تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     01-12-2020

سو جوتے اور سو پیاز کھانے والا محاورہ

اگر ملتان میں جلسہ ہونے یا نہ ہونے کا پھڈا نہ پڑتا تو یہ جلسہ محض ایک دن کا شو تھا لیکن حکومت کی طرف سے اسے روکنے کی فضول اور بالآخر ناکام کوششوں نے اسے چار دن کا شو بنا دیا اور شو بھی ایسا کہ گزشتہ چار روز سے پرنٹ میڈیا میں بھی ہیڈ لائن بنا ہوا ہے اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی یہی چھایا ہوا ہے اور آئندہ چار دن بھی اسی کا تذکرہ ہی چلے گا۔ اگریہ جلسہ ایک دن میں ہو جاتا تو زیادہ سے زیادہ یہ معاملہ زیربحث رہتا کہ شرکاکی تعداد کتنی تھی؟ اس کے علاوہ شاید کسی بات پر بھی کھینچا تانی نہ ہوتی مگر حکومت کی جانب سے اس جلسے کو روکنے کی کوششوں نے اسے مقامی سے زیادہ قومی سیاسی مسئلہ بنا دیا اور کیا حکومت اور کیا اپوزیشن‘ سب صرف اور صرف اسی جلسے کو عزت و آبرو کا مسئلہ بنائے بیٹھے تھے۔ گزشتہ رات سے قلعہ کہنہ قاسم باغ کی جانب جانے والے راستوں کو بند کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ آج صبح (مورخہ تیس نومبر) گھنٹہ گھر اور قلعہ کہنہ قاسم باغ جانے والے سارے راستے نہایت ہی فضول طریقے سے بند کر کے جلسہ روکنے کی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ مخلوق خدا کو تنگ و پریشان کرنے کی حتی المقدور کوشش میں سرکار کو کافی حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ شہر کے داخلی و خارجی راستے بند تھے مسافروں کو بہت زیادہ تنگی کا سامنا کرنا پڑا البتہ فضل الرحمن اور مریم نواز شریف کو شہر میں داخل ہونے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ رانا ثنا اللہ ہوٹل میں محصور رہے اور پولیس انہیں پکڑنے کی پوری تگ و دو کرتی رہی ہے اب پتا نہیں وہ ہوٹل کے اندر ہی رہیں گے یا پھر پکڑے جائیں گے؛ تاہم اس آنکھ مچولی کے نتیجے کا پتا چلنے سے پہلے کالم اپنی منزل مقصود تک پہنچ چکا ہو گا۔
یہ شو پیپلز پارٹی نے اپنے یومِ تاسیس کے حوالے سے قابو کر لیا تھا اور اس جلسے کے حوالے سے یوسف رضا گیلانی اور ان کے برخورداران کی لاٹری نکل آئی۔ گیلانی خاندان نے اس جلسے کے زور پر اپنی سیاسی دکانداری جو خاصی ناگفتہ بہ صورتحال کا شکار تھی‘ خاصی حد تک دوبارہ چمکا لی ہے۔ پی ڈی ایم کے گزشتہ سارے جلسوں میں سید یوسف رضا گیلانی سیاسی طور پر پچھلے بینچوں پر بیٹھے دکھائی دے رہے تھے حتیٰ کہ راجہ پرویز اشرف کو یوسف رضا گیلانی سے کہیں زیادہ اہمیت اور پذیرائی مل رہی تھی ۔اب اس جلسے کے طفیل یوسف رضا گیلانی اپنے چاروں بیٹوں سمیت بہت زیادہ لائم لائٹ میں آ گئے ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی پہلے اکیلے الیکشن لڑتے تھے۔ پھر ان کے بڑے فرزند عبدالقادر میدان میں آ گئے۔ تب تیسرے فرد یوسف رضا گیلانی کے برادر خورد سید مجتبیٰ گیلانی المعروف مجّو سائیں بھی سیاسی وراثت میں حصہ دار تھے۔ گزشتہ سے پیوستہ الیکشن (2013ء) میں یوسف رضا کے تین چھوٹے جڑواں بیٹوں میں سے ایک علی موسیٰ گیلانی این اے 148 ملتان I سے پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے۔ یہاں سے مسلم لیگ کے عبدالغفار ڈوگر نے علی موسیٰ اور شاہ محمود قریشی کو شکست دی تھی۔ ان کے بڑے بیٹے عبدالقادر این اے 151ملتان II سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے انہوں نے سکندر بوسن سے شکست کھائی۔ خود سید یوسف رضا گیلانی پانچ سالہ نااہلی کے باعث الیکشن نہ لڑ سکے؛ تاہم انہوں نے 2018 ء کے الیکشن میں ساری کسریں نکال لیں اور ان کے گھرکے چار لوگ الیکشن میں امیدوار تھے۔ خود سید یوسف رضا این اے 158 ملتان V سے امیدوار قومی اسمبلی تھے‘ گیلانی صاحب اس حلقے سے ابراہیم خان سے شکست کھا گئے۔ حلقہ این اے 157 ملتان IV سے علی موسیٰ گیلانی امیدوار تھے اور شاہ محمود کے فرزند زین قریشی سے سات ہزار ووٹوں سے پیچھے رہ گئے۔ صرف ان کا ایک بیٹا علی حیدر گیلانی صوبائی نشست پی پی 211 ملتان I سے الیکشن جیت کر پنجاب اسمبلی کا ممبر بنا۔ ان کا چوتھا بیٹا علی قاسم سیاست سے دور تھا لیکن ملتان کے حالیہ جلسے کا سارا انتظام وانصرام علی قاسم کے ذمے تھا۔ یہ ان کے خاندان کا آخری فرد (مردوں میں) تھا جو سیاسی میدان میں داخلے سے محروم تھا سواب ان کی یہ محرومی بھی ختم ہو گئی۔اس سارے شو کا سب سے زیادہ فائدہ گیلانی خاندان کو ہوا اور وہ ایک بار پھر قومی خبروں کا مرکز ہیں۔ گزشتہ سے پیوستہ روز جب پولیس نے سٹیڈیم کے تالے توڑنے پر علی موسیٰ کودیگر رہنماؤں کے ہمراہ گرفتار کیاتو تھانے لے جانے کے بعد ایس ایچ او نے ان کو کہا کہ وہ لوگ رات کیلئے گھرجا سکتے ہیں اور صبح دوبارہ تھانے آ جائیں توانہوں نے گھر جانے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ وہ گھر جانے کے بجائے صبح عدالت جانا چاہیں گے اور وہ اگلے روز ضمانت کرواکر واپس گھر آ گئے۔ حالانکہ حالت یہ تھی کی رات کو علی موسیٰ کی قیادت میں نکلنے والی ریلی میں شرکاکی تعداد شرمناک حد تک مایوس کن تھی؛ تاہم اس طرح سرکار نے اپنی حماقت سے انہیں ایک بار پھر متحرک سیاسی لیڈرکے طور پر متعارف کروا دیا۔ اسی دوران مسلم لیگ (ن) کا سابقہ ایم این اے عبدالغفار ڈوگر پتلی گلی سے کھسک گیا۔ پولیس سے اپنے پرانے تعلقات اور رابطوں کے طفیل پولیس نے بھی اسے ''راہداری‘‘ کی سہولت مرحمت فرمائی ا ور وہ بھی اپنے سابقہ ریکارڈ کے باعث پولیس کی ہدایت سے سرتابی کی جرأت نہ کر سکا اور آرام سے کھسک گیا۔ صرف عبدالرحمان کانجو ا ور عبدالغفور حیدری تھے ‘جو سٹیڈیم میں ڈٹے رہے ۔
دو دن پہلے رات کو پولیس نے جوآپریشن کیا وہ صرف اس لئے کامیاب ہوا کہ پوری پی ڈی ایم اپنے اپنے لیڈر کی قیادت میں بکھری ہوئی تھی۔ عبدالغفار ڈوگرتو رضا کارانہ طور پر غائب ہو گیا‘باقی ہر لیڈر اپنے سو پچاس ہمراہیوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ دکان سجائے بیٹھا تھا‘ کہیں علی حیدر تھا تو کہیں علی قاسم‘کہیں وحید ارائیں تھا تو کہیں طارق رشید۔ قریب ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ لوگوں کو سو ڈیڑھ سو پولیس اہلکاروں نے مزے سے تتر بتر کردیا۔ پلاننگ میں کی جانے والی حماقت کا یہ عالم تھا کہ جلسے سے تین دن پہلے سٹیڈیم میں بستروں سمیت کارکنوں کو بلا گیا گیا‘حالانکہ یہ کام آخری رات کرنا چاہئے تھا۔ آج (تیس نومبرکو) صورتحال یہ تھی کہ پنجاب بھر کی پولیس ملتان میں براجمان ہے اور یہ سینکڑوں لوگ بسوں میں اس طرح ٹھونس کر لائے گئے ہیں کہ کوروناایس او پیز کی دھجیاں اڑا کررکھ دی گئی ہیں۔ جلسے سے تو کورونا پھیلے یا نہ پھیلے‘ پولیس کی اس طرح سے نقل و حرکت سے ضرور پھیلے گا‘ بھلا وائرس کو کیا علم ہو سکتا ہے کہ پھیلانے والا سرکاری اہلکار ہے یا اپوزیشن کا بندہ ہے۔ حکومت کو بھی کورونا کا پھیلاؤ صرف اسی جلسے میں نظر آ رہا ہے۔ملتان میں اس جلسے کے پینا فلیکس دیکھ کرجلسے والوں کی ذہنیت پربھی افسوس ہوا۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے لگائے گئے بڑے بڑ ے پینافلیکس پر لکھا ہوا تھا؛ چلو چلو قلعہ کہنہ قاسم باغ چلو۔ مریم نواز آ رہی ہے۔
یہ وہ حکومت ہے جو کہتی تھی کہ اگر اپوزیشن دھرنا دینا چاہے تو ہم اسے کنٹینر بھی فراہم کریں گے اور کھانا بھی پہنچائیں گے۔ اب یہ عالم ہے کہ جلسہ روکنے کیلئے شہر کے نالوں پر کنٹینر دھرے ہوئے ہیں اور کھانا جیل یا حوالات میں پہنچایا جا رہا ہے۔ وعدہ تو پورا کیا لیکن کس طرح؟ اس افراتفری میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ پولیس نے جلال پور پیروالہ سے پی ٹی آئی کے ضلعی کوآرڈینیٹر کو بھی حوالۂ زنداں کر دیا۔ یہ سارا کھڑاک کھڑا کرنے کے بعد عین وقت پر حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور رکاوٹیں ہٹا لی گئیں۔ جلسہ قاسم باغ میں نہ سہی گھنٹہ گھر میں سہی ‘لیکن ہوگیا۔ اس متوقع بے وقعت سے جلسے کو کامیاب کرنے کے پیچھے حکومتی حماقتوں کا کوہ ہمالیہ کھڑا ہے۔ میرے خیال میں یہ اپنی نوعیت کا ایسا سب سے کامیاب جلسہ ہے جو ہونے سے پہلے ہی کھڑکی توڑ ہفتہ منا چکا تھا۔ ایسی صورتحال کیلئے ہی سوجوتے اور سو پیاز کھانے والا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved