تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     01-12-2020

طلب کے لمحے

آج تیزی سے تصادم کی طرف بڑھتی ہوئی سیاست کو اس کے حال پر چھوڑتے ہوئے کوچۂ علم و ادب کی سیر کو چلتے ہیں۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی ذات کو اگر میں ایک علمی حیرت کدے سے تشبیہ دوں تو کچھ مبالغہ نہ ہو گا۔ انہوں نے ایک بالکل اچھوتے اور نئے موضوع پر اپنی پرانی تحریروں پر مشتمل کتاب ''طلب کے لمحے‘‘ مرتب کی ہے جو دراصل ہمیں مشاہیر کے دورِ طالب علمی کی بعض دلچسپ جھلکیاں دکھاتی ہے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی یہ چالیسویں تصنیف ہے۔
''وہ جب لاہور آگیا تو یہاں اس کے ایک انگریز استاد اسے انارکلی بازار کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تیزی سے لے جایا کرتے تھے اور گھر جا کر حکم دیتے کہ اس دوران مشاہدے میں آنے والی اشیا کے نام لکھو... اس طرح وہ شاگرد کی قوتِ مشاہدہ کو مضبوط کرنا چاہتے تھے) استاد جب ہندوستان سے واپس انگلستان جانے لگے تو شاگرد نے وفورِ محبت سے اُن کے لیے ایک نظم لکھی۔ ایک زمانے میں جب اقبال نے شعرگوئی ترک کرنے کا ارادہ کر لیا تھا تو اسی استاد کے کہنے پر انہوں نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔ اقبال نے شفیق استاد ڈاکٹر آرنلڈ کی یاد میں ''نالۂ فراق‘‘ قلم بند کی۔ اس نظم کے دو اشعار سن لیجئے:
جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں
آہ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سرزمیں
نخل میری آرزوئوں کا ہرا ہونے کو تھا
آہ! کیا جانے کوئی میں کیا سے کیا ہونے کو تھا
پھر اقبال کی انگلستان میں اپنے استاد سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک اور عظیم شخصیت کے دورِ طالب علمی کی ایک دلچسپ جھلک مصنف یوں دکھاتے ہیں ''جب میں لندن پہنچا تو میں نے اپنے آپ کو ایک عجیب و غریب ملک اور بالکل غیرمانوس ماحول میں پایا۔ میں وہاں کی سردی اور کہرے سے سخت پریشان ہوا‘‘۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے نوجوان جناح کے اندر اپنے آپ کو حالات اور ماحول کے مطابق بدل دینے کی حیرتناک صفت نظر آتی ہے۔ جناح نے ایک بار اپنے اوّلین سفر لندن کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ جب لندن پہنچے تو انہوں نے پیلے رنگ کا لمبا کوٹ پہن رکھا تھا۔ اوّل اوّل ان کے لندنی ساتھی ان کے لباس کا مذاق اڑاتے تھے مگر انہوں نے جلدی نہ صرف وہاں کے موسم اور حالات سے ایڈجسٹ کر لیا بلکہ ان کا شمار لنکنزاِن کی سب سے زیادہ خوش پوش شخصیات میں ہونے لگا۔ محمدعلی جناح نے بیرسٹری کا امتحان بہت کم مدت میں پاس کرلیا۔ اس قدر کم مدت میں بیرسٹری کا امتحان پاس کرنے والے وہ پہلا ہندوستانی تھے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے اقبال و جناح کے علاوہ سرسیّد احمد خان‘ حالی‘ شبلی‘ مولانا محمدعلی جوہر اور حسرت موہانی وغیرہ کے زمانۂ طالب علمی کے نہایت دلچسپ اور سبق آموز واقعات اپنے دل نشیں طرزِ تحریر سے قلمبند کیے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک اور جھلک دیکھ لیجئے۔ ''چنانچہ کام کی تلاش میں پھرتا پھراتا وہ پھر لاہور آگیا۔ ایک مزدور دوست کے بتانے پر وہ زیر تعمیر اولڈ کیمپس پنجاب یونیورسٹی کی عمارت میں مزدوری کرنے لگا۔ یہاں اسے رہٹ سے پانی نکالنے کا کام ملا... رہٹ کھینچنا بیلوں کا کام تھا مگر اسے بہرحال زندہ رہنا تھا اور زندہ رہنے کے لیے محنت ضروری تھی۔ اس نے پنجاب یونیورسٹی کی تعمیر میں گارا ڈھونے‘ رہٹ کھینچنے اور معماری تک ہر مزدوری کی اور ساتھ ساتھ غیررسمی طور پر علم کی پیاس بھی بجھاتا رہا۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ اسی یونیورسٹی نے‘ جہاں اس نے مزدور کی حیثیت سے کام کیا تھا‘ اسے کئی بڑے اعزازات سے نوازا اور اس ہال میں‘ جسے اس نے تعمیر کیا تھا مزدور احسان دانش کو ملک کے نامور شاعر کی حیثیت سے بطورِ مہمان خصوصی بلایا گیا۔ جناب احسان دانش نے ہمارا غم جاناں اور غم دوراں یوں بیان کیا ہے:
