وزیراعظم عمران خان آج سے تقریباً بائیس برس قبل جب میدانِ سیاست میں اُترے اور پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو انہیں سب سے زیادہ پذیرائی نوجوان نسل کی جانب سے ملی کیونکہ وہ ایک کھلاڑی تھے اور کرکٹ ورلڈ کپ کے فاتح کپتان کی حیثیت سے پوری قوم کے ہیرو بھی‘ لیکن نوجوان ان کے زیادہ مداح تھے اور انہوں نے ہی ابتدا میں پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے دیگر بانی رفقا نے جب دیکھا کہ ان کی پارٹی کے زیادہ تر سپورٹرز نوجوان ہیں تو انہوں نے ''یوتھ‘‘ کا نعرہ لگایا اور اقبال کے شاہینوں کے ذریعے قوم کا مستقبل تبدیل کرنے کا پلان بنایا۔ پی ٹی آئی کے ابتدائی سیاسی دور میں جو نوجوان عمران خان کے مداح اور حامی تھے‘ ان کی اکثریت اٹھارہ سال سے کم عمر تھی جن کے اس وقت نہ تو قومی شناختی کارڈ بنے تھے اور نہ ہی انہیں ووٹ کا حق حاصل تھا۔2013 ء میں صورتِ حال بدل چکی تھی اور خان صاحب کے مداحوں کی اکثریت شناختی کارڈ اور ووٹ کا حق حاصل کر چکی تھی‘ اسی لئے پاکستان تحریک انصاف نے نوجوان نسل کے ذریعے ملک میں تبدیلی کا نعرہ بلندکیا اور اپنے نعروں، ترانوں اور بلند بانگ دعووں سے نوجوان نسل کے جوش و جذبے کو گرمایا۔ پھر ایک سو چھبیس دن کے دھرنے میں بھی نوجوانوں کا جوش دیدنی تھا جس نے عمران خان کو سیاسی طور پر مزید تقویت بخشی۔ 2018ء کے عام انتخابات میں انہی نوجوانوں کی بدولت تحریک انصاف ایوانِ اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہو پائی۔ اقتدار ملنے کے بعد سب سے بڑی حامی ہونے کی وجہ سے اس جماعت سے سب سے زیادہ توقعات بھی نوجوان نسل نے ہی وابستہ کر رکھی تھیں، چونکہ ہر عمر کی توقعات اور تقاضے الگ ہوتے ہیں لہٰذا نوجوانوں کی توقعات بھی قدرے مختلف تھیں۔ شاہین سمجھتے تھے کہ اب انہیں تعلیمی اداروں میں داخلے کے لئے کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں رہے گی، نوکریاں بھی کسی قسم کی رشوت یا سفارش کے بغیر سو فیصد میرٹ پر مل سکیں گی، روزگار کے مواقع زیادہ سے زیادہ ہوں گے، مہنگائی ختم ہو جائے گی۔ ایک سپورٹس مین وزیراعظم سے سب سے بڑی توقع ملک میں کھیلوں کی جدید ترین سہولتوں کی فراہمی اور نوجوان کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر کرنے کی تھی۔ وزیراعظم عمران خان کی حامی نوجوان نسل کی خواہش تھی کہ وزیراعظم کھیلوں سے متعلقہ وزارت اپنے پاس رکھیں اور سپورٹس کے شعبے میں ایسا انقلاب برپا کریں جس سے پاکستان کھیلوں کی دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکے۔ نوجوانوں کا خیال تھا کہ اب وزیراعظم روزانہ پی ایم ہائوس اور سیکرٹریٹ سے صرف چند سو گز کے فاصلے پر واقع پاکستان سپورٹس کمپلیکس میں ان کے ساتھ واک کیا کریں گے، شاید یہ خام خیالی اس لیے بھی تھی کہ اس سے قبل سابق صدر پرویز مشرف سمیت کئی سربراہانِ مملکت اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر روزانہ سپورٹس کمپلیکس آتے اوربیڈمنٹن وغیرہ کھیلتے تھے۔ لیکن شاید بطور وزیراعظم عمران خان کی ترجیحات کچھ اور ہیں، اسی لیے حکومت سنبھالنے کے بعد کھیلوں کا شعبہ ان کی ترجیحات میں نمایاں مقام نہیں پا سکا۔ وفاقی سطح پر کھیلوں کانظم و نسق سنبھالنے والی وفاقی وزارتِ بین الصوبائی رابطہ کا قلمدان ایک اتحادی جماعت کو کوٹے میں دے دیا گیا اور یوں یہ قرعہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے نام نکلا جن کا شاید ہی کبھی سپورٹس سے واسطہ رہا ہو۔ بدقسمتی نوجوان کھلاڑیوں کی یہ کہ فروری 2018ء میں ڈائریکٹر جنرل پاکستان سپورٹس بورڈ ڈاکٹر اختر نواز اپنی مدتِ ملازمت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو چکے تھے اوراس بات کا انتظارتھا کہ نئی حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد ملک میں کھیلوں کا نظام چلانے والے سب سے بڑے ادارے‘ پی ایس بی میں ڈی جی کی تعیناتی عمل میں لائے۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے وزارت کا قلمدان سنبھالا تو انہیں بتایا گیا کہ سب سے اہم اور اولین ترجیح ملک میں کھیلوں کے سب سے بڑے ادارے میں سربراہ کی تعیناتی ہے کیونکہ اس کے بغیر نظام ٹھپ ہو چکا ہے اور کھیلوں کے معاملات تباہی سے دوچار ہو رہے ہیں کیونکہ وزارت کے جن افسران کو ڈھائی‘ تین ماہ کیلئے ڈی جی پی ایس بی کا اضافی چارج دیا جاتا ہے، وہ اس شعبے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے اور معاملات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
راقم الحروف نے جب ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا پہلا انٹرویو کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے جو افسر پورے ملک میں ناکارہ سمجھا جاتا تھا‘ اسے پاکستان سپورٹس بورڈ میں لگا دیا جاتا تھا لیکن اب ایک عالمی چمپئن وزیراعظم ہیں‘ اس لئے آپ دیکھیں گے کہ آئندہ چند یوم میں کھیلوں کو سمجھنے والی کسی ایسی شخصیت کو ڈی جی تعینات کیا جائے گا جسے عالمی سطح پر کھیلوں کا نظم و نسق چلانے کا وسیع تجربہ ہو۔ اس بات کو بھی دو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے جبکہ ڈی جی کا عہدہ تین سال ہونے والے ہیں‘ ابھی تک خالی پڑا ہے اور کوئی بھی تاحال پاکستان سپورٹس بورڈ کا سربراہ تعینات نہیں ہو سکا۔ تقریباً ایک سال قبل‘ یہ مشق ضرور دیکھنے کو ملی کہ عالمی سطح پر سپورٹس کا وسیع رکھنے والی ایک شخصیت کی تعیناتی کی خبریں گردش میں آئیں جس کا پورے ملک میں کھیلوں کے ماہرین، شائقین اور قومی فیڈریشنوں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا لیکن پھر یہ معاملہ بھی سرد خانے کی نذر ہو گیا اور آج تک کسی کی بھی تقرری نہیں ہو سکی۔
سابق ڈی جی کی ریٹائرمنٹ کے بعد تقریباً دو سال تک وزارت کی جانب سے جوائنٹ سیکرٹری سطح کے کسی افسر کو تین ماہ کیلئے پی ایس بی کے سربراہ کا اضافی چارج دیا جاتا رہا‘ جو افسر بھی اس سیٹ پر آتا، اسے یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پاس صرف اڑھائی ماہ ہیں‘ لہٰذا اس قلیل عرصہ میں اس نے بیرونِ ملک ٹور بھی کرنا ہوتا اور باقی معاملات بھی سیدھے کرنا ہوتے، اسی لیے یہ سیٹ نہایت پُرکشش سمجھی جانے لگی لیکن جب یہ شکایات سامنے آئیں تو اس پر الٹا اثر ہوا اور ادارے میں مستقل سربراہ کی تعیناتی کے بجائے کسی افسر کو ڈی جی کا اضافی چارج دینے کا سلسلہ بھی بند کر دیا گیا۔ یوں سپورٹس بورڈ کے تمام معاملات وفاقی وزارت کو منتقل ہو گئے۔ ایک ڈپٹی ڈی جی کی جانب سے معاملے کو زیرالتوا رکھ کر مزید طول دینے میں بھی مبینہ طور پر بدنیتی نظر آتی ہے۔
تقریباً ایک سال سے پاکستان سپورٹس کمپلیکس میں کھیلوں کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور کھیلوں کا انفراسٹرکچر دیگر سرگرمیوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے جو اس ملک کی نوجوان نسل کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی ہے۔ بورڈ کے سینئر آفیشلز کا کہنا ہے کہ تمام اختیارات وفاقی وزارت کے پاس ہیں لہٰذا کسی بھی ٹورنامنٹ یا کیمپ کی منظوری سے لے کر کسی انٹرنیشنل کھلاڑی کو ہاسٹل میں ایک رات کے لیے کمرہ دینے حتیٰ کہ ممبران کے ممبرشپ کارڈز کی تجدید کی منظوری بھی وفاقی وزارت کی جانب سے ہوتی ہے اور وزارت کی دیگر مصروفیات کے باعث تقریباً تمام معاملات ٹھپ ہو چکے ہیں، کھیلوں کی سرگرمیاں پوری طرح معطل ہیں اور انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے۔2021ء میں سائوتھ ایشین گیمز کا میزبان چونکہ پاکستان ہے لہٰذا اس انٹرنیشنل ایونٹ کا انعقاد پاکستان سپورٹس بورڈ کے مستقل سربراہ کی تعیناتی کے بغیر ناممکن ہے جبکہ ملک کی نوجوان نسل بھی سخت مایوسی کا شکار ہے اور ہمارے کھلاڑیوں کی ٹریننگ و پریکٹس کا عمل بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
پاکستان سپورٹس کمپلیکس وزیراعظم ہائوس سے صرف پانچ منٹ کی مسافت پر واقع ہے اور اس قومی ادارے کی تباہی چراغ تلے اندھیرے کے مترادف ہے، لہٰذا حکومت کو فوری طور پر اس کا نوٹس لینا چاہیے۔سپورٹس بورڈ میں میرٹ پر مستقل سربراہ کی تعیناتی عمل میں لا کر کھیلوں کو تباہی سے بچانا ناگزیر ہو چکا ہے ورنہ سیف گیمزکا انعقاد تو دور کی بات‘ اس عالمی ایونٹ میں ہمارے کھلاڑیوں کی شرکت پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا اور پی ٹی آئی کی سب سے بڑی حامی نوجوان نسل شدید مایوسی کا شکار ہو جائے گی۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت سپورٹس معاملات پر توجہ دے ۔