تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     21-06-2013

واشنگٹن میں ایک ادبی تقریب

گوپی چند نارنگ واشنگٹن آئے‘ جیسے اردو زبان و ادب کا وزیر اعظم آئے۔ اس روز حلقہ ارباب ذوق شمالی امریکہ کا ماہانہ اجلاس ہونا تھا جو منسوخ ہوا اور حلقے کے تمام ’’ارباب‘‘ مہمان کو سننے کے لیے برک سنٹرل لائبریری میں جمع ہوئے ۔اردو مرکز نے بھی انجمن ادب اردو (SOUL) سے تعاون کیا اور اس کی روح و رواں مونا شہاب نے ڈاکٹر نارنگ کو گلدستہ پیش کیا ۔ جعفر امام بھی جو ایک ادبی ویب سائٹ چلاتے ہیں‘ اہلیہ سمیت آئے اور انہوں نے سامعین کو یاد دلایا کہ بلوچستان نے نارنگ کو جنم دیا تو کیا ہوا وہ بھی پاکستان کے اس صوبے میں ملازمت کر چکے ہیں۔پہلے تو بلوچوں نے نارنگ اور ان کے کئی ہم مذہبوں کو ترکِ وطن پر مجبور کیا اور پھر دوسرے غیر بلوچوں کو نکالنا شروع کیا۔ اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیا گیا‘ پہلے تو صوبے کے حصے کا پانی اور معدنیات سرکاری افسروں کو الاٹ کیں اور پھر سیاسی کارکنوں کو ’’غائب‘‘ کرنا شروع کر دیا۔قبا ئلی سردار ’’اپنے عوام‘‘ کی جانب سے اقتدار کا مطالبہ کرتے رہے ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بلوچستان کو خوش کرنے کے جنون میں دوسری بڑی جماعت نیشنل پارٹی کو وزیر اعلیٰ (ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ) کا منصب دے دیا اور مسلم لیگ (ن) کے ثنا اللہ زہری کو جو صوبے کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے اس عہدے کے امیدوار تھے‘ اپنی کابینہ میں لے لیا ۔ ڈاکٹر نارنگ نے اہل قلم کو بتا یا کہ ان کے بچپن میں بلوچستان ایک ’’ملٹی کلچرل‘‘ خطہ تھا ۔ شاید ڈاکٹر نارنگ کو یاد آئے ان کے بچپن میں تو سارا برطانوی ہند ’’ملٹی کلچرل‘‘ تھا ۔ بلو چستان اسمبلی میں ڈاکٹر بلوچ کی پہلی تقریر امید افزا تھی۔ انہوں نے بلوچستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی سرپرستی کرنے کے باوجود اپنی افتتاحی تقریر اردو میں کی مگر جہاں کہیں اپنی اردو کی کمی یا اس کی زیادتی محسوس کی وہاں انگریزی کا لفظ بلا جھجک بولا۔ مثلاً ایک جگہ انہوں نے preach استعمال کیا جب کہ وہ تبلیغ یا پرچار بھی کہہ سکتے تھے ۔ان کے الفاظ تھے ۔ ’’ہمیں کوئی اپنی مادری زبان میں پڑھنے سے نہیں روک سکتا‘‘ ۔ پھر کہا کہ ’’اگر کوئی بلوچی کی بجائے سندھی میں پڑھنا چاہے تو وہ ایسا کر سکے گا‘‘۔ (ڈاکٹر عبدالمالک) بلوچ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔صوبے کے سرداری نظام سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہ میڈیکل کے طالب علم تھے ۔انہوں نے اپنے ہندو اور مسیحی ہم جماعتوں کے ترکِ وطن پر افسوس کا اظہار کیا ۔ بہر حال آج سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘ اس لیے زبان و ادب کی طرف توجہ دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر عبداللہ نے کہ اس علاقے میں ادبی سر گرمیوں کے باوا آدم سمجھے جاتے ہیں‘ کرسی صدارت سنبھالی اور ’’سول‘‘ کے بانی ابو الحسن نغمی نے حاضرین کے ایثار کی داد دی اور اپنی مشہور مزاحیہ نظم ’’آنا میری لینڈ میں‘‘ سنائی ۔صاحب صدر اور ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے بھی قطع کلام کیا ۔ حلقے کے صدر ذوالفقار علی کاظمی نے مہمان کی مدح میں اپنی نظم سنائی۔ اب سارا وقت مہمان کے لیے وقف تھا ۔ سب سے پہلے ایک گھنٹہ سے زیادہ طویل ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی جس میں پاکستان میں ڈاکٹر نارنگ کی غریبانہ پیدائش سے لے کر ہندوستان میں ان کے عروج تک کی داستان بیان کی گئی تھی۔ اس فلم سے ظاہر ہوا کہ بلا شبہ وہ ایک ایسے چھتنار درخت ہیں جس کا سایہ بین الاقوامی سرحد کے دونوں جانب پڑتا ہے ۔لوگ جنرل ضیاالحق کو بُرا کہتے ہیں مگر ڈاکٹر نارنگ کو انہی کے عہد صدارت میں ایک قومی اعزاز سے نوازا گیا تھا ۔ وہ جامعہ ملیہ دہلی میں استاد رہے۔ وہ ساٹھ سے زیادہ تنقیدی اور تخلیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ہندوستان کے سب سے بڑے ثقافتی ادارے ساہتیہ اکیڈمی نے اردو کے شعبے میں انہیں کئی انعامات اور اعزازات کا حق دار قرار دیا ہے۔ پاکستان کے علاوہ کئی ملکوں نے ان کی توقیر کی ہے ۔ان کے دو صاحبزادے میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور امریکہ میں آباد ہیں ۔ان کی اہلیہ جو اس اجتماع میں موجود تھیں‘ دہلی کے ایک کالج میں پڑھاتی رہی ہیں۔ یوں وہ ایک رنگا رنگ شخصیت ہیں مگر پھر بھی بقول نغمی نارنگ کہلاتے ہیں ۔ ڈاکٹر نارنگ نے ایک گھنٹے کالیکچر دیا اور یہ شکوہ کیا کہ ہندوستان اور پاکستان میں رابطے کی زبان ہونے کے با وصف اردو کو اب تک اس کا صحیح مقام نہیں ملا ۔ان کے شکوے کی تصدیق پاکستان میں حلف برداری کی حالیہ تقریبات سے ہوتی ہے ۔ہر چند کہ 73ء کے آئین کے آرٹیکل 251میں اعتراف کیا گیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور سرکاری سطح پر اس کے استعمال کے لیے پندرہ سال کے اندر انتظامات کئے جائیں گے مگر اس آئین کے نفاذ سے چالیس سال بعد بھی اگلے روز ایوان صدر میں میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان نے انگریزی زبان میں لکھے حلف اٹھائے اور صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے ایک مشترکہ اجلاس سے چھٹی بار نو آبادیاتی حاکموں کی زبان میں خطاب کیا ۔ بھلا ہو نجی شعبے میں اردو ٹیلی وژن کے ظہور کا کہ اس نے پنجاب‘ سندھ‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے دور افتادہ دیہات میں مقامی دانشوروں کو اپنے اپنے مائک تھما دئے ہیں اور وہ اپنے اپنے لہجے میں اردو میں خبر دیتے ہیں‘ وگرنہ قائد اعظم سے لے کر محمد ایوب خان تک کئی حکمرانوں نے اس زبان کی بنیاد پر قوم کو متحد کرنے کی ناکام کوشش کی تھی ۔ ہندوستان میں تو اب تک اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھا جاتا ہے حالانکہ وہاں برج نارائن چکبست‘ رگھو ناتھ سہائے فراق‘ کرشن چندر‘ راجندر سنگھ بیدی اور ڈاکٹر آنند اور خود نارنگ کی اردو تحریریں بکثرت موجود ہیں اور بالی وڈ جو دنیا میں سب سے زیا دہ فلمیں بناتا ہے‘ مکالمے اور گانے اردو میں لکھواتا ہے۔ پانچ ریاستوں اتر پردیش‘ بہار‘ آندھرا پردیش‘ جموں و کشمیر اور نئی دہلی میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے ۔ دنیا میں اردو بولنے والوں کی تعداد چھ سات کروڑ بتائی جاتی ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں پانچ کروڑ بیس لاکھ لوگ اردو بولتے ہیں جب کہ پاکستان میں 2008ء کی مردم شماری کے مطابق اردو بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ نہیں۔ گویا وہ اپنے اپنے ملک کی مجموعی آبادیوں کا بالترتیب چھ اور آٹھ فیصد ہیں مگر ان کی زبان کا اثر و رسوخ ساری دنیا بالخصوص بنگلہ دیش‘ سعودی عرب‘ ا فغانستان‘ برما اور نیپال اور برطانیہ‘ کینیڈا اور امریکہ میں (جہاں جہاں اردو بولنے والوں کی پہلی نسل موجود ہے )محسوس کیا جاتا ہے ۔ یہ اعزاز ہندوستان کی چھتیس بڑی زبانوں اور پاکستان کی پانچ بڑی زبانوں میں سے کسی کو حاصل نہیں۔ اردو اور ہندی بولنے والے ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں مگر ایک زبان‘ فارسی نستعلیق اور دوسری سنسکرت دیو ناگری میں لکھی جا رہی ہے اور ان زبانوں کے بولنے والے ان لپیوں سے نا واقف ہیں ۔پھر ان 65 برسوں میں دونوں زبانوں کے فاصلے بھی حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں ۔اردو نے بہت سے فارسی اور عربی الفاظ اپنا لیے ہیں اور ہندی نے سنسکرت کے کئی الفاظ کو جگہ دی ہے۔ مثلاً گزشتہ دنوں میں اپنے دوست امیش اگنی ہوتری کی زبانی یہ سن کر دنگ رہ گیا کہ ہندی میں سیاح کو گھمکڑ کہیں گے ۔ ڈاکٹر نارنگ کی تقریر معلوماتی تھی مگر ایک بات جس پر انہیں اظہارِ خیال کا موقع نہ ملا وہ ’’سول‘‘ کا بنیادی مقصد ہے۔ ’’سول‘‘ کے بانی کو تشویش ہے کہ اردو بولنے والے تارکین وطن کے بچے جو امریکہ میں پیدا ہوتے اور پروان چڑھتے ہیں مادری زبان بولتے تو ہیں مگر اس کا رسم الخط نہیں جانتے۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ ایسے بچے رومن میں لکھیں اور ’’سول‘‘ کے جلسوں میں پڑھیں اور انعام و اکرام پائیں ۔یہ جلسے تارکین کی ذہنی عیاشی اور معاشرتی میل جول کا وسیلہ تو بن گئے ہیں مگر رومن میں اردو لکھنے والے بچوں کی آماجگاہ نہیں بن سکے۔ ’’سول‘‘ کی حوصلہ افزائی سے رومن میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے والے بچوں کی تعداد ایک دو سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ مغرب میں اردو کی بستیاں بسانے کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہو گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved