اپنی آخری آرام گاہ کیلئے‘ اپنے سرتاج کے پہلو میں‘ اس جگہ کا انتخاب بڑی بیگم صاحبہ خود کر گئی تھیں ۔میاں محمد نوازشریف اور شہبازشریف کی والدہ محترمہ بیگم شمیم اختر‘ جو گھر میں سب کی آپی جی تھیں‘ کا جسدِ خاکی ہفتے کی صبح لندن سے لاہور پہنچا۔ سبھی بیٹیاں ماں باپ کی چہیتی ہوتی ہیں لیکن بیٹی اکلوتی ہوتو اس کی ناز برداری کا عالم ہی اور ہوتا ہے۔ کوثر ‘ ماں باپ کی اکلوتی صاحبزادی تھی‘ نواز‘شہباز اور عباس(مرحوم) بھی بہن سے لاڈ پیار میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ کوثر اب لندن سے ماں کے ساتھ آئی تھی( ان کے میاں اور کچھ دیگر رشتے دار بھی ہم سفر تھے) میت پر''سیاست بازی‘‘آخرتک جاری رہی ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات کا کہنا تھا: ''خصوصی طیارے میں اپنے لیے ہریسہ ‘ سری پائے اور نہاری منگوانے والوں نے ماں کا جسدِ خاکی لندن سے پارسل کردیا‘‘۔ کیا ڈاکٹر صاحبہ کو واقعی علم نہیں کہ میت کی منتقلی کیلئے انٹرنیشنل سول ایوی ایشن کے اپنے قواعدوضوابط ہیں ‘ جن کی پابندی سب کیلئے لازم ہے اور ان کے مطابق میت کارگو ہی میں لائی جاتی ہے۔ لندن میں کورونا ایس او پیز کی سختی کے باعث میاں صاحب اور حسین وحسن سمیت گھر کے صرف تیس افراد جنازے میں شریک ہوسکے تھے۔
بڑے میاں صاحب (جناب محمد شریف )کا سفرِ آخرت یاد آیا۔2004ء کے رمضان المبارک کا پہلا نصف بیت چکاتھا ۔ میاں صاحب کی طبیعت کچھ دونوں سے ناساز تھی۔ سرور پیلس کے گراؤنڈ فلور پر 16ویں روزے کی تراویح ادا کی جارہی تھی کہ بالائی منزل سے آہوں اور سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ بندے کو رب کا بلاوا آگیا تھا۔نمازِ جنازہ حرم میں ادا کی گئی۔ وقتِ سحر حرم کے اندر اور باہر دور دور تک فرزندانِ توحید کا ہجوم تھا۔ ان میں عربی وعجمی ‘ گورے اور کالے سبھی تھے۔ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیرایڈمرل (ر)عبدالعزیز سرور پیلس تشریف لائے۔ وہ صدر مشرف کا پیغام لائے تھے‘ لیکن غم زدگان کو میت کے ساتھ پاکستان آمد کی مشروط اجازت قبول نہ تھی۔ سوگواروں نے اشک بھری آنکھوں کے ساتھ آخری دیدار کیا اور بریگیڈیئر جاوید (سابق ملٹری سیکرٹری )اور ڈاکٹر عدنان کے ساتھ میاں صاحب کا جسدِ خاکی لاہور روانہ کردیا۔ یہاں حمزہ اپنے دادا کے خیر مقدم کیلئے ایئر پورٹ پر موجود تھا۔وہ چاہتا تھا کہ دادا کی نماز جنازہ داتا دربار میں ہولیکن حکومت تدفین میں ''غیر ضروری‘‘ تاخیر نہیں چاہتی تھی؛ چنانچہ جسدِ خاکی سیدھا جائی امرا پہنچا دیا گیا۔بڑے میاں صاحب کو الوداع کہنے ایک ہجوم تھا جو شہر سے دور جاتی امرا میں امڈ آیا تھا۔ سرکار کے زیر عتاب خاندان سے کسی کو کیا لالچ یا مفاد ہوسکتا تھا۔بے لوث تعلق تھا جو ان سب کو یہاں کھینچ لایا تھا۔ نماز جنازہ کی امامت جامعہ نعیمیہ کے سربراہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی (شہید) نے کی ‘ جن کے والد مفتی محمد حسین نعیمی سے بڑے میاں صاحب کا دوستانہ 1947ء میں شروع ہوا اور مفتی صاحب کے تادمِ آخر قائم رہا۔ مفتی صاحب اور ان کا جامعہ نعیمیہ بریلوی مکتب ِ فکر سے تعلق رکھتا ہے لیکن وہ تمام مکاتبِ فکر کے وابستگان میں عزت واحترام سے دیکھے جاتے۔ کوئی خوف یا لالچ مفتی صاحب کو کبھی چھو کر بھی نہ گزرا تھا۔1967ء میں رویت ہلال کے مسئلے پر جو علما گرفتار ہوئے ان میں سید ابو الاعلیٰ مودودی اور مولانا احتشام الحق تھانوی کے ساتھ مفتی محمد حسین نعیمی بھی تھے۔ بلوچستان کے دوردراز علاقے مچھ کی جیل مفتی صاحب کا مسکن قرار پائی۔ 1968ء میں ایوب خاں کے جشنِ عشرہ ٔترقی کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ لاہور شہر سے دور داروغہ والا میں اسلامی جمعیت طلبہ کا سہ روزہ سالانہ اجتماع ہورہاتھا۔ایک پروگرام شہر میں مختلف شعبوں کی ممتاز ونمائندہ شخصیات کی میٹنگ کا بھی تھا۔ مقررین میں نواب زادہ نصر اللہ خاں ‘ میاں طفیل محمد اور مولانا عبدالستار خاں نیازی شامل تھے۔ ( یہ سب فیلڈ مارشل کے نا پسندیدہ تھے) شہر میں جو ایک‘ دوبڑے ہوٹل تھے‘ وہ اپنا ہال دینے پر آمادہ نہ ہوئے ۔ ایسے میں مفتی محمد حسین نعیمی نے جامعہ نعیمیہ کے دروازے کھول دیے۔ یہ اجتماع آ مریت کی گھٹن میں جمہوریت پسندوں کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھا۔ بڑے میاں صاحب کی نماز جنازہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے پڑھائی تھی۔ (وہ 12جون 2009ء کو نمازِ جمعہ کے بعد جامعہ نعیمیہ ہی میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے) اب بڑی بیگم صاحبہ کی نمازِ جنازہ کی امامت ان کے صاحبزادے علامہ راغب نعیمی نے پڑھائی۔ شریف میڈیکل سٹی کے وسیع وعریض گرائونڈ کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔
30نومبر کا ملتان کا جلسہ حکومت اور پی ڈی ایم دونوں کیلئے بے پناہ اہمیت اختیار کرگیا تھا؛ چنانچہ جنوبی پنجاب کے کارکنوں کیلئے ہدایت تھی کہ وہ اپنی تمام تر توجہ اور توانائیاں اس جلسے پر مرکوز کردیں۔ اس کے باوجود یہ ایک بڑا جنازہ تھا۔ شرکا کی تعداد ہزاروں تک جاپہنچی تھی۔ کورونا ایس او پیز کی بھی مقدور بھرپابندی تھی۔ بیشتر لوگ ماسک پہن کر آ ئے تھے۔ باقیوں کو یہاں ماسک مہیا کئے جارہے تھے۔ سینٹی ٹائزر بھی دستیاب تھا۔ مناسب حد تک سماجی فاصلے کا بھی اہتمام تھا۔
شہباز شریف (اور حمزہ) کی رہائی تک مسلم لیگ(ن) کے ہیڈ کوارٹر 180-Hماڈل ٹائون میں صبح گیارہ بجے سے سہ پہر تین بجے تک مسلم لیگ کے قائدین موجود ہوتے‘ تعزیت کیلئے آنے کا سلسلہ جاری رہتا۔ تین سے پانچ بجے تک مریم نواز جاتی امرا میں تعزیت کرنے والوں کے درمیان ہوتیں۔ہفتے کی سہ پہرتدفین کے بعد حمزہ سوگواروں کے درمیان موجود رہے۔ اس کے بعد شہباز صاحب تعزیتوں کی وصولی کیلئے موجود تھے۔ جو لوگ نماز جنازہ میں ہجوم کے باعث نہیں مل سکے وہ اب آرہے تھے۔ شہباز صاحب کی رہائش کا گول کمرہ تعزیت گاہ بن گیا تھا۔
ہم الطاف حسن قریشی صاحب کے ہمراہ پہنچے۔ الطاف صاحب ما شاء اللہ 90عبور کرچکے ہیں لیکن ذہنی طور پر اسی طرح تنومند ہیں حافظہ اب بھی بلا کا ہے۔ البتہ گھٹنے جواب دے رہے ہیں‘ چند قدم اپنے پائوں پر چل لیتے ہیں‘ جس کے بعد سہارے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وہیل چیئر کے استعمال کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے کہ معذوری کا تاثر نہیں دینا چاہتے۔ شہباز انہیں دیکھتے ہی کرسی سے اُٹھے اور تیزی سے ان کی طرف لپکے۔ الطاف صاحب سے ا ن کے برادرِ بزرگ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے انتقال پر اظہارِ تعزیت کے ساتھ ان کی مغفرت کیلئے ہاتھ اٹھادیے۔ دیگر حاضرین نے بھی تقلید کی ۔ ہم بڑی بیگم صاحبہ کے انتقال پر تعزیت کیلئے آئے تھے‘ شہباز صاحب دیر تک ڈاکٹر اعجاز صاحب کا ذکر کرتے رہے۔
اتوار کوبھی تعزیت کا سلسلہ جاری رہا۔ لیاقت بلوچ اور ڈاکٹر فرید پراچہ بھی آ ئے۔ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ(ن) میں کچھ عرصے سے Love & Hate(محبت اور نفرت) کا تونہیں‘ محبت اور بے اعتنائی کا تعلق ضرور چلا آرہا ہے ا لبتہ ''سماجی تعلق‘‘ قائم ودائم رہتا ہے۔ حافظ سلمان بٹ جماعت کی نوجوان قیادت میں بہت نمایاں رہے ہیں‘ 1985ء کے الیکشن میں لاہور میں میاں صلاح الدین کو ہرانا کوئی معمولی بات نہیں تھی‘بعد میں آئی جے آئی کے ٹکٹ پر بھی منتخب ہوئے اور اکتوبر2002ء میں لاہور میں میاں اظہر جیسے قد آور کے مقابلے میں سرخرو ٹھہرے۔ اس الیکشن میں لاہور سے لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ بھی منتخب ہوئے تھے۔
جاتی امرا کے ''خاندانی قبرستان‘‘ میں یہ چوتھی قبر ہے۔ اس شام مریم نواز صاحبہ سے تعزیت کے بعد ہم ان قبروں پر فاتحہ خوانی کیلئے آئے(حامد ولید اور رانا فاروق دلدار بھی ساتھ تھے) یہاں قاری زاہد صاحب نے بڑا دلگداز انکشاف کیا '' والدہ صاحبہ کے قدموں میں یہ جگہ میاں نوازشریف صاحب نے اپنے لیے منتخب کررکھی ہے‘‘۔