تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     21-06-2013

میں نہیں مانتا!

ہم نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ کشکول ایک بار پھر اٹھا لیا ہے۔ بڑھکیں کام نہیں آئیں اور اب وزارتِ خزانہ کے بابو اس تاریخی کشکول کو پالش سے چمکا کر دوبئی لے جائیں گے اور عالمی اداروں کے سامنے پھیلا کر اس میں پیسے ڈلوا کر لوٹ آئیں گے۔ اس طرح ہم نئے سرے سے قرض کی مے پینا شروع کردیں گے۔ ہم آئی ایم ایف سے ساڑھے چار ارب ڈالر کا قرضہ لینے جارہے ہیں اور اس کے بدلے ہر چیز پر نیا ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔جنہوں نے ٹیکس لگایا ہے وہ خود چند ہزار روپے ٹیکس دینے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ الٹا اپنے الائونس ڈیڑھ لاکھ روپے سے تین لاکھ روپے کرا لیے ہیں۔ لگتا ہے اس ملک میں لوٹ مار کی داستانیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ اب انکشاف ہوا ہے کہ بینظیر بھٹو کے دور میں 1989ء میں پندرہ ارب روپے سے شروع کیے گئے نیلم جہلم منصوبے کی لاگت دو سو بہتر ارب روپے ہوچکی ہے۔ اندازہ کریں کہ بائیس برس میں ہم سے وہ منصوبہ مکمل نہ ہوسکا جسے تین سال میں مکمل ہونا تھا۔ بائیس برس کی تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اوپر بیٹھے بٹھائے تین ارب ڈالر کا اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ یہ بوجھ کسی اور کو نہیں‘ اس قوم کو ہی برداشت کرنا ہے۔اس منصوبے کے لیے پیسے اکٹھے کرنے کی خاطر پاکستان بھر کے بجلی کے صارفین سے ہر ماہ دس پیسہ فی یونٹ سرچارج وصول کیا جاتا ہے۔ اس طرح سالانہ چھ ارب روپے پاکستانیوں کی جیبوں سے نکالے جارہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک طرف اس منصوبے پر لاگت بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف سرچارج۔ کام کہیں نہیں ہورہا۔ عالمی اداروں کو قرضے کے لیے درخواستیں پیش کی جا رہی ہیں۔ اب ایک نیا سکینڈل سامنے آیا کہ ایک ڈرل مشین‘ جس کی قیمت چونتیس ملین ڈالر تھی‘ نوے ملین ڈالر میں خریدی گئی۔ پچاس ملین ڈالر کمشن کس کی جیب میں گیا ، اس کا کسی کو کچھ علم نہیں۔ جنہوں نے کھانا تھا وہ کھا کر چلے گئے۔ اب ہم عوام ہر سال چھ ارب روپے بجلی کے بلوں کے ساتھ ادائیگی کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ نیلم جہلم پروجیکٹ پہلا اور آخری منصوبہ نہیں‘ جس کی لاگت بیٹھے بٹھائے ہماری نااہلیوں اور کرپشن کی وجہ سے آسمان تک جا پہنچی ہے جس کے نتیجے میں ہم دنیا بھر سے قرضے مانگتے پھرتے ہیں اور اپنے ہی لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ چند برس پہلے کی بات ہے تاجکستان کے ساتھ گیس کے حصول کا معاہدہ ہونے لگا تو اس وقت اس منصوبے کی لاگت ساڑھے تین ارب ڈالر تھی۔ اب چند برس گزرنے کے بعد اسی منصوبے کی لاگت ساڑھے سات ارب ڈالر ہوچکی ہے کیونکہ اس پر کام شروع نہیں ہوسکا تھا۔ ایران سے گیس خریدنے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑتا نظر آ رہا ہے۔ معاہدے کے تحت اگر پاکستان نے دو ہزار چودہ تک پائپ لائن نہ بچھائی اور گیس کی سپلائی نہ لی تو ہر سال پاکستان کو بھاری جرمانہ ایران کو ادا کرنا ہوگا ۔ ایران اپنے حصے کی پائپ لائن بچھا چکا ہے اور اس نے ہمیں پانچ سو ملین ڈالر کا قرضہ بھی دیا ہے تاکہ ہم اپنے ملک میں گیس پائپ لائن بچھا لیں۔ اب بتائیں ہم ایران کو کہاں سے دو ارب ڈالرز سالانہ جرمانہ ادا کریں گے؟ ایک اور داستان: منگلا ڈیم اپ ریزنگ کا منصوبہ شروع ہوا تو لاگت چالیس ارب روپے تھی۔ پھر بڑھ کر پچاس ارب روپے ہوئی، پھر ستر ارب روپے، اس کے بعد ایک سو دس ارب روپے اور اب ایک سو تیس ارب روپے کے ہندسے کو عبور کر چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس پروجیکٹ سے کھل کر پیسے بنائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ایسے کئی منصوبوں کی تفصیلات موجود ہیں کہ ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریٹس کی نااہلی کی وجہ سے منصوبوں کے اخراجات آسمان پر جا پہنچے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف راجن پور میں محکمہ زکوٰۃ کے ایک ملازم نے اپنے دفتر میں جاکر دو ساتھیوں کو گولیاں مار دیں کہ اسے کئی ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی تھی۔ اسی پنجاب‘ جہاں اسے تنخواہ نہیں ملی تھی، کی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کی گئی کچھ دستاویزات سے پتہ چلا ہے کہ ایک بھارتی ہسپتال کو صرف چالیس مریضوں کے علاج کے اخراجات کے طور پر پندرہ کروڑ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے وفاقی حکومت نے صرف پانچ اہم افراد کے بیرون ملک علاج پر بارہ کروڑ روپے خرچ کیے تھے۔ اسلام آباد کا ایک شہری تو اتنا خوش نصیب نکلا کہ اسے لاہور سے پچاس لاکھ روپے کا امدادی چیک سرکاری خزانے سے بھیجا گیا۔ لاہور کے ایک بابو کو لاہور شہر کا ایک منصوبہ مکمل کرانے کا نقد انعام بیالیس لاکھ روپے ملا جبکہ سابق نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کی کوششوں کے باوجود سات سو خصوصی بچوں کے ڈیرہ غازی خان سکول سے برطرف ہونے والی گیارہ استانیوں کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے نہ نکل سکے۔ اس وقت کہا گیا خزانہ خالی ہے۔ کئی مہربانوں نے ای میل کر کے کہا ہے کہ وہ ان استانیوں کو ہر ماہ تنخواہ دینے کو تیار ہیں؛ تاہم پنجاب کی سپیشل ایجوکیشن اور فنانس کے پاس اس معاملے پر غور کے لیے نہ وقت ہے اور نہ ہی پیسے۔ یہ وہ ترجیحات ہیں جو ہمارے حکمرانوں اور بابوئوں نے اپنے لیے قائم کر رکھی ہیں۔ پھر بھی کہا جاتا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو قتل کر کے خودکشی کیوں کرتے ہیں؟ یا پھر ایک ملازم تین ماہ تنخواہ نہ ملنے پر اپنے ساتھیوں کو گولیاں کیوں مارتا ہے؟ کوئی یقین کرے گا کہ ایک ایسے ملک میں‘ جہاں ہم آئی ایم ایف سے چارارب ڈالر کا قرضہ لینے جارہے ہیں، صرف پچاس افراد کے بیرون ملک علاج پر قومی خزانے سے 27 کروڑ روپیہ خرچ ہوجاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پچھلے دس سال کے دوران سب اہم افراد کے بیرونِ ملک علاج کا خرچہ اکٹھا کرلیں تو یہ رقم ایک ارب روپے سے بڑھ جائے گی۔ اس سے ایک اعلیٰ درجے کا ہسپتال بن سکتا تھا جہاں دنیا بھر کی سہولیتں مل سکتی تھیں لیکن لندن، نیویارک میں علاج کے اپنے ہی مزے ہیں۔ ہم افغانستان میں اپنی مرضی چاہتے ہیں۔ بھارت سے ہم مسلسل حالتِ جنگ میں ہیں اور حالت یہ ہے قرضوں پر چل رہے ہیں اور نئے قرضے اس لیے لینے جارہے ہیں تاکہ پرانے قرضے اور ان پر واجب الادا مارک اپ ادا کر سکیں۔ امریکہ سے ہماری جنگ چل رہی ہے حالانکہ امریکہ سے اربوں ڈٖالر کیری لوگر بل کے تحت امداد اور کولیشن سپورٹ فنڈ لیتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ہماری چھ سو ملین ڈالر سے زیادہ ٹیکسٹائل کا خریدار ہے۔ سعودی عرب اور برطانیہ کے بعد سب سے زیادہ زرمبادلہ ہمیں امریکہ میں رہنے والے پاکستانی بھیجتے ہیں۔ ہم آج تک فیصلہ نہیں کر سکے کہ امریکہ ہمارا دوست ہے یا دشمن ۔ اگر آپ کا بلڈ پریشر ابھی تک نارمل ہے تو میں شرط لگاتا ہوں اب نہیں رہے گا ۔ جھنگ کے ایک شکاری سے دس لاکھ روپے کا ایک نایاب عقاب خرید کر لاہور لایا گیا اور پھر قومی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دبئی کی ایک اہم شخصیت کو تحفے کے طور پر دے دیا گیا۔ جب نایاب عقاب خریدا جارہا تھا تو کسی نے خبردار کیا کہ جناب! یہ سب غیرقانونی ہے۔ آپ یہ عقاب کسی کو تحفہ نہیں دے سکتے۔ جب اس اہم شخصیت کو قوانین کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے ترنم سے گا کر کہا ’’ایسے قانون کومیں نہیں مانتا‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved