جا رہی ہے۔ چوتھی مثال! کہا گیا تھا کہ پیسے نہیں مانگیں گے۔ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ خود کُشی کو ترجیح دیں گے۔ نہ صرف آئی ایم ایف کے سامنے کشکول دھرا گیا بلکہ دوسرے ملکوں سے بھی پیسے مانگے گئے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر عجیب کام کیا گیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف کے ایک ملازم کو سٹیٹ بینک کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ مثالیں بہت سی اور بھی پیش کی جا سکتی ہیں مگر، سرِ دست، انہی کا تجزیہ کر دیکھتے ہیں۔ دفاع میں کہا جا سکتا ہے کہ اتحادیوں کو کھپانے کے لیے کابینہ کا حجم بڑھانا پڑا۔ یوم اقبال کی چھٹی کون سا مرگ و زیست کا مسئلہ تھا؟ پی ٹی وی کے 35 روپے کا ٹیکس مجبوری کی وجہ سے یا مالی پریشر کی بنا پر جاری رکھنا پڑ گیا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ چارہ کوئی نہ تھا! یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے صورت حال کا صحیح اندازہ نہ تھا۔
چلیے یہ دفاعی نکات مان لیتے ہیں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مجبوریاں تھیں۔ ہوم ورک کا فقدان تھا یا کمزوری! مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا عوام کے سامنے کوئی اعتراف کیا گیا؟ کوئی وضاحت پیش کی گئی؟ کیا اس بات کا احساس بھی ہے کہ وعدہ کیا گیا تھا؟ زبان دی گئی تھی؟ قول دیا گیا تھا! ایسا وعدہ، ایسی زبان، ایسا قول جو حرفِ غلط کی طرح مٹ نہیں گیا، صفحۂ قرطاس سے کھرچ نہیں دیا گیا، یادداشتوں سے محو نہیں ہو گیا، وڈیو کلپس کی صورت میں، یو ٹیوب پر موجود ہے۔ لاکھوں کروڑوں انسان سن سکتے ہیں اور سنتے ہیں! مگر اس بات کی کسی کو پروا نہیں کہ وعدے پورے نہیں کیے گئے اور کھلم کھلا عہد شکنی کی گئی! چلیے وزیر اعظم صاحب نہیں، رات دن، صبح شام بولنے والے ترجمان اور وزرا ہی قوم سے معذرت کر لیتے! اور یہ کون نہیں جانتا کہ وعدہ توڑ کر معذرت کہاں نہیں کی جاتی؟ فرض کیجیے آپ کا باس ہے یا آپ کا حاکم ہے۔ آپ نے اس سے ایک وعدہ کیا۔ آپ وعدہ پورا نہ کر سکے۔ آپ سے معاملہ الٹ ہو گیا۔ آپ کا کیا خیال ہے، اس وعدہ خلافی کے بعد آپ باس یا حاکم کا سامنا کریں گے تو کیا اس حوالے سے کوئی ذکر نہیں کریں گے؟ معذرت نہیں کریں گے؟ وضاحت نہیں پیش کریں گے؟ باس یا حاکم تو بڑی بات ہے، کوئی دوست ہے یا عزیز یا محلے دار، تب بھی آپ وضاحت کریں گے اور اپنی صفائی پیش کریں گے! یہ صرف جاگیر دار ہے یا کارخانے کا مالک یا فاتح جو اپنی عہد شکنی کی معذرت ہاری سے یا مزدور سے یا مفتوح سے نہیں کرے گا! اس کی وجہ صرف اور صرف تکبر ہے اور احساسِ تفاخر! کہ یہ میرا کیا بگاڑ لے گا؟ اس کی حیثیت ہی کیا ہے میرے سامنے کہ میں اپنی صفائی پیش کروں؟ قوم کی حیثیت ہی کیا ہے اور عوام کیا چیز ہیں کہ وعدہ خلافی کی معذرت کی جائے؟ تو کیا اب بھی کوئی شک ہے اس حقیقت میں کہ اعتماد کا بحران ہے! اعتماد کا المیہ ہے! یہ نا اعتباری ہے جس نے آبگینے کو پاش پاش کر دیا ہے۔ آپ اپنے قول پر قائم رہتے، آپ اپنا اعتماد گڑھے میں نہ پھینکتے تو عوام گھاس بھی کھا لیتے ڈالر پانچ سو کا بھی برداشت کر لیتے! مگر آپ نے وعدوں کو تار تار کر دیا اور پھر ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچا کہ جن سے وعدہ کیا تھا ان کے سامنے معذرت نہ سہی، وضاحت ہی کر دی جائے، ذکر ہی کر دیا جائے۔ لیکن ہاریوں، ملازموں اور مفتوحہ قیدیوں کے سامنے کون وضاحت پیش کرتا ہے! ان کی حیثیت ہی کیا ہے! جب ضرورت محسوس ہو، وعدہ کر لیجیے۔ جب دل چاہے، وعدہ توڑ دیجیے۔
عہد شکنیوں کی درجنوں مثالیں آج کے پیش منظر پر پڑی سسک رہی ہیں، سلگ رہی ہیں! اقتدار میں آنے کے چند دن بعد پاکپتن میں جو کچھ ہوا کیا وہ عہد شکنی نہ تھی؟ کیا تعیناتیاں میرٹ پر ہو رہی ہیں؟ کیا دوست نوازیاں نہیں ہو رہیں؟ کیا یہ کوئی سیکرٹ ہے کہ سب سے بڑا صوبہ کہاں سے چلایا جا رہا ہے؟ کیا یہ کوئی راز کی بات ہے کہ جنوبی پنجاب کے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سنگ بنیاد پر کس کا نام کھدا ہے؟
بگڑی ہوئی معیشتیں اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں! ڈالر اور پاؤنڈوں کی قیمتیں گر جاتی ہیں! مہنگائیوں سے نجات مل جاتی ہے۔ نوکریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ رہائش گاہیں تعمیر ہو جاتی ہیں۔ خارجہ پالیسیاں طاقت ور ہو جاتی ہیں۔ معیارِ زندگی بلند ہو جاتا ہے۔ سب کچھ ہو جاتا ہے۔ سب کچھ بدل جاتا ہے مگر اعتماد ایک بار مجروح ہو جائے تو بحال نہیں ہوتا۔ عوام کی عزتِ نفس زخمی ہو جائے تو اس کا مداوا نا ممکنات میں سے ہے! جب کسی کے بارے میں یہ واضح ہو جائے کہ قول کا پکا نہیں ہے تو پھر اس کی ساکھ کو کوئی طاقت بحال نہیں کر سکتی! یہ صرف مطلق العنان شہنشاہ ہوتے ہیں جن سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ آپ نے تو قول دیا تھا! احمد ندیم قاسمی یاد آ گئے: 
مہاراج! ادھیراج! خوابوں کی دنیا میں کب تک سنگھاسن اڑاتے پھریں گے؟
حضور! آپ کب تک گلستاں میں کانٹوں سے دامان زریں بچاتے پھریں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved