سٹیل ملز کے ملازمین کے بجائے
عمران خان کو برطرف ہونا چاہیے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''سٹیل ملز کے ملازمین کے بجائے عمران خان کو برطرف ہونا چاہیے‘‘ کیونکہ حکومت جلسوں جلوسوں سے تو جانے کا نام ہی نہیں لے رہی، کم از کم اس حوالے سے ہی چلی جائے اور سٹیل ملز کا معاملہ ہم پر چھوڑ دے کیونکہ ہم نے ہی اسے اس نوبت کو پہنچایا ہے اور اسے اصلی حالت میں بھی ہم ہی لا سکتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ہماری خدمات سے استفادہ کیا جائے جبکہ پورے ملک کو ہماری ضرورت بھی ہے کیونکہ ملکِ عزیز میں خدمت کے مواقع اب بھی موجود ہیں اور یہ کام پوری تندہی کے ساتھ ہم ہی سر انجام دے سکتے ہیں۔ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا! آپ اگلے روز کراچی سے بحالی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
حکومت کورونا کے پیچھے چھپ رہی ہے: ناصر حسین شاہ
سندھ کے وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ ''حکومت کورونا کے پیچھے چھپ رہی ہے‘‘ حالانکہ کورونا کے پیچھے چھپنا کورونا سے بغلگیر ہونے کے مترادف ہے اس لیے اسے چاہیے کہ اس خطرناک صورتحال سے باہر آئے ورنہ اس کا حال بھی ہمارے ان رہنمائوں جیسا ہو گا جو اس وقت قرنطینہ میں پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے بھی کورونا کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی تھی جبکہ کورونا سامنے کے علاوہ عقب سے بھی حملہ آور ہو سکتا ہے اس لیے اس کے آگے چھپنے کی کوشش کی جائے یا پیچھے‘ نتیجہ ایک ہی جیسا نکلتا ہے۔ آپ اگلے روز حیدر آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کسی کا کوئی دبائو نہیں، خارجہ پالیسی
کے فیصلے خود کرتا ہوں: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''کسی کا کوئی دبائو نہیں، خارجہ پالیسی کے فیصلے خود کرتا ہوں‘‘ کیونکہ جس کا جو کام ہے یا جسے جو کام آتا ہے اپنے طو یل تجربے کی بنیاد پر اسے ہی کرنا چاہیے اس لیے کوئی کسی کے کام میں دخل نہیں دیتا اور سب اپنا اپنا کام کرتے ہیں اور اس طرح سب کی گاڑی چلی ہوئی ہے اور حکومت بھی ہلکا پھلکا محسوس کرتی ہے کیونکہ اس پر صرف چند ایک محکموں کا ہی بوجھ ہے جسے یہ خندہ پیشانی سے اٹھائے ہوئے ہے، اور اگر یہ کام بھی اس کے ذمے نہ لگایا جاتا تو یہ فراغت کے مزے لوٹ رہی ہوتی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
گورنر راج کا فیصلہ آئین سے بالاتر نہیں ہوگا: اسد عمر
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ''گورنر راج کا فیصلہ آئین سے بالاتر نہیں ہو گا‘‘ کیونکہ آئین میں اس کی پوری پوری گنجائش موجود ہے اور میں چونکہ وزیر برائے منصوبہ بندی ہوں اس لیے یہ منصوبہ آج کل میرے زیر غور ہے اور ایک طرح سے میں خبردار بھی کر رہا ہوں تا کہ ع
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
اس لیے یہ بات صوبہ سندھ اور اس کی حکومت کے اپنے مفاد میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ سعادت مندی کا مظاہرہ کرے اور اس سے بچنے کی کوشش کرے۔ آپ اگلے روز سکھر میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔
ایسا نظام لائیں گے جس میں عوام فیصلے کریں گے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''ایسا نظام لائیں گے جس میں عوام فیصلے کریں گے‘‘ اور اقتدار میں بھی عوام ہی لائیں گے اور جیسا اب تک ہوتا رہا ہے‘ ایسا نہیں ہونے دیں گے؛ تا کہ کوئی کسی کو طعنہ نہ دے سکے جبکہ موجودہ نظام کچھ مناسب نہیں ہے کیونکہ اگلی باری بھی ہماری ہے اور ہر بار ایسا نہیں ہو سکتا، اس لیے عوام سے بھی ہماری درخواست ہے کہ اس کام کے لیے تیار ہو جائیں کیونکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو گا اگرچہ اب تک ہونے والے فیصلوں کو بھی عوامی فیصلہ ہی کہا جاتا رہا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ورکرز سے خطاب کے علاوہ پریس کانفرنس کر رہے تھے۔
کورونا سے بڑی بیماری تبدیلی
کے نام پر آئی ہے: طلال چودھری
نواز لیگ کے رہنما طلال چودھری نے کہا ہے کہ ''کورونا سے بڑی بیماری تبدیلی کے نام پر آئی ہے‘‘ اور اس آسانی سے آئی ہے جیسے ہماری جماعت کی تنظیم سازی ہوا کرتی ہے جبکہ تبدیلی کی یہ بیماری اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز عنصر ہے کیونکہ یہ ہمارے سامنے ہوئی ہے اور کسی پر اس کا الزام بھی نہیں دھرا جا سکتا بلکہ اس سے بھی زیادہ پر اسرار بات یہ ہے کہ اس کا پتا ہی نہیں چلتا کہ کس وقت آئی ہے، یعنی دن کے وقت یا رات کے تین بجے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں مسعود احمد کی یہ غزل:
درکار جس قدر ہے میسر نہیں رہا
کچھ بھی رسد طلب میں برابر نہیں رہا
پشتوں سے آ رہا تھا مچھیروں کو پالتا
اب وضعدار اتنا سمندر نہیں رہا
ماں باپ‘ بھائی بہن سبھی کچھ بکھر گیا
بے شک مکان ہے وہ مگر گھر نہیں رہا
دستار کو سنبھالنا مہنگا پڑا ہمیں
شانے تو رہ گئے ہیں مگر سر نہیں رہا
اس حاضری میں بھی ہے وہی غیر حاضری
موجود ہے مگر وہ میسر نہیں رہا
یہ دیکھنا پڑے گا اُدھر پھول پھینک کر
کیا اب کسی کے ہاتھ میں پتھر نہیں رہا
دشمن بھی خوف کھانے لگے میرے موت سے
مر کر کسی طرح کا مجھے ڈر نہیں رہا
اے فاختہ خدا کے لیے تُو بھی چھوڑ جا
میری منڈیر پر وہ کبوتر نہیں رہا
بُوڑھا درخت گرتے ہی ایسا لگا مجھے
سایہ کسی بزرگ کا سر پر نہیں رہا
میں بھی بہت اکیلا تھا میدانِ جنگ میں
اس جنگجو کے پاس بھی لشکر نہیں رہا
کس منہ سے اپنے آپ کو زندہ قرار دوں
بے شک ترے بغیر بھی میں مر نہیں رہا
آج کا مقطع
ہم اتنے عقلمند نہ ہوں گے مگر ظفرؔ
تھا اُس کا صرف ایک اشارہ کہ اب نہیں