تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     01-12-2020

حلیمہ سعدیہؓ

محمد بن عبداللہ (ﷺ) کی پیدائش پر پورے مکہ میں بالعموم اور خاندان بنوہاشم میں بالخصوص خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ابولہب جو آپﷺ کا چچا تھا‘ کو اس کی لونڈی ثویبہ نے جب یہ اطلاع دی تو وہ اتنا خوش ہوا کہ اس نے اپنی لونڈی کو اس خوشی میں آزاد کردیا۔ ثویبہ کا بیٹا مسروح اس وقت شیرخوار تھا، ثویبہ نے آپﷺ کو اپنا دودھ پلایا۔ یوں انہیں بھی آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ثوبیہ ؓ آپﷺ پر ایمان بھی لے آئی تھیں۔ بعدازاں آپﷺ نے حلیمہ سعدیہ کے ہاں اپنا دورِ شیرخواری گزارا۔ آپﷺ نے حضرت حمزہؓ کی والدہ ہالہ کا دودھ بھی پیا تھا۔ وہ بھی آپﷺ کی رضاعی والدہ ہیں۔ 
قریش اپنے شیرخوار بچوں کو فصیح وبلیغ عربی زبان سیکھنے کی خاطر شیرخوارگی کے زمانے میں دیہاتی علاقوں میں بھیج دیا کرتے تھے۔ ان کو دودھ پلانے والی خواتین معاوضے پر ان بچوں کودودھ پلاتی تھیں۔ وہ ان کی دیکھ بھال اور پرورش کرتیں۔ انہیں فصیح عربی زبان سیکھنے کا موقع بھی ملتا تھا۔ بچوں کی تلاش میں ہر سال مختلف قبائل سے عورتیں مکہ آتی تھیں۔ آنحضورﷺ کی پیدائش کے سال قبیلہ بنوسعد بن بکر سے دس عورتیں بچوں کے حصول کے لیے مکہ آئیں۔ ان میں سے نو خواتین کو تو وہ بچے مل گئے جن کے والد موجود تھے، ایک خاتون حلیمہ سعدیہ خالی ہاتھ رہ گئی۔ ان میاں بیوی کو معلوم ہوا کہ ایک یتیم بچہ جو سردار قریش عبدالمطلب کا پوتا ہے‘ وہ رہ گیا ہے جس کا حصول ممکن ہے۔ حلیمہ اور اس کے خاوند حارث بن عبدالعزیٰ نے سوچا کہ یتیم بچے کی کفالت سے ہمیں کیا ملے گا۔ بالآخر انہوں نے مجبوراً یہ فیصلہ کرلیا کہ خالی ہاتھ جانے کی بجائے اسی بچے کو لے چلتے ہیں۔ یہ فیصلہ اگرچہ بظاہر مجبوراً کیا گیا مگر یہ انتہائی مبارک فیصلہ تھا۔ اس خوش بخت گھرانے کو درِّیتیم کیا ملا، اللہ کی رحمتیں ان پر نازل ہونا شروع ہوگئیں۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حارث نے شروع میں یتیم بچے کو لینے کی مخالفت کی مگر پھر یہ سوچ کر کہ خالی ہاتھ جائیں گے تو سُبکی بھی ہوگی اور شاید یتیم کے ساتھ ایسے سلوک کی وجہ سے ہم سے خدا بھی ناراض ہوجائے گا۔ اب جو ان انعاماتِ ربّانی کو دیکھا تو احساس ہوا کہ واقعی وہ فیصلہ بہت اچھا تھا۔ 
حلیمہ مکہ کی جانب سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان فرماتی ہیں کہ سخت قحط سالی کی وجہ سے ہمارے جانور انتہائی لاغر ہوگئے تھے۔ میں اپنی بھورے رنگ کی گدھی پر سوار تھی اور میرے خاوند حارث ایک اونٹنی پر سوار تھے جو بمشکل چل سکتی تھی اور شیردار ہونے کے باوجود اس کا دودھ بھی سوکھ گیا تھا۔ ہم بارش کے انتظار میں تھے، مگر بارش کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا۔ مکہ تک کا سفر ہم نے بڑی مشکل سے طے کیا۔ قافلے والوں کو کئی جگہ رک کر ہمیں اپنے ساتھ ملانا پڑا۔ مکہ میں پہنچ کر بھی شروع میں ہمیں قدرے مایوسی ہوئی مگر اللہ تعالیٰ کو ہماری قسمت بدلنا مقصود تھا۔ اس لیے مکہ میں موجود دس نومولود بچوں میں سے نوبچے دیگر مرضعات (دودھ پلانے والیوں) نے ہم سے پہلے حاصل کرلیے۔ آخر میں دُرّ یتیم رہ گئے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری قسمت میں لکھے گئے تھے۔ ان کا ہمارے ہاتھ آنا تھاکہ اللہ کی رحمتیں ہماری طرف متوجہ ہوگئیں۔ (السیرۃ الحلبیۃ، ج1، ص130-131)
جب حلیمہ جناب عبدالمطلب کے پاس آئیں تو انہوں نے نام پوچھا۔ انہوں نے بتایا حلیمہ سعدیہ۔ جناب عبدالمطلب خوش ہوگئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا: حِلم اور سعادت کا امتزاج کیا خوب! پھر فرمایا: میرے ساتھ آؤ۔ حضرت حلیمہ خود بیان کرتی ہیں کہ جناب عبدالمطلب نے سیدہ آمنہ کا دروازہ کھولا اور مجھے بہت پیار ومحبت سے اندر آنے کے لیے خوش آمدید کہا۔ پھر فرمایا یہی میرا بیٹا محمد(ﷺ) ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم اسے دودھ پلانے کے لیے اپنے ساتھ لے جاؤ۔ جوں ہی چہرہ مبارک پر حلیمہ سعدیہ کی نظر پڑی تو وہ خوش ہوگئیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ جب میں نے بچے کو اٹھایا تو وہ سو رہا تھا۔ اس کی ماں نے اسے سفید رنگ کے صوف کے کپڑے سے ڈھانکا ہوا تھا اور سبز رنگ کا ریشمی بستر اس کے نیچے تھا۔ اس کے چہرے سے ایسی روشنی مجھے نظر آئی جو آسمان تک بلند ہوگئی۔ اس موقع پر مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ بچہ میرے اٹھانے سے جاگ نہ جائے اور رونے نہ لگ پڑے، مگر میں نے دیکھا کہ وہ یوں پُرسکون انداز میں سویا ہوا تھا کہ اس کے چہرے پر مکمل طمانیت تھی۔ پھر اچانک جب میں نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا تو وہ مسکرایا اور اپنی دونوں آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا۔ میرا دل باغ باغ ہوگیا۔ پس میں نے اس کا چہرہ چوما اور اس کو اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ (ایضاً)
اس وقت تک میاں بیوی کو پوری طرح یہ احساس نہیں تھا کہ انہیں کیا برکات حاصل ہونے والی ہیں۔ آپﷺ کو گود لیتے ہی ان کے سامنے یہ حقیقت کھل گئی کہ یہ بچہ بڑی شان اور مقام کا حامل ہے۔ انہوں نے فوری طور پر برکات اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ جب انہوں نے محمدﷺ بن عبداللہ کو اپنی گود میں لیا تو حلیمہ کی دونوں چھاتیاں دودھ سے یوں بھر آئیں کہ انہیں محسوس ہوا دودھ ٹپکنے لگے گا۔ ایک جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا تو خوب سیر ہوگئے۔ حلیمہ کے بیٹے عبداللہ نے دوسری جانب سے دودھ پیا تو وہ بھی خوب سیر ہوگیا۔ دُرّ یتیم کا مستقل معمول رہا کہ جس جانب سے انہوں نے دودھ پیا تھا، اسی جانب سے پیتے تھے۔ دوسری جانب سے وہ دودھ پینے سے انکار کردیتے۔ ( ایضاً)
اب جو اپنے علاقے کی جانب یہ لوگ چلے تو ایک اور عجیب منظر سامنے آیا۔ ان کی نحیف ونزار سواریاں جو بمشکل قبیلہ بنوسعد سے مکہ پہنچی تھیں‘ اب واپسی پر ان کی نرالی شان تھی۔ وہ سب سواریوں سے آگے نکل گئیں۔ رخصت کرتے وقت آنحضورﷺ کی والدہ ماجدہ نے حلیمہ سے کہا ''اے مہربان اور شرافت کی پتلی حلیمہ! اس بچے کی طرف پوری طرح توجہ دینا۔ اللہ نے چاہا تو بہت جلد اس کی ایک شان ہوگی‘‘۔ پھر انہوں نے اپنے بیٹے کے حمل سے لے کر ولادت تک کے چند واقعات بھی حلیمہ کو بتائے۔ ایک واقعہ یہ تھا کہ پیدائش کے وقت انہوں نے ایک ایسی روشنی دیکھی جس میں انہیں دور دراز ممالک (بصریٰ، شام) کے محلات نظر آئے اور دیگر بہت سے خرقِ عادت واقعات سے بھی سابقہ پیش آیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ حسن اتفاق ہے کہ مجھے متواتر تین راتیں یہ پیغام ملتا رہا کہ اپنے بیٹے کو قبیلہ بنوسعدبن بکر اور آلِ ابو ذوئیب میں دودھ پلانا۔ حلیمہ نے کہا: میرے والد کی کنیت ابوذوئیب ہے۔ جب یہ خاندان وادیٔ سرر میں پہنچا تو ان سے پہلے روانہ ہونے والی دائیوں سے ان کی ملاقات ہوگئی۔ ان عورتوں نے حلیمہ سے پوچھا: حلیمہ! پھر تمھارے ساتھ کیا بنا؟ حلیمہ نے جواب دیا: اخذتُ وَاللّٰہِ خَیْرَ مولودٍ رَأیتُہٗ قَطُّ وَاَعْظَمُہُمْ بَرَکَۃً۔ یعنی خدا کی قسم جتنے بچے میں نے آج تک دیکھے ان سب میں بہترین، معزز ترین، برکت والا مولود مل گیا ہے۔ 
عورتوں نے کہا: کیا وہی عبداللہ کا یتیم لڑکا؟ حلیمہ نے خوش ہو کر جواب دیا: ہاں وہی دُرّیتیم۔ حلیمہ کہتی ہیں: ہم نے اس منزل سے کوچ بھی نہ کیا تھا کہ میں نے دیکھا بعض عورتوں میں حسد نمایاں ہے۔ اس پر بعض مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت حلیمہ جب آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ آمنہ سے حاصل کرکے اپنے گھر لے کر گئیں تو رخصت کے وقت آپﷺ کی والدہ حضرت آمنہ نے کہا:
اعیذہ باللہ ذی الجلالٖ
من شَرِّ ما مرّ علی الجبالٖ
حَتّٰی اراہُ حاملَ الحلالٖ
وَیَفْعَلَ العُرْفَ الی الْمَوالی
وَغیرِہم من حِشْوَۃ الرجالٖ
میں اپنے بیٹے کو اللہ ذوالجلال کی پناہ میں دیتی ہوں، ہر اس شر سے جو پہاڑوں پر اترتا اور انسانوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ اسے خیریت سے رکھے، یہاں تک کہ میں اسے کامیابیوں، کامرانیوں پر فائز دیکھ سکوں۔
(اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں) جب میں اسے غلاموں اور بے کسوں کے ساتھ نیکی کرتا ہوا دیکھوں 
اور غلاموں کے علاوہ بھی جو لوگ بے مایہ ہوں ان پہ احسان کرتا ہوا پاؤں۔ (ابن سعد، ج1، ص110-111)
ان اشعار کے اندر ایک عجیب حلاوت اور تاثیر ہے۔ سیدہ آمنہ کا یہی ایک بیٹا تھا جس کے سر سے والد کا سایہ بھی اٹھ چکا تھا۔ اس بیٹے کی پیدائش سے قبل اور اس کے بعد بھی انہوں نے ایسے عجیب وغریب اور دل ربا مناظر دیکھے تھے جومعمول سے بالکل ہٹ کر تھے۔ ان کا دل گواہی دے رہا تھا کہ یہ بچہ عام بچوں کی طرح نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص، چنیدہ اور محبوب بچہ ہے۔ اللہ اس سے کوئی بہت بڑا کام لینا چاہتا ہے اور جتنا اس کا بلند مقام ہے اتنا ہی اس کی حفاظت کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ وہ اور کیا حفاظت کرسکتی تھیں سوائے اس کے کہ اپنے درّیتیم کو اس ذات کی حفاظت میں دے دیں کہ جس کی حفاظت میں آنے کے بعد دنیا کی کوئی طاقت اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔ ان اشعار کے اندر ماں کا دھڑکتا ہوا دل اور مامتا کی بے پناہ محبت موجزن ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved