تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     02-12-2020

پڑوسی ممالک کے ساتھ سرگرمی

بھارتی وزارتِ خارجہ نے پچھلے ایک ہفتے میں کافی سرگرمی ظاہر کی ہے۔ وزیر خارجہ جے شنکر‘ سیکرٹری خارجہ ہرش شرنگلہ اور سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول ایک کے بعد ایک پڑوسی ملک کا دورہ کر رہے ہیں۔ یہ دورے اس لئے بھی ضروری تھے کہ ایک تو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں حکومت بدل رہی ہے اور دوسرا پڑوسی ممالک میں چین غیر معمولی سرگرمیوں کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ تیسرا نیپال اور سری لنکا جیسے ممالک میں ایسے رہنماؤں نے حکومتیں تشکیل دی ہیں جو ہندوستان کے بارے میں دوستانہ رویے کے لئے نہیں جانے جاتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے چین بھارت کے ہمسایہ ممالک کو گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ جس میں اسے اچھی خاصی کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ یہ سچ ہے کہ سبھی پڑوسی ممالک بھارت کے ساتھ یکساں برہمی کا رویہ نہیں رکھتے‘ لیکن یہ تمام چھوٹے ممالک بھارت چین دشمنی کا فائدہ اٹھانے سے باز بھی نہیں آتے۔ کس ملک نے چین کی سلک روٹ پراجیکٹ کو قبول نہیں کیا؟ چین انہیں بڑے قرضے دے رہا ہے‘ ان کے لئے سڑکیں‘ ہوائی اڈے اور بندرگاہیں بنائی جا رہی ہیں۔ چین ان کے ساتھ ملٹری کوآپریشن کے معاہدے بھی کر رہا ہے۔ چین کے صدر‘ وزیر خارجہ اور بڑے قائدین‘ جو اِن ممالک کے ناموں سے بھی کبھی واقف نہیں تھے‘ آج ان ممالک کا طواف کر رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی چین سے مقابلے کے ارادے سے سری لنکا اور مالدیپ جیسے چھوٹے ممالک کا سفر کرنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے ابھی سعودی عرب کا دورہ کیا تھا‘ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے بھی ملاقات کی تھی اور متحدہ عرب امارات وغیرہ کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔ اگر بھارت انہی کے نقش قدم پر چل رہا ہے اور اپنے نمائندوں کو ان ممالک میں بھیج رہا ہے تو بھارت کو اپنے قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑیں گے۔ اگر چین اور امریکہ آپس میں لڑ رہے ہیں تو ضرور لڑیں لیکن بھارت کو اس میں کبھی بھی کسی کا مہرہ نہیں بننا چاہئے۔ بھارت چین سے دو طرفہ طریقے سے نمٹنے کے طریقے سے بخوبی واقف ہے۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ ایران کو اپنا شکار بنانا چاہتی ہے اور افغانستان میں بھارت کو الجھانا چاہتی ہے تو بھارت کی وزارت خارجہ کو بائیڈن انتظامیہ کے آنے کا انتظار کرنا چاہئے اور تب تک کچھ خاموشی اختیار کرنا چاہئے۔
ایران اور بائیڈن کی الجھن
ایران کے جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ کا قتل ایک ایسا واقعہ ہے جو نہ صرف ایران اور اسرائیل میں خوفناک تناو ٔ کا سبب بنے گا بلکہ یہ بائیڈن انتظامیہ کے رویے پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔ فخری زادہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے علم بردار سائنس دان تھے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے ان کا نام ایک انتہائی خطرناک آدمی کے طور پر لیا تھا۔ ایرانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی جاسوسوں نے تہران کے قریب آبسارڈ نامی گائوں میں اس سائنس دان کو قتل کیا۔ اس سال جنوری میں ایران کے مقبول جنرل قاسم سلیمانی کو امریکہ نے بغداد میں قتل کیا تھا۔ ایران کے اعلیٰ رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران اس قتل کا بدلہ لے گا۔ اس طرح سے گزشتہ 10 سالوں میں چھ ایرانی سائنس دان جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اس میں اسرائیل کا ہاتھ بتایا گیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ بھی اس تازہ ترین قتل کیس میں ملوث ہے‘ کیونکہ ٹرمپ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کا دورہ کیا تھا اور وہاں سعودی کرائون پرنس اور نیتن یاہو سے ملاقات کی تھی۔ ایرانی حکومت کو شبہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ 20 جنوری کو اقتدار چھوڑنے سے پہلے بھی کچھ ایسا ہی کرنا چاہتی ہے‘ جس کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ ایران کے ساتھ ٹوٹے ہوئے ایٹمی معاہدے کو چاہ کر بھی بحال نہ کر سکے۔ اس حقیقت سے تو سبھی واقف اور آگاہ ہوں گے کہ اوبامہ انتظامیہ اور یورپی ممالک کے ساتھ جو جوہری معاہدہ ایران نے کیا تھا‘ ٹرمپ نے اسے یک طرفہ طور پر ختم کر دیا تھا اور ایران پر وہ پابندیاں دوبارہ نافذ کر دی تھیں‘ جو اس معاہدے کے طے پانے کے بعد اٹھا لی گئی تھیں۔ اب اگر ایران ناراض ہو جاتا ہے اور امریکہ کے کسی بڑے شہر میں کوئی بہت بڑی کارروائی کرتا ہے تو بائیڈن انتظامیہ ایران سے فاصلہ رکھنے پر مجبور ہو جائے گی۔ ایرانی رہنما اس مخمصے کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ ٹرمپ نے اپنے اعلان کے مطابق ابھی تک ایران پر بم باری نہیں کی ہے۔ اپنی شکست کے باوجود‘ ہیرو بننے کیلئے ٹرمپ جاتے جاتے اگر ایران پر حملہ کر دیں تو حیرت نہیں ہو گی۔ بہرحال وہ ایران مخالف اقوام کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہو ہی گئے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ اس اسرائیلی حملے کی کھلے عام مذمت نہیں کر سکتی‘ لیکن وہ کسی پر الزام عائد کیے بغیر اس قتل کی مذمت تو کر ہی سکتی ہے۔ ایران اور بائیڈن انتظامیہ کو اس مسئلے پر قدم اٹھانا ہو گا۔
حکومت کسانوں کی بات سنے
مرکزی حکومت نے دہلی میں پنجاب اور ہریانہ کے ہزاروں کسانوں کو احتجاج کی اجازت دے کر ایک اچھا کام کیا ہے‘ لیکن جس طرح انہیں دو دن تک دہلی میں داخلے سے روکا گیا وہ غیر جمہوری تھا۔ ملک کے کسان سب سے زیادہ نظر انداز‘ مظلوم اور غریب ہیں۔ اگر آپ ان کے مطالبات کو نہیں مانتے تو کون سنے گا؟ اگر آپ پارلیمنٹ میں جو بھی قانون بناتے ہیں اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو اسے غور سے سنا جانا چاہئے اور اس کا حل بھی نکالنا چاہئے۔ مظاہرین میں سے کچھ کانگریسی اور خالصتانی بھی ہو سکتے ہیں اور ان میں سے کچھ نے نریندر مودی کے خلاف انتہائی نازیبا بات بھی کہی ہے‘ لیکن کیا اچھی بات ہو کہ حکومت کو اب زراعت سے متعلق ایک چوتھا قانون پاس کرنا چاہئے اور جن 23 فصلوں کو قانونی شکل دی ہے اس کی معاون قیمت کا اعلان کریں۔ اسے کیرالہ حکومت سے سبق سیکھنا چاہئے جس نے کم از کم 16 سبزیوں کی قیمتوں کا اعلان کیا ہے۔ کسانوں کو ہونے والے نقصان پر 32 کروڑ اور ان کی لاگت سے 20 فیصد زیادہ منافع دیا ہے۔ ہندوستان کے صرف چھ فیصد کسان منڈیوں کے ذریعے اناج بیچتے ہیں اور پیداوار کا 94 فیصد کھلی منڈی میں فروخت ہوتا ہے۔ پنجاب اور ہریانہ میں 90-95 فیصد پیداوار منڈیوں کے ذریعے سپورٹ قیمت پر فروخت کی جاتی ہے۔ کاشت کاروں کو خدشہ ہے کہ کھلی منڈی میں قیمتوں پر ان کی پیداوار لوٹ لی جائے گی۔ ان کے دل سے اس خوف کو دور کرنا بہت ضروری ہے۔ امریکہ میں کسان کھلے بازار میں اپنا سامان بیچ دیتے ہیں‘ لیکن وہاں ہر کسان کو سالانہ 62 ہزار ڈالر ملتے ہیں؟ شاید ہی دو فیصد لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں‘ جبکہ ہندوستان میں 50 فیصد لوگ کھیتی باڑی سے وابستہ ہیں۔ زرعی پیداوار کے لئے بڑی مارکیٹیں کھولنے کا فیصلہ اپنے آپ میں اچھا ہے۔ اس سے بیج‘ کھاد‘ آبپاشی‘ بوائی اور پیداوار کے معیار اور مقدار میں بھی اضافہ ہو گا۔ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک بھی بن سکتا ہے‘ لیکن کھیتی پر منحصر کسان کو ناراض کر کے اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وزیر زراعت نریندر تومر پہل کرتے ہیں اور بعد میں کسان رہنمائوں سے ملتے ہیں تو اس سے کسان تحریک کو خوشی مل سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved