کسی بھی شعبے کے کامیاب ترین افراد کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ وہ بہت سے معاملات میں خاصے سنکی یا عوامی زبان میں کہیے تو ''کھسکے‘‘ ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ غیر معمولی کامیابی بہت سے معاملات میں ایثار اور قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔ جو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر کچھ کرنے کی ٹھانتے ہیں وہ مختلف حوالوں سے اپنا آرام و سکون داؤ پر لگاتے ہیں۔ شاندار کامیابی کیلئے کی جانے والی محنت انسان سے بہت کچھ مانگتی ہے۔ جو لوگ کامیابی کی قیمت ادا کرتے ہیں وہ چند ایک معاملات میں تھوڑے سے کَج رَو بھی ہوتے ہیں یعنی دماغ کی چال تھوڑی سی ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ جو لوگ معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہیں وہ اِسے گھمنڈ قرار دے بیٹھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے! مزاج میں پائی جانے والی ہر کَجی گھمنڈ یا تکبر نہیں ہوتی۔ کامیابی انسان کو اگر کچھ دیتی ہے تو اُس سے بہت کچھ لے بھی لیتی ہے۔ کامیابی کا حصول یقینی بنانے سے کہیں بڑھ کر اُسے برقرار رکھنے کی کوشش انسان کو الجھن سے دوچار کرتی ہے۔ یہ دباؤ کم ہی لوگ برداشت کر پاتے ہیں۔ جنہیں اچھے اخلاق کی تربیت دی گئی ہو وہ کامیابی کو ہضم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ محمد رفیع مرحوم کا شمار اُن چند شخصیات میں ہوتا ہے جو کامیابی، شہرت اور توقیر کا حق ادا کرنے میں کامیاب رہیں۔ رفیع صاحب بالی وُڈ کے کامیاب ترین گلوکار تھے۔ انہوں نے ہر طرح کے گیت کامیابی سے گاکر اپنی خداداد صلاحیت اور اُس صلاحیت کا حق ادا کرنے والی محنت کا لوہا منوایا۔ لیاقت، محنت اور حُسنِ اخلاق میں بالی ووڈ کی کوئی بھی شخصیت اُنہیں اب تک چُھو نہیں سکی ہے۔ جیسے جیسے کامیابی ملتی گئی، رفیع صاحب کے مزاج کی نرمی، شگفتگی، شائستگی اور انکسار میں اضافہ ہوتا گیا۔ انہوں نے کبھی، کسی ایک عمل سے بھی کسی کو یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ کامیابی کا نشہ سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔ رفیع صاحب کا پورا کیریئر مختلف حوالوں سے ایک نصاب کا سا درجہ رکھتا ہے۔ اُن کے حالاتِ زندگی کے مطالعے سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ بالی ووڈ کی بعض ہستیوں نے رفیع صاحب جیسی نرم خُو اور مہذّب شخصیت سے بھی ٹکرانے کی کوشش کی اور پھر تھوڑی ہی مدت میں غلطی کا احساس ہونے پر اُن سے معذرت بھی چاہی۔ بی آر چوپڑا بھی ایسی ہی شخصیات میں سے تھے۔ بی آر چوپڑا کا پورا نام بلدیو راج چوپڑا تھا۔ انہوں نے پروڈیوسر ڈائریکٹر کی حیثیت سے افسانہ، نیا دور، سادھنا، قانون، گمراہ، ہمراز، داستان، دُھند، انصاف کا ترازو، نکاح اور عوام جیسی شاندار فلمیں دیں۔ فلم میکنگ انڈسٹری کیلئے شاندار خدمات انجام دینے پر بی آر چوپڑا کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ایک بار یوں ہوا کہ بی آر چوپڑا محض جھنجلاہٹ کے عالم میں رفیع صاحب سے ناراض ہوگئے۔ بات صرف ناراضی تک محدود نہ رہی۔ بی آر چوپڑا کو ضد سی ہوگئی کہ رفیع صاحب کو ناکامی سے دوچار کرکے دم لیں گے! وہ ایک بڑے فلم میکر تھے اور جوہر شناس ہونے کی بنیاد پر رفیع صاحب کی صلاحیت اور لگن سے واقف بھی تھے مگر پھر بھی ذہن بہک گیا۔ ان کا ادارہ (بی آر فلمز) بڑا نام رکھتا تھا۔ بی آر چوپڑا نے فنکاروں کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اُن کے ذہن میں شاید یہ خیال سماگیا کہ وہ جسے چاہیں گے کامیاب بنائیں گے اور جسے چاہیں گے ناکامی سے دوچار کردیں گے۔ گویا انہوں نے خود کو کسی حد تک خدا کے درجے پر فائز کرلیا تھا! انڈسٹری میں بات پھیل گئی کہ بی آر چوپڑا نے رفیع صاحب سے تعلق ختم کرلیا ہے اور اب اُن کا کیریئر ختم کرنے کے درپے ہیں۔ یہ بات بھی عام ہوئی کہ بی آر چوپڑا نے کئی فلم میکرز سے کہا ہے کہ وہ رفیع صاحب سے گانے نہ گوائیں! انڈسٹری میں تو قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوگیا۔ کوئی کچھ کہتا تھا، کوئی کچھ۔ بی آر فلمز کی فلموں کے لیے موسیقی روی صاحب (روی شنکر شرما) ترتیب دیا کرتے تھے۔ روی صاحب بھی پریشان ہوگئے کیونکہ اُن کی رفیع صاحب سے اچھی ہم آہنگی تھی۔ دونوں نے کئی یادگار گیت دیے تھے۔ انہوں نے اپنے طور پر کوشش کی کہ بی آر چوپڑا ضد ترک کریں اور رفیع صاحب کو دوبارہ اپنے بینر میں قبول کرلیں۔ روی جانتے تھے کہ اس معاملے میں رفیع صاحب بالکل بے قصور تھے۔ ویسے بھی وہ کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیتے تھے۔ آپ کے خیال میں رفیع صاحب نے کیا کیا ہوگا؟ کچھ نہیں۔ جی ہاں! انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ صرف چپ رہے اور اس چپ نے لوگوں کو قیاس آرائیوں سے روک دیا۔
کچھ مدت کے بعد بی آر چوپڑا نے پروڈیوسر کی حیثیت سے ''وقت‘‘ بنائی جس کے ڈائریکٹر اُن کے چھوٹے بھائی یش چوپڑا تھے۔ اس فلم کا تھیم سانگ ''وقت سے دن اور رات، وقت سے کل اور آج‘‘ تھا۔ گھمنڈ کرنے والوں کے انجام کی نشاندہی کرتا ہوا یہ انتہائی مؤثر گیت ساحرؔ لدھیانوی کے ذہن کی پیداوار تھا۔ دُھن روی صاحب نے بنائی۔ وہ اس گیت کو رفیع صاحب سے گوانا چاہتے تھے۔ اس نوعیت کے گیت رفیع صاحب ہی گایا کرتے تھے۔ مشکل یہ پیدا ہوئی کہ بی آر چوپڑا سے کیسے بات کی جائے۔ جب بی آر چوپڑا نے ساحرؔ لدھیانوی کے لکھے ہوئے گیت کو پڑھا اور اُس میں چھپی ہوئی تاثیر محسوس کی تو روی صاحب سے بیٹھک کی۔ روی صاحب کہنا چاہتے تھے کہ یہ گیت رفیع صاحب کے سوا کوئی نہیں گاسکتا مگر اُن سے پہلے بی آر چوپڑا بول پڑے ''یہ گیت صرف رفیع صاحب گاسکتے ہیں، اور کوئی نہیں۔‘‘ روی صاحب یہ سُن کر حیران ہوئے اور پھر سُکون کا سانس لیا۔ بی آر چوپڑا نے رفیع صاحب کو فون کیا اور گانا ریکارڈ کرنے کی بات کی۔ ساتھ ہی پوچھ لیا ''آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں۔‘‘ رفیع صاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا ''اعتراض کیسا؟ جیسے آپ کی مرضی۔‘‘
روی صاحب نے گیت ریکارڈ کیا اور یہ فلم کا بہترین گیت ثابت ہوا۔ آج بھی اس گیت کو سُننے والے رگ و پے میں سنسنی سی دوڑتی ہوئی محسوس کرتے ہیں۔ یہ گیت اس اعتبار سے یادگار رہے گا کہ اِس نے بی آر چوپڑا اور رفیع صاحب کو پھر ساتھ کام کرنے کی راہ دکھائی۔ آپ نے رفیع صاحب کی ''حکمتِ عملی‘‘ دیکھی؟ اُنہوں نے زندگی بھر صرف اُن باتوں کو اہمیت دی جن سے کچھ حاصل ہو یعنی کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہو۔ بلا سبب کسی سے جھگڑنا اُن کے نزدیک حماقت کا دوسرا نام تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اس نکتے پر بھی غور کیجیے کہ اگر کوئی بلا سبب روٹھ جاتا تھا تو رفیع صاحب محض خاموشی اختیار کرتے تھے۔ وہ کسی سے کسی کی شکایت کرتے تھے نہ رونا روتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا تھا کہ اُن سے بلا سبب روٹھنے والا کچھ ہی دن بعد اپنی غلطی پوری شدت سے محسوس کرتا تھا اور معذرت چاہ کر تعلقات معمول پر لے آتا تھا۔ ہمیں زندگی بھر ایسے حالات کا سامنا رہتا ہے جن پر ہمارا کچھ اختیار نہیں کرتا۔ کبھی کبھی کوئی بلا جواز روٹھ جاتا ہے۔ ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟ رفیع صاحب نے جو کچھ کیا ہمیں بھی وہی کرنا چاہیے۔ کوئی کسی سبب یا جواز کے بغیر روٹھ جائے تو کہیں جاکر رونا رونے کے بجائے خاموشی اختیار کرکے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ آپ کی سنجیدگی اور خلوص دیکھ کر اُسے غلطی کا احساس ضرور ہوگا جو آپ سے یونہی روٹھا ہوگا۔
بزرگوں نے کہا ہے کہ بات ہونٹوں نکلی‘ کوٹھوں چڑھی۔ بات سے بات نکلتی ہی چلی جاتی ہے۔ ایک چپ سو بلاؤں کو ٹالتی ہے۔ رفیع صاحب بن بلائی بلاؤں کو ٹالنے کا ہنر جانتے تھے۔ یہ ہنر آپ بھی سیکھ سکتے ہیں اور سیکھنا ہی چاہیے۔ جب بھی کوئی معاملہ آپ کے انہماک کو متاثر کرتا دکھائی دے، خاموشی اختیار کیجیے اور معاملے کو از خود درست ہونے دیجیے۔ آپ کو قدرت کی طرف سے جو بھی صلاحیت ملی ہے وہ بروئے کار لانے کیلئے ہے۔ کام پر توجہ دیجیے اور باقی تمام معاملات کو ثانوی حیثیت دیجیے۔ آپ کی خاموشی معاملات کو بگڑنے سے روکے گی اور یوں آپ اپنے کام پر زیادہ توجہ دینے کے قابل ہوسکیں گے۔ بلا ٹالنے کا ہنر سیکھنے کیلئے آپ کو غیر ضروری طور پر بولنے سے گریز کرنا ہے، بس!