الفت بدل گئی کبھی نیت بدل گئی/ خود غرض جب ہوئے تو سیرت بدل گئی
اپنا قصور دوسروں کے سر ڈال ڈال کر/کچھ لوگ سوچتے ہیں حقیقت بدل گئی
''طلب کے لمحے‘‘ میں ڈاکٹر زاہد منیر نے اپنے زمانۂ طالب علمی کے دوران اور بعدازاں اپنے زمانے کے مشاہیر سے دلچسپ سوالوں پر مبنی مختصر انٹرویوز کو بھی کتاب میں شامل کیا ہے۔ ایک سوال جو انہوں نے مشاہیر سے پوچھا وہ تھا کہ نوجوانوں کے فکری انتشار کا سبب کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب کے اس سوال کے فکرانگیز جوابات جناب مختار مسعود‘ جناب احمد ندیم قاسمی‘ ڈاکٹر خورشید رضوی اور پروفیسر صاحبزادہ عبدالرسول نے دیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔اس سوال کہ میں نے زندگی سے کیا سیکھا؟ کا جینئس استاد اور ممتاز دانشور پروفیسر غلام جیلانی اصغر نے نہایت دلچسپ تفصیلی جواب دیا۔ ڈاکٹر غلام جیلانی اصغر جیسی خوبصورت باتیں آپ نے کبھی پہلے نہ سنی ہوں گی۔حال ہی میں شائع ہونے والی یہ کتاب اس ''سیاست زدہ‘‘ ماحول میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ 
ڈاکٹر سید نصیر علی کرمانی کا انتقال:بعض لوگ اتنے خوش قسمت ہوتے ہیں کہ جب وہ اگلی دنیا کے لیے رخت ِسفر باندھتے ہیں تو انہیں یہ اطمینان ہوتا ہے کہ وہ زندگی کا قرض اتار چکے ہیں۔ وہ اُن نفوس مطمٔنہ میں شامل ہوتے ہیں کہ جن کے بارے میں خوداللہ نے بشارت دی ہے ''اے نفس ِ مطمٔنہ! اپنے پروردگار کی طرف پلٹ آ‘ اس حالت میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے‘‘۔ بعض لوگ بڑے لوگوں کی طرح مشہور تو نہیں ہوتے لیکن اُن کی شخصیت میں بڑے لوگوں والی صفات ہوتی ہیں۔ میرا ڈاکٹر سید نصیر علی کرمانی کے ساتھ کئی دہائیوں پر پھیلا ہوا قلبی تعلق تھا۔ پیشے کے اعتبار سے وہ سعودی وزارتِ صحت میں تیس برس تک ڈاکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے اور اپنے اور اپنے ملک پاکستان کیلئے نیک نامی کماتے رہے۔ 1970ء کی دہائی میں طائف میں پاکستانی کمیونٹی کے سینکڑوں بچوں کیلئے کوئی سکول نہیں تھا۔ اُن دنوں سعودی عرب میں کسی کمیونٹی سکول کا قیام لانا تھا جوئے شیر کا۔ ڈاکٹر کرمانی کنگ فیصل بن عبدالعزیز کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے حسنِ خلق سے یہ جوئے شیر جاری کروانے میں کامیاب رہے۔ گزشتہ نصف صدی سے پاکستانی سکول انٹر کالج طائف بن چکا ہے جو ڈاکٹر کرمانی کیلئے ایک صدقۂ جاریہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا جذبۂ صادق یہ تھا کہ اس سکول سے فارغ التحصیل ہونے والا ہر بچہ زیورِ تعلیم سے ہی نہیں اسلامی اخلاق و تربیت سے بھی آراستہ ہو۔ آج پاکستان میں ہی نہیں یورپ‘ امریکہ اور کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس ادارے کے فارغ التحصیل طلبہ اپنی اعلیٰ تعلیمی قابلیت‘ بہترین اسلامی تربیت اور بااعتماد شخصیت کی بنا پر ہر جگہ اپنا لوہا منواتے اور ڈاکٹر صاحب کو دعا دیتے ہیں۔ بعدازاں ڈاکٹر کرمانی نے اسی طرح کے مدارسِ تعلیم و تربیت وچیٹا کنساس اور اسلام آباد کے قریب فتح جنگ پاکستان میں بھی قائم کیے۔ڈاکٹر صاحب اوائل ِجوانی سے ہی تحریک اسلامی کے ساتھ وابستہ ہو گئے تھے اور نظامِ اسلامی کا قیام اُن کی زندگی کا مشن تھا۔ تحریک اسلامی سے اُن کی قلبی و عملی وابستگی اُن کی زندگی کے آخری سانس تک قائم رہی۔ دس بارہ روز پہلے ڈاکٹر صاحب نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا تو وہ خوش نصیب لوگوں کی طرح 84 سالہ زندگی کا ہر قرض اتار چکے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ڈاکٹر صاحب کی شادی دوطرفہ پسند کی شادی تھی۔ بھابھی خوشنود اور ڈاکٹر کرمانی نے باہمی رشتۂ وفا کو آخری دم تک نبھایا۔ جب بیگم کرمانی کو ڈاکٹر صاحب کے بچھڑنے کے اطلاع ملی تو وہ گم صم ہو گئیں اور صرف دو دنوں کے بعد ہی وہ بھی خالقِ حقیقی کے حضور حاضر ہوگئیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ دونوں سعید روحوں کی مغفرت کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